زچگی کو آسان مت سمجھیے!


“زچگی کے دوران ویجائنا پھٹ جائے اور شگاف مقعد(Anus) تک جا پہنچے تو کیسے پہچانیں گی کہ نقصان کتنا ہوا؟

“مسلز ( muscles )کے پھٹ جانے سے”

“کونسے مسلز؟”

“مقعد کے ارد گرد والے مسلز”

“وہاں مختلف مسلز ہوتے ہیں، ان کی کیا پہچان ہے؟”

“وہ مقعد کے گرد ہوتے ہیں”

“صحیح فرمایا لیکن ان کی کوئی پہچان بھی تو ہو گی؟”

“جی ایک اندر ہوتا ہے اور ایک باہر”

“ درست لیکن اندر اور باہر کے مسلز مقعد کے گرد چوڑی دار پیچ بناتے ہیں جو پاخانے اور ہوا کے اخراج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ ان کی پہچان بتائیے؟”

“میں نے آج تک جتنی زچگیاں کروائیں، ان میں یہ پیچ کبھی نہیں پھٹے”

“کیسے اور کیوں؟”

“جی بس شکر ہے کہ ہر چیز ٹھیک ٹھیک ہوتی رہی”

“آپ کے ہسپتال میں ماہانہ کتنی زچگیاں ہوتی ہیں؟”

“جی تقریباً پانچ سو”

“کیا آپ کو  علم ہے کہ نارمل ڈلیوری میں تین سے پانچ فیصد خواتین کا مقعد لازمی متاثر ہوتا ہے؟”

“نہیں جی شکر ہے کہ میری موجودگی میں ڈلیور ہونے والی زچہ خواتین کو یہ نقصان نہیں ہوتا”

“اچھا فرض کریں کہ ہو جائے تو کیا آپ کو مقعد کے پیچوں کی سلائی کرنی آتی ہے؟”

“جی کر لوں گی اگر ضرورت پیش آئی تو”

“کتنی دفعہ یہ سلائی کی ہے پچھلے دس برس میں؟”

“جی کی تو ایک دفعہ بھی نہیں، لیکن دیکھا ہے دو تین دفعہ تو میں کر لوں گی”

“کیا آپ گاڑی چلانے کی کتاب پڑھ کر اور پھر کسی اور کو گاڑی چلاتا دیکھ کر گاڑی چلا سکتی ہیں؟”

یہ ہیں وہ سوالات جو ہم کسی بھی ڈاکٹر کو نوکری کے لئے چننے سے پہلے ضرور پوچھتے ہیں۔ بدقسمتی سے زچگی سے متعلقہ امور میں مہارت کے معنی آج بھی کتابی علم ہے۔ زبانی کلامی کچھ پوچھ لیجیے سب علم ہو گا لیکن جیتے جاگتے انسانی جسم کے رموز کی کھٹنائیوں پہ دسترس…. یہ وہ بھاری پتھر ہے جو سب کے نصیب میں نہیں ہوتا۔

یہ لمحہ فکریہ تو ہے لیکن اس سے بھی المناک بات یہ ہے کہ جو اس پتھر تک پہنچ جاتے ہیں وہ اپنا علم دوسروں تک منتقل کرنے پہ تیار نہیں ہوتے۔

ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ سب برسہابرس کی محنت، مال کی قربانی ، وقت اور غیر ممالک میں کشٹ کاٹنے کا ثمر ہے۔ اب یہی تو وہ گر ہیں جو انہیں نہ صرف دوسروں سے ممتاز بنائیں گے بلکہ دولت مندوں کی جیب ان کی خدمات کو خرید سیکھے گی۔

بقول ابن انشا، مانا سجن، یہ بھی مانا سجن…. لیکن اس قصے میں ان کا کیا کریں جن کی جیب میں چند کھنکھناتے سکوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ بے قصور مارا جانے والا بے چارہ مریض! نہ آگہی ہے کہ زچگی جیسے کھٹن مرحلے سے گزرنے کے بعد جسم میں کونسی تبدیلی نارمل ہے اور اور کونسی ابنارمل؟ نہ جیب بھاری ہے کہ مہارت والوں تک پہنچ سکیں۔

زیادہ تر خواتین سمجھتی ہیں کہ زچگی کے بعد پاخانے اور ہوا کے اخراج میں اگر تبدیلی آتی ہے یا جسم کا کنٹرول ڈھیلا پڑتا ہے تو اس میں فکر کیسی؟

“ارے بی بی تم انوکھی ہو کیا؟ بھئی بچہ پیدا کیا ہے ، کتنے گھنٹے کے درد سہہ کر زور لگا لگا کر جسم سے باہر نکالا ہے، تو جہاں ویجائنا ڈھیلی پڑی ہے وہاں ساتھ موجود مقعد پہ بھی تو اثر ہو گا…. سب عورتوں کو یہ مشکل ہوتی ہے، ہمیں بھی ہوئی تھی۔ انوکھی ہو تم کیا؟”

یہ ہیں وہ حکایات جو خاندان کی بڑی بوڑھیوں کی نوک زبان پہ رکھی ہوتی ہیں اور وہ وقتاً فوقتاً اسے زچہ کے کان میں انڈیلتی رہتی ہیں۔ نتیجہ کیا نکلتا ہے کہ ایک نوعمر عورت مقعد کی کمزوری، زچگی کا تحفہ سمجھ کر نہ صرف قبول کر لیتی ہے بلکہ ایک ایسی زندگی گزارتی ہے جہاں اسے اپنے جسم پہ ہی اختیار نہیں رہتا۔

ایک نوعمر لڑکی کو دیکھنے کا ایک مرتبہ اتفاق ہوا جس کی ویجائنا اور مقعد کے درمیان مسلز نامی کوئی چیز تھی ہی نہیں اور دو مختلف اعضا ایک ہو چکے تھے۔ ہم ہک دک دیکھتے رہے اور پوچھنے پر یہی جواب ملا کہ انہیں بتایا گیا تھا کہ اس طرح تو ہوتا ہے …. سو اب وہ چوبیس گھنٹے پیڈ استعمال کرنے پہ مجبور تھیں کہ نہیں معلوم کب پاخانے کا داغ لگ جائے۔

اس ضمن میں ہمارے پاس ایک مزے کا قصہ اور بھی ہے لیکن بہتر ہے کہ تھوڑا سا آپ کو ان اعضا کے بارے میں بتا دوں جو مقعد سے پاخانے اور ریح کا اخراج کنٹرول کرتے ہیں۔

مقعد ( anus) نظام انہظام کو باہر کی دنیا سے منسلک کرتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے دہانہ۔ منہ میں ڈالی جانے غذا کو جسمانی مشینری پاخانے میں تبدیل کرتی ہے جو بڑی آنت میں جمع ہوتا رہتا ہے۔ اب سوچیے کہ اگر مقعد، منہ کی طرح ہر وقت کھلا رہے تو کیا ہو گا؟ پاخانے کے خروج پہ انسانی جسم کا کنٹرول ختم ہو جائے گا، یعنی کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ!

مقعد کو بند رکھنے کے لئے فطرت نے دو دروازوں کا بندوبست کیا گیا ہے جو اندرونی چوڑی دار پیچ (internal anal sphincter) اور بیرونی چوڑی دار پیچ (external anal sphincter) کہلاتے ہیں۔ اندرونی پیچ کا کنٹرول دماغ سے براہ راست ہوتا ہے اور بیرونی پیچ دماغ اور انسانی ارادے کے ماتحت کام کرتا ہے۔

فرض کیجیے آپ محفل میں بیٹھے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ریح کا خروج نہ ہو تو آپ کوشش کر کے بیرونی پیچ بھینچ کے ریح روکے رکھیں گے۔ اسی طرح آپ بازار میں ہوں اور پاخانے کی حاجت محسوس ہو ظاہر ہے کہ ملک عزیز میں ایسا کوئی انتظام تو ہے نہیں۔ اور اگر کہیں کوئی باتھ روم مل بھی جائے تو اندر کے منظر کو نہ قوت شامہ سہار سکتی ہے اور نہ ہی آنکھ اس کی تاب لا سکتی ہے۔ کیا کہیے کہ صفائی نصف ایمان کا آموختہ کتابوں میں ہی سجتا ہے۔

سو ایسے میں آپ کی مدد بیرونی پیچ ہی کرے گا جسے آپ اپنے ارادے اور دماغ کی مدد سے بھینچ کر رکھیں گے، جب تک گھر نہ پہنچ جائیں۔

زچگی کے دوران تین سے پانچ فیصد عورتوں میں یہ پیچ پھٹ جاتے ہیں اور مقعد کا کنٹرول ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔

ان پیچوں کی پہچان اور ان کی درست طریقے سے سلائی ہی ایک عورت کی زندگی کو عذاب بننے سے بچا سکتے ہیں۔

(ہماری بات جاری ہے۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments