ساقی و یزداں


انسان نے اس خوبصورت اور وسائل سے بھرپور کرہ ارض میں خود کو ہی ملکوں سرحدوں، غیر فطری لکیروں، نسلوں، قوموں، مذہبوں، اور پھر فرقوں اور ذاتوں تک کی صورت میں قید خانے اور پنجرے بنا کر ان میں محسور اور قید کر دیا ہے۔ آپ ذرا چھوٹے ماڈل پر ہی دیکھیں، کہ اگر ہمیں خود ساختہ یا حقیقی خطرات بوجوہ لاحق نہ ہوں اور ہمیں ہتھیار خریدنے یا فوج رکھنے کی اور اس پر خطیر خرچہ کرنے کی ضرورت نہ رہے اور یہی رقم ہم تعلیم و تربیت، تحقیق، صحت اور عوامی فلاح و سائنسی و سماجی ترقی پر، پیچھے رہ جانے والے طبقوں کی تعلیم و بہبود پر منصوبہ بندی سے خرچ کریں، تو نہ ہمیں کسی سے قرضہ لینے کی ضرورت ہو اور پانچ سال کے اندر ہمارا ملک ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں شامل ہو سکتا ہے، اب یہی ماڈل بڑھا کر اسے دنیا پر لاگو کریں، کہ تمام دنیا میں جتنی بڑی صنعت، دفاعی پیداوار کی اور جنگی ہتھیاروں اور ان پر تحقیق کی ہے، اور کسی چیز کی نہیں، اور کسی ایک مد میں دنیا میں سب سے زیادہ سرمایہ اسی صنعت یعنی ہتھیاروں سے ہی متعلق ہے، اگر ہم تمام موجودہ نسل انسانی کو ایک برادری اور ایک نسل تسلیم کر کے اس خوبصورت اور وسائل سے بھرپور کرہ ارض کو ان کا مشترکہ وطن تسلیم کر لیں، تو جتنے پیسے ہم دنیا میں صرف دفاع کی صنعت پر خرچ کرتے ہیں اس رقم کے ایک تہائی سے، دنیا کے سب مجبور اور محروم افراد کو انسانی صف میں ان کا جائز مقام، اور بنیادی انسانی ضروریات اور حقوق مہیا کئیے جا سکتے ہیں۔

موجودہ علم اور سائنس و ٹیکنالوجی کی مدد سے دنیا کی پیداوار باآسانی تین گنا کی جا سکتی ہے، ہر انسان کو خوراک، رہائش، تعلیم، روزگار اور علاج کی معیاری سہولیات دی جا سکتی ہیں، ہر اچھے مقصد سے بہترین اور موثر ترین منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے، رسل و رسائل اور جدید کمیونیکیشن کی ٹیکنالوجی کی مدد سے دنیا کے ہر انسان، چاہے وہ دنیا کے کسی دور دراز کونے میں ہی ہو موثر اور مفید رابطہ رکھا جا سکتا ہے، توانائی کے نئے وافر اور محفوظ ذرائع دریافت کئیے جا سکتے ہیں، اس کرہ ارض جو اس معلوم ویران کائنات میں ہمارا یعنی نسل انسانی کا مشترکہ گھر ہے کے اچھے ماحول کی تشکیل کی منصوبہ بندی اور مشترکہ موثر اقدامات کئیے جا سکتے ہیں، اور یہ سب تب ہی ممکن ہے جب ہم ان انتہائی اہم امور کے لیے مل کر کام کریں۔

دنیا کے بڑے دفاعی صنعت کار اور طاقت کے بڑے مراکز پر قابض طبقات، پہلے جنگیں کرواتے ہیں، علاقائی تنازعات پیدا کروائے جاتے ہیں، مختلف خطوں میں جاہلیت، تعصب اور نفرت کو ایک منصوبہ بندی کے ساتھ فروغ دیا جاتا ہے، منصوبہ بندی کے ساتھ خوراک کے قحط پڑوائے جاتے ہیں، قتل و غارت کروائے جاتے ہیں، جنگیں کروائی جاتی ہیں، بلکہ مختلف ممالک میں حکومتوں کی تشکیل میں بھی ایسے اثر انداز رہا جاتا ہے، کہ ان کے مقاصد پورے ہوتے رہیں، اور ان کے منصوبوں اور عزائم کے لیے نا مواقف اور مخالف سوچ کہیں نہ اقتدار میں آ جائے، اس مقصد سے، اس جدید دور میں بھی کھلے عام آمریت اور شخصی و غیر جمہوری و فسطائی حکومتوں کی تشکیل میں مدد، اور سرپرستی تک کی جاتی ہے، تاکہ ان کے انسانی تباہی کے آلات بکتے رہیں، اور ان پسماندہ رکھے گئے ممالک کے محروم باشندوں کا بے گناہ خون، دولت کی شکل اختیار کر کے ان کی تجوریوں میں جاتا رہے۔

اس وقت دنیا کی پچانوے فی صد دولت صرف پانچ فی صد افراد کے پاس ہے، اور باقی پچانوے فی صد کسی نہ کسی طرح کم یا زیادہ محروم اور غریب و مجبور ہیں۔ انتہا یہ کہ دنیا میں ان استحصالی سرمایہ پرستوں نے بنیادی انسانی ضرورت تعلیم اور صحت تک کو صنعت اور کاروبار کی حیثیت دے دی ہے، ان کا بس چلے تو یہ براہ راست انسانی گوشت اور خون کا کاروبار تک شروع کر دیں۔ آخر کب تک ہم بحیثیت انسان ان درندوں کا شکار بنتے رہیں گے، کب ہم میں اس صورتحال اور حالت سے نکلنے کا شعور پیدا ہو گا، کب ہم اس کے لیے بات کریں گے اور پھر اس مشترکہ انسانی مقصد کے حصول کے لیے منصوبہ بندی اور جدوجہد کریں گے؟

اس وقت تو یہ صورتحال ہے کہ وہ استحصالی طاقتیں جو ہزاروں سالوں سے مسلسل دنیا میں اقتدار اور طاقت، کے منبعوں پر قابض ہیں اور انہوں نے اپنے اختیار اور سرمائے کی طاقت سے مذہب، اخلاقیات حتیٰ کہ علم و شعور تک کو اپنا خدمت گار ملازم، مددگار اور کارندہ بنا رکھا ہے، جو عوام میں اٹھنے والی اپنے حقوق کی جائز آوازوں اور شعور کے خلاف ایک منظم طریقے سے مقتدر استحصالی طبقات کے مقاصد کی حفاظت کا کام سرانجام دیتے ہیں، کہیں یہ مذہب کے نام پر عوام کو یہ بتاتے ہیں کہ ان کی غربت، محرومیوں، اور مجبوریوں کا باعث کوئی دنیاوی مقتدر ذمہ دار یا حکمران نہیں بلکہ خدا ہے جس نے اپنی کسی ”مصلحت“ ( جس کی کبھی وضاحت نہیں کی جاتی کہ کیا مصلحت ) کی وجہ سے تم کو دنیا میں محروم، مجبور اور ذلیل رکھا ہوا ہے، اور دنیا میں جن کو اللہ تعالیٰ نے مقتدر اور طاقت ور بنایا ہے ان کو اقتدار و اختیار دیا ہے، یہ بھی مشیت خداوندی ہے اور اس کے بارے میں سوال اٹھانا، اور ان سے اپنے حقوق کا سوال کرنا اللہ کی رضا میں دخل اندازی کے مترادف ہے، تم کو صبر کا اور شکر کا درس اور حکم دیا گیا ہے، چاہے کوڑے سے بھی اٹھا کر کھانا پڑے، تو شکر ادا کرو، اور اپنی ہر محرومی پر، ہر دکھ، اور تکلیف پر صبر کرو، صلہ مرنے کے بعد مل جائے گا۔

اب ذرا غور فرمائیے یہاں اور کچھ کہنے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ اسی طرح اس غاصب مقتدرہ نے دانش اور اہل دانش کو بھی کرائے پر یا لیز پر لے رکھا ہے جو انسانوں کو اپنے علم، منطق اور دلائل سے اس بات پر قائل کرتے رہتے ہیں، کہ دنیا کا موجودہ نظام اور طریقہ ہی ایک قدرتی اور ”فطری“ طریقہ ہے، جس کے کسی متبادل کے بارے میں سوچنا بھی وقت ضائع کرنے کے اور برائی کے مترادف ہے، گویا اہل مذہب جس نئے خیال اور سوچ کو ”گناہ“ بتاتے ہیں یہ بکے ہوئے اہل دانش اسے ہی ناممکن، لغو آور برائی بتاتے ہیں، لہذا اگر اس تمام صورت حال اور منظر نامے کا بڑے کینوس پر جائزہ لیا جائے تو بالائی فضاء کا تو معلوم نہیں، لیکن اس دنیا میں دو ہی قسم کے خیال ازل سے موجود دکھائی دیتے ہیں، ایک خیر کا ایک شر کا، اب ہم کو اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق پوری ایمانداری سے یہ فیصلہ کرنا ہے، کہ دنیا میں، حامل اور محروم میں سے شر کون ہے اور خیر کون؟

اور کیا اس خون آشام اور خونخوار ظلم کے نظام کو یوں ہی جاری رہنا چاہیے، یا اہل ضمیر اور اہل دانش و شعور کے لیے وہ وقت آ چکا ہے کہ وہ اس نظام کے خلاف اور اسے بدلنے کے لیے انفرادی اور اجتماعی طور پر آواز بلند کریں، اور اس خواب کی تعبیر پانے کے لیے منظم شعوری و عملی جدوجہد کا آغاز کریں۔ ”دو نام ہی ہیں اس دنیا میں، اک ساقی کا، اک یزداں کا“ ”اک نام تسلی دیتا ہے، اک نام پریشاں کرتا ہے“ (ظفر محمود وانی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments