فلسطین کی درد بھری کہانی


فلسطین مشرق وسطیٰ میں ایک مسلم اکثریتی مملکت ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی یہ مقدس سرزمین، یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے لیے یکساں اہمیت کی حامل ہے۔

پہلی جنگ عظیم میں یہ علاقہ سلطنت عثمانیہ کی زیر سلطنت تھا۔ جنگ میں گوروں نے اس کے کچھ حصوں پر قبضہ جما لیا اور یہ تجویز پیش کی کہ فلسطین میں یہودیوں کی خود مختیار مملکت قائم کی جائے۔ اس وقت فلسطینی مسلمانوں کی آبادی 93 فیصد، یہودیوں کی 5 فیصد اور دیگر مذاہب کی 2 فیصد تھی۔ اہل اسلام نے برطانیہ اور یورپ کے اس ناجائز مطالبے کی سخت مخالفت کی لیکن انگریز اس پروپیگنڈے پر ڈٹا رہا، مختلف ہیلے بہانوں سے یہودیوں کی مدد کرنے لگا اور دنیا کے مختلف کونوں سے انہیں لے آ کر فلسطین میں مقیم کرنے لگا۔

1948ء میں برطانیہ نے اعلان کیا کہ اس کی فوجیں فلسطین سے واپس ہوں گی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی ایک تجویز دی کہ تنازع کو ختم کر کے فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصہ مسلمانوں اور دوسرا حصہ یہودیوں کو دیا جائے کیوں کہ یہ فیصلہ یک طرفہ اور زیادتی پر مبنی تھا اس لیے یہ مسلمانوں کے لیے کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہو سکتا تھا اس لیے انہوں نے اس کی سخت مخالفت کی۔

1948ء زبردستی چند سو یہودی بستیوں کو اسرائیل کا نام دے کر اسلامی مخالف ممالک جن میں برطانیہ، روس اور امریکہ سمیت کئی یورپی ممالک شامل ہیں انہوں نے ناجائز ریاست کی حمایت کی اور فلسطینی مسلمانوں کے خون کو اسرائیل پر جائز قرار دے دیا۔ ناجائز صیہونی ریاست کی ہر طرح سے یورپ کی طرف سے مالی اور عسکری مدد کی گئی۔

ان ناجائز اقدامات کے ردعمل میں فلسطینی مسلمانوں اور صیہونی یہودیوں میں جنگ چھڑ گئی، جس میں مصر، شام دیگر اسلامی اور عرب ممالک نے مجاہدین کی بھرپور مدد کی۔ اقوام متحدہ نے یورپ سے ملنے والی تنخواہ کو حلال کرنے کی غرض سے جنگ بندی کروا دی مگر معصوم و مظلوم فلسطینیوں کو آج تلک حق واپس نہیں دیا جا سکا، اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ طاقتور ممالک اسرائیلی مظالم کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔

مسئلہ فلسطین پر چار عرب۔ اسرائیل جنگیں لگ چکی ہیں پر مسئلہ فلسطین اب تک بے نتیجہ ہے شاید اس کی ذمہ دار مسلمانوں میں پائی جانے والی چھوٹی چھوٹی لسانی اور فرقہ وارانہ اختلافات، اندرونی ذاتی مسائل، تجارتی مسائل اور ایک دوسرے پر اعتماد کی کمی بھی ہے۔

سن 2018 ء سے نہتے فلسطینی مسلمانوں پر مظالم مزید تیز کر دی گئی ہیں، سرچ آپریشن کے نام پر کئی مسلمان مارے جا چکے ہیں، کئی بوڑھے اور جوان گولیوں کی زد میں آ کر دیکھنے اور سننے کی صلاحیت کھو چکے ہیں، عورتوں اور بچوں کے بھی حقوق پامال کیے جا رہے ہیں۔ فلسطینی مسلمانوں کو تعلیم، صحت اور غذائی مسائل کا سامنا ہے۔ انہیں یہ معلوم نہیں کہ کب صیہونی فوج ان کے گھر میں داخل ہو کر ان کے چار دیواری کی عزت کو پامال کر سکتا ہے۔

مسلمان حکمرانوں پر لازم ہے کہ فلسطینی مسلمانوں کے لیے آواز بلند کریں، ان کے حقوق کے لیے دنیا کے ہر پلیٹ فارم پر جائیں، فلسطین کے ساتھ سیاسی خارجی، دفاعی اور عسکری رابطے مضبوط بنائیں تاکہ دشمن پر کلمہ طیبہ کا روب طاری ہو سکے، دوسری صورت میں آج جو بیت المقدس میں ہو رہا ہے یہی حال انقرہ، ریاض، استنبول، تہران اور اسلام آباد میں ہو سکتا ہے۔

بطور امت محمدی ہمارا فریضہ ہے کہ ہم اپنے فلسطین، کشمیر اور دنیا کے ہر کونے میں بسنے والے مسلمان کے حالات سے باخبر رہیں، اپنے دل میں ان کے لیے درد رکھیں، جس حد تک ممکن ہوں ان کی نصرت کریں۔ ان کی اخلاقی حمایت جاری رکھیں اور ان کے لیے دعا گو رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments