کہانی کا آخری کنارہ ۔۔۔۔ منزہ احتشام گوندل


” کہانی کا آخری کنارہ“ منزہ احتشام گوندل کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ ہے۔ اس سے پیشتر ان کے افسانوں کا مجموعہ ”آئینہ گر“ شائع ہوا جس پر اپنے تاثرات رقم کرتے ہوئے میں نے لکھا تھا کہ منزہ اپنے ہم عصر افسانہ نگاروں میں سب سے زیادہ حیران کردینے والی تخلیقی صلاحیت کی مالک ہیں۔ آئینہ گر کا پیش لفظ، ”اعتراف“ بجائے خود حیران کن تخلیق تھا۔

اب جب کہ میں نے ”کہانی کا آخری کنارہ“ کا مطالعہ کیا ہے تو ”اعتراف“ کی جگہ ”میرا نظریہ فن“ پڑھنے کو ملا جو ایک مرتبہ پھر ایک حیران کن تخلیقی صلاحیت کا حامل ہے۔ پیشہ ور اور نقال لکھاریوں کو چھوڑ کر، ہر لکھنے والا کبھی کبھار یہ ضرور سوچتا ہے کہ وہ کیوں لکھتا ہے۔ اور یہی سوال منزہ احتشام نے اس کتاب کے پیش لفظ میں اٹھایا ہے۔ پھر وہ خود ہی اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتی ہیں کہ لکھنا ان کے اندر کے عذابوں سے کچھ دیر کے لیے چھٹکارا حاصل کرنے کا باعث ہے۔

اگلی بار پیالہ لبالب بھرنے سے پہلے اس انخلاء سے انہیں سرور و بہجت نصیب ہوتی ہے۔ اسی پیش لفظ میں وہ آج کے قاری کا رویہ بھی بتاتی ہیں کہ قاری آپ کا لکھا، سارا، اچھا برا، آپ کے منہ پہ دے مارتا ہے۔ یہ پیش لفظ اس لیے بھی اہم ہے کہ اس سے ہمیں اس افسانوی مجموعے کے افسانوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ”آئینہ گر“ کے افسانے بہت بھرپور افسانے تھے لیکن ”کہانی کا آخری کنارہ“ کے افسانے مجھے بطور قاری زیادہ پسند آئے ہیں کہ میں نقاد یا مبصر نہیں، ادب کا ایک قاری ہوں۔

افسانے کا فن بنیادی طور پر ہے کیا؟ کہانی کہنے کا فن۔ اب اس کہانی پن پر اتنے صفحات کالے ہوچکے ہیں کہ مزید کی گنجائش نہیں تاہم منزہ کے ان افسانوں میں کہانی پن پورے طمطراق سے موجود ہے۔ آج کے دور کا کہانی پن۔ پریم چند، منٹو یا ما بعد یا ترقی پسند ادیبوں کی طرح کا نہیں۔ ( وہ بہت بڑے لکھنے والے تھے اور ان کو پڑھے بغیر تو کوئی کہانی لکھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ شاید آج وہ زندہ ہوتے تو کچھ اسی قسم کی کہانیاں لکھتے )

کہانی کسی ایک نقطے یا لمحے کا نام نہیں بلکہ ایک سلسلے کا نام ہے۔ منزہ احتشام کی کہانیوں کی یہ نمایاں خوبی ہے کہ اس میں کہانی کا تسلسل برقرار ہے۔ صراط مستقیم میں چلتی نظر آتی کہانی، واقعات، کرداروں اور ان کے محسوسات اور تاثرات کو اپنے جلو میں لیتی، گرد و پیش پھیلتی ہے۔ یہی آج کے افسانے کی پہچان ہے اور یہ پہچان منزہ کے اسلوب فن میں پوری طرح موجود ہے۔ مجھے ان بیس کی بیس کہانیوں میں ہر کہانی مکمل کہانی پن کے ساتھ پڑھنے کو ملی ہے

جہاں تک ان افسانوں کے کرداروں کا تعلق ہے تو افسانہ نگار کو ان کرداروں کو تخلیق نہیں کرنا پڑا بلکہ یہ تمام کردار ہمارے آس پاس، ارد گرد بس رہے ہیں۔ منزہ نے بس ان کی نفسیات کشید کر کے انہیں کہانیوں میں سمویا ہے۔ کردار خواہ پست طبقے کے ہیں، مڈل، لوئر مڈل اپر مڈل یا مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، ان کی داخلی اور خارجی حیثیت ہمارے سامنے لا رکھی ہے۔ اور یہیں ہمیں داخلی اور خارجی حقیقت نگاری بھی نظر آتی ہے کیونکہ اس کا تعلق افسانہ نگار کے سماج، سوسائٹی اور اقتصادیات سے جڑا ہوا ہے۔

آج کے دور کے افسانہ نگاروں پر بات کرتے ہوئے یہ بات اکثر سننے کو ملتی ہے کہ وہ کہانی کی رمز سے نا آشنا ہیں کیونکہ ان کے زندگی کے تجربات کم ہیں جنہیں وہ کہانی میں بیان کر سکیں۔ ”کہانی کا آخری کنارہ“ کے افسانے، افسانہ نگار کے اپنے تجربات کی مکمل عکاسی کرتے ہیں۔ یہی اس کے اسلوب اور بیانئے کی تاثیر ہے۔ ان افسانوں میں کوئی ایک کہانی بھی کچی یا ادھ پکی نہیں۔ ان کہانیوں کا بنیادی موضوع انسان ہے۔ انسانی جبلت اور نفسیات کے کچھ ایسے موضوعات پر بھی کچھ کہانیاں اس مجموعے میں ہیں جن پر آج کے افسانہ نگار بالخصوص خواتین لکھنے سے گھبراتی ہیں کہ انہیں بولڈ یا فحش نگار نہ سمجھ لیا جائے۔ منزہ احتشام نے پیٹ کی بھوک اور جسم کی بھوک کے بارے میں کہانیوں کے کرداروں کو جس طرح پینٹ کیا ہے وہ کہانی کا تقاضا بن کر سامنے آئے ہیں۔ کسی زبردستی یا شعوری کوشش کی کوئی نشانی نہیں ملی۔

ہمارے سماج میں ہر ذی شعور انسان، خواہ وہ مرد ہو یا عورت یا ٹرانسجینڈر، مختلف سوالات میں گھرا رہتا ہے۔ یہی سوالات منزہ احتشام کو بھی درپیش ہین اور انہوں نے ان افسانوں میں، بین السطور، ان کا اظہار کیا ہے۔ ڈکشن کے اعتبار سے منزہ کے دونوں افسانوی مجموعوں میں پنجابی اور ہماری علاقائی زبانوں کے علاوہ بعض ہندی کے الفاظ بھی ملے ہیں جو درست طور پر استعمال کیے گئے ہیں اور ظاہر کرتے ہیں کہ صاحب تصنیف کو ان زبانوں پر عبور ہے۔ افسانوں کا لوکیل کہیں دیہی، کہیں شہری اور کہیں دونوں کا امتزاج ہے اور قاری کے لیے مانوس بھی۔

ویسے تو کتاب کے بیس کے بیس افسانے ہی بہت عمدہ ہیں لیکن مجھے، ”مفت خورا“ ، ”لامکاں“ ، ”گرہیں“ ، ”حیات رائیگاں“ ، ”سرد مزاج عورتوں کے حق میں مکالمہ“ ، ”انحراف“ ، ”راستی“ اور ”حبل الورید“ نے بہت متاثر کیا ہے۔ ان تمام افسانوں کی ایک خوبی یہ ہے کہ سماج میں پھیلی سرد مہریوں، زندگی کے پھیکے رنگوں اور سماجی و نفسیاتی تگ و دو میں بستے کرداروں کی طویل داستان کے باوجود یہ مختصر افسانے ہیں۔ مختصر افسانہ ایک اہم فن ہے۔ ماضی و حال، قدیم و جدید یا روایت و جدت کے درمیاں معاشی و سماجی حصار کو سامنے رکھتے ہوئے اختصار سے کہانی کو نبھانا ایک مشکل کام ہے اور منزہ احتشام گوندل نے یہ کام خوش اسلوبی سے انجام دیا ہے۔

میرے خیال میں منزہ صاحبہ کو پنجابی زبان میں بھی کہانی بننے اور بیان کرنے کا تجربہ کرنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments