عقل مند دیوانہ


کہتے ہیں دنیا عقل مندوں نے نہیں دیوانوں نے بنائی ہے۔ دیوانے ہوتے کون ہیں؟ اکثر و بیشتر جب ہم اردو ادب میں دیونگی کی تعریف کرتے ہیں تو ایک پاگل، آوارہ، مفلوک الحال انسان پردہ ذہن پر منقش ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اگر بغور دیکھا جائے تو ہے بھی ایسا ہی۔ لیکن کچھ دیوانے ایسے بھی ہوتے ہیں جو دیوانگی میں بھی ہوش، فہم اور عقل کا دامن نہیں چھوڑتے۔ جیسے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان تھے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایسے دیوانے روز روز اور ہر گھر میں پیدا نہیں ہوتے۔

جیسے اقبال جیسے دیوانے کے لئے شیخ نور محمد کا گھرانا ضروری تھا ایسے ہی ڈاکٹر عبدالقدیر جیسے دیوانے کے اس دنیا میں آنے کے لئے ماسٹر عبدالغفور اور زلیخا بیگم جیسے والدین کا ہونا ضروری تھا۔ اس لئے کہ ایک ماسٹر کا بیٹا کیسے سوچ سکتا ہے کہ وہ پچاس کی دہائی میں اپنے بیٹے کو اعلی تعلیم کے لئے ہالینڈ بھیج دے۔ لیکن ایسا ہوا ماسٹر عبدالغفور جیسا دیوانہ ہی یہ کام کر سکتا تھا۔ کہتے ہیں کہ شاہ کا بیٹا شہزادہ ہی ہوتا ہے چاہے وہ ننگا ہی پیدا کیوں نہ ہو۔

اس ضرب المثل کی عملی تفسیر ڈاکٹر صاحب نے بن کر دکھایا کہ وہ شاہ کا شہزادہ تھا۔ ایک دیوانے کا عقل مند دیوانہ بیٹا تھا۔ ان کی ذات میں یہ بات شاید پچپن میں ہی منکشف ہو چکی تھی کہ انہیں آگے چل کر کسی اہم اور بڑے مقصد کے لئے کام کرنا ہے اس لئے اس نے دیوانگی کی ایسی راہ اپنائی کی دنیا حیران ہو گئی۔ وہ ایسے کہ انہوں نے اگرچہ اپنی پی ایچ ڈی دھاتوں metallurgy میں مکمل کی لیکن جس ادارے میں وہ کام کرتے تھے وہاں انہوں نے اندازہ لگا لیا کہ یورینیم کی افزودگی اس کے ملک کے لئے سود مند ثابت ہو سکتی ہے اس لئے اس دیوانے نے اپنی تعلیم سے متعلقہ کام اپنانے کی بجائے اس کام پر ہاتھ ڈالا جس پر کوئی دیوانہ ہی ڈال سکتا تھا۔ اس نے اپنے profession کو passion بنا لیا۔ بس یہی ایک ایسا عمل ہے جو ایک عام انسان کو دیوانہ بنانے کے لئے کافی ہوتا ہے۔

صرف یہی ایک دیوانہ نہیں تھا بلکہ میرا ان گمنام ہیروز کو بھی سلام ہے جنہوں نے اس عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگائی۔ یعنی وہ لوگ جنہوں نے نقشے، مشینیں، راز اور ایک ایک پرزہ کو ہالینڈ سے پاکستان میں منتقل کیا۔ یہ سب لوگ اس وقت متحرک ہوئے جب 1974 میں بھارت نے پوکھران راجستھان میں ایٹمی دھماکہ کر کے دنیا کو حیران اور ہمیں متنبہ کر دیا کہ تیار ہو جاؤ اب اگر آپ نے ہماری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا تو نتیجہ کے ذمہ دار خود ہوں گے۔

محب وطن پاکستانی ہالینڈ میں بیٹھ کر بھارت کے smiling buddha کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ کیونکہ بطور سائنسدان وہ جانتے تھے کہ بھارت کی طرف سے کیا گیا دھماکہ کی شدت کیا ہے۔ لہذا اس عقل مند دیوانہ نے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھنے کی بجائے سفارت خانہ پاکستان سے رابطہ کیا کہ وہ وقت کے وزیراعظم کو ملنا چاہتے ہیں۔ سفارتخانہ پاکستان نے جب روایتی سرد مہری کا مظاہرہ کیا تو انہوں نے براہ راست ایک خط دفتر خارجہ کو لکھ دیا جو پاکستان کی خوش قسمتی کے کیے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو تک پہنچ گیا۔

انہوں نے فوری طور پر ان سے رابطہ کیا اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کو پاکستان بلایا۔ ڈاکٹر صاحب کی یہ ملاقات غلام اسحاق خان، آغا شاہی اور مبشر کے سامنے ہوئی۔ اس ملاقات کے بعد ایٹمی توانائی کے عمل نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا کیونکہ اب ایک نہیں بلکہ دو دیوانے ایک ساتھ مل چکے تھے۔ کیونکہ ایسے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے بھٹو جیسا دیوانہ ہی چاہیے تھا۔

اب آتے ہیں کہ محسن پاکستان کے ساتھ ہم نے کیا سلوک کیا۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ان کے ساتھ قوم نے کوئی زیادتی نہیں کی۔ ہاں مشرف نے جو بھی ان کے ساتھ کیا اللہ سب جانتا ہے۔ کیا خیال ہے کہ قدیر خان جیسا درویش منش شخص یہ نہیں جانتا کہ ان سے جو کام کروایا جا رہا ہے، قوم ایسا کبھی نہیں سوچتی۔ قوم تو انہیں آخری سانس تک اپنا محسن اور ہیرو ہی خیال کرتی رہی ہے۔ سلام ہے ڈاکٹر قدیر کو ذات کو کہ جنہوں اپنی موت، رسوائی اور خود داری کو اس ملک پر قربان کر دیا۔

قوم کا ایک ایک فرد ان کے احسانات کا مقروض ہے اور قرض بھی ایسا کہ جنہیں کبھی چکایا نہیں جا سکتا۔ قوم تاحیات انہیں ایٹمی قوت بنانے پر، شاہین، غوری اور ایٹمی لانچنگ پیڈ جن کی وجہ سے ہی انڈیا کی جان جاتی ہے کیونکہ ان کے پاس ایسا کچھ نہیں جو ہمارے پاس ہے، سلام پیش کرتی ہے اور کرتی رہے گی۔ میرا یہ بھی خیال ہے کہ ایک لحاظ سے ان کی نظر بندی ان کی زندگی کی حفاظت کی ضامن بھی بنی رہی، کیونکہ ایرانی سائنسدان سخت پہرہ میں مار دیا گیا، انڈیا کی اپنی مثال کہ ان کی وزیراعظم کو ان کے اپنے باڈی گارڈ نے جہنم واصل کر دیا۔

ہو سکتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ بھی کوئی ایسا ہی حادثہ پیش آ جاتا لہذا میں سمجھتا ہوں کہ ایک لحاظ سے ان کی نظر بندی دراصل قدرت کی طرف سے ایک حفاظتی حصار تھا۔ لیکن کیا کیجئے کہ کل نفس ذائقہ الموت کے مصداق ہر کسی کو اس تکلیف کا ذائقہ چکھنا ہے۔ قدرت نے انہیں بھی اپنے پاس بلا لیا لیکن جو دیوانگی انہوں نے اس ملک کی خاطر اپنے ذہن پر سوار کی تھی اس آشفتہ سری کو انہوں نے پایہ تکمیل تک پہنچایا قوم جس پر انہیں ہمیشہ سلام پیش کرتی رہے گی۔

کچھ لوگوں کا خٰال یہ بھی ہے کہ کیا اکیلے انہوں نے ہی ایٹم بم بنایا، اس بحث کا حصہ بننے والوں کو میرا جواب یہ ہے کہ کیا زمین کا ایک ٹکڑا زرخیزی کی بنا فصل پیدا کر سکتا ہے۔ کبھی نہیں ڈاکٹر صاحب کا جو کام تھا وہ اس کام میں زرخیزی پیدا کرنے والا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایٹم بم بنانے کے لئے 22 مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور ان میں یورانیم کی افژودگی بنیادی مرحلہ ہے۔ گویا جو کام ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا تھا ان کے بغیر یہ کام پایہ تکمیل تک پہنچنا ناممکن تھا۔ وگرنہ کام تو ان سے قبل بھی ہو ہی رہا تھا۔

لہذا میں سمجھتا ہوں کہ ایسے کام دیوانے ہی کر سکتے ہیں۔ اور ڈاکٹر قدیر ایسا عقلمند دیوانہ تھا جنہوں نے اپنی دیونگی سے اس قوم کا سر فخر سے بلند کیا۔ قوم آپ کو سلام پیش کرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments