ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری: داخلی تناؤ کی خارجی وجوہات



گزشتہ چند روز سے آئی ایس آئی کے سربراہ کی تقرری کے حوالے سے آرمی چیف اور وزیراعظم کے درمیان تناؤ بجا طور پر ملکی سیاست کا اہم ترین معاملہ بنا ہوا ہے، لیکن بظاہر داخلی نوعیت کے اس معاملہ کا تعلق در حقیقت خارجہ امور سے ہے۔

افغانستان سے امریکی افواج کا بھونڈا انخلا اور طالبان حکومت کا قیام خطے میں بنیادی تبدیلی ہے، لہذا امریکہ، افغانستان کے اہم ترین ہمسایہ پاکستان میں بھی اہم انتظامی تبدیلیوں کا متقاضی ہے۔ امریکہ اور چین و روس بھی افغانستان میں پاکستان کی جانب سے پرانے طریقہ مداخلت کے خلاف ہیں۔ کابل پر قبضے کے کچھ روز بعد جنرل فیض حمید کے دورہ کابل اور طالبان قیادت سے ان کی ملاقات کو شک اور ناپسندیدگی سے دیکھا گیا تھا۔

یاد رہے کہ نائن الیون کے بعد طالبان حکومت پر اسامہ بن لادن کو افغانستان سے بے دخل کیے جانے کے لئے دباؤ کے نتیجے میں، ملا عمر نے جرگہ طلب کیا تھا، جس کے دو ہزار عمائدین میں یہ اتفاق ہوا تھا کہ اسامہ بن لادن سے افغانستان چھوڑ دینے کی درخواست کی جائے۔ پھر اسی دوران جنرل محمود کابل پہنچے اور ملا عمر کی قیادت میں طالبان نے سخت موقف اپناتے ہوئے، امریکی مطالبات ماننے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ دوسری طرف ماضی میں طالبان خان کہلانے والے، وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں آبدیدہ انکھوں کے ساتھ طالبان کی حالیہ کامیابی کو ایمان کی فتح قراردیا تھا، اور نہ صرف افغانستان میں طالبان کی حکومت کو غیر مشروط طور پر تسلیم کیے جانے کی وکالت کر رہے ہیں، بلکہ ٹی ٹی پی کے لئے یک طرفہ طور پر معافی کی پیشکش بھی کر چکے ہیں۔

ادھر ماسکو نے اگرچہ ائندہ ہفتے، طالبان کے ایک وفد کو دورے کی دعوت دی ہے، لیکن اس موقع پر روس کے دفتر خارجہ نے جو لوگو جاری کیا ہے اس میں جمہوریہ افغانستان کا پرچم دکھایا گیا ہے۔

جہاں تک وزیراعظم عمران خان کا تعلق ہے، تو وہ ریاست مدینہ کا احیا چاہتے ہیں، لیکن ان کا یہ دکھاوا نہ تو پاکستان کی ضروریات کے مطابق ہے، اور نہ ہی دنیا کے تقاضوں سے میل کھاتا ہے۔ چونکہ وہ سیاست و ریاست کی سمجھ نہیں رکھتے، اس لئے تعلیم سے لے کر ڈپلومیسی تک، پاکستان کو اندھیروں کے دور میں دھکیلنا چاہتے ہیں، تاکہ اقتدار میں رہنے کے لئے، تمام ریاستی ڈھانچہ، ان کی کم فہمیوں کے مطابق ڈھالا جا سکے۔ اور جنرل فیض حمید کو بھی وہ صرف اس لئے بطور ڈی جی آئی ایس آئی قائم دیکھنا چاہتے ہیں، کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جنرل فیض ان کی غیر مقبول حکومت کو قائم رکھنے میں مددگار ہیں، اور ائندہ انتخابات میں ان کی کامیابی کی ضمانت فراہم کر سکتے ہیں۔

جہاں تک ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے قضیے کے خارجی پہلو کا تعلق ہے تو اس کا نہایت اہم اظہار جاتی امرا میں دیکھنے کو ملا، جہاں جمعرات کو امریکی سفارتخانے کے تعلقات عامہ کی انچارج اینجلا ایگلر نے مریم نواز کے ساتھ ملاقات کی۔ اس ملاقات میں مریم نواز نے امریکی سفارتکار کو یقین دہانی کروائی کہ وہ افغانستان میں مداخلت کے حق میں ہرگز نہیں ہیں، لیکن وہ ایسے جمہوری اور ترقی کی راہ پر گامزن افغانستان کی خواہش مند ہیں، جہاں کا ماحول مہاجرین کی وطن واپسی کے لئے سازگار ہو۔ اس کے علاوہ مریم نے کہا کہ وہ افغانستان میں خواتین اور بچوں کے حقوق کی پاسداری چاہتی ہیں۔ اینجلا ایگلر نے شہباز شریف سے بھی الگ سے ملاقات کی جس میں علاقائی صورتحال کے علاوہ پاکستان کی داخلی سیاست پر بھی تبادلہ خیالات کیا گیا۔

یہاں یہ بھی یاد آ رہا ہے کہ جنوری 2016 میں نواز شریف نے بطور وزیراعظم، ڈیووس میں اوبامہ انتظامیہ میں نائب صدر جو بائیڈن سے افغان صدر اشرف غنی کے ہمراہ ملاقات کی تھی۔ بعد میں امریکی دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں افغانستان میں امن عمل، اور اس سلسلے میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے، اس سہ فریقی بات چیت کو اہم قرار دیا تھا۔ یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ اب جو بائیڈن امریکہ کے صدر ہیں، اور عمران خان کے بارہا، سرعام شکوہ کناں ہونے کے باوجود، انہوں نے وزیراعظم سے رسمی رابطہ بھی نہیں کیا۔

اس بارے، چند روز قبل جب اسلام آباد میں سی این این نے اپنی تجزیہ کار سے پوچھا تو انھوں نے کہا تھا کہ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وزیر اعظم کے پاس میئر اسلام آباد جتنے بھی اختیارات نہیں ہیں۔ یاد رہے کہ ابھی کچھ ہی عرصہ قبل، پیپلز پارٹی کے نوجوان راہنما بلاول بھٹو نے بھی واشنگٹن کا دورہ کیا تھا، اور وہاں کئی دن قیام کیا تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو موجودہ کشمکش بارے آصف زرداری سے جب ان کی رائے دریافت کی گئی تو اس کے جواب میں ان کا قہقہہ بھی کافی معنی خیز معلوم ہو تا ہے۔

ہاں، یاد آیا کہ بدھ یا جمعرات کو نیویارک ٹائمز نے مشہور صحافی حامد میر کو بین الاقوامی رائے عامہ تشکیل دینے والے افراد میں سے قرار دیا ہے۔ سوچا ان کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتا چلوں۔ تو حامد میر صاحب، اپ کو مبارک ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments