زچگی اور پورن…؟


بات چلی تھی زچگی سے اور پہنچی اس کتھا تک جو کچھ کے لئے عمر بھر کا روگ بن جاتی ہے مگر عورت اف کہنے کا یارا نہیں رکھتی۔ لاعلمی، سماجی دباؤ، جھوٹی شرم و حیا اور سینہ بہ سینہ چلنے والی کہانیاں زچہ کو سمجھنے ہی نہیں دیتیں کہ اصل ماجرا کیا ہے۔ کبھی اگر ان سب حد بندیوں کو پار کر کے وہ کسی چارہ گر تک پہنچ ہی جائے تو عطار کا لونڈا ہی اناڑی نکل آتا ہے۔

یقین مانئیے کہ اس فہرست میں ہر طبقے کی عورت شامل ہے۔ تعلیم اور معاشرتی درجہ زچگی سے ہونے والے نقصان کو روک نہیں سکتا۔ البتہ درد کا درماں بننے میں مدد کرسکتا ہے اگر جسم کے اعضا کی بناوٹ اور کام کرنے کا طریقہ ہر کسی کی سمجھ میں آ جائے۔ سو ہمارا خیال یہ تھا کہ بے شمار مصیبت زدہ کو عام فہم زبان میں سمجھا دیا جائے کہ مصیبت اگر آئی ہے تو اس کا ازالہ کیسے، کب اور کن ہاتھوں میں ہونا چاہیے؟

کیا کہیے کہ ایک صاحب ہماری نیت اور معنی سمجھنے میں ناکام رہے۔ بدقسمتی سے ان کی نظر کچھ الفاظ سے آگے ہی نہ بڑھی جو ان کے لئے مخرب الاخلاق کیوں تھے، ہم سمجھ نہیں سکے۔ کیا کہیے کہ حقیقت میں کائنات میں ہر ایک کی جنم گاہ تو وہی ہے اور اسی کے نام پہ ناک بھول چڑھا کر عورت کو شرمندہ کر دیا جاتا ہے۔

لیجیے اسی سے یاد آ گیا کہ مصر کی مشہور مصنفہ سلوی بکر سے ہماری ملاقات ہوئی تو انہوں نے ہنستے ہوئے ہمیں بتایا کہ فرعونی دور میں زندگی کی چابی ویجائنا( عربی میں مہبل) ہی کو کہا جاتا تھا کہ اصل میں نطفے کا سفر وہیں سے شروع ہوتا ہے۔

کمنٹ پڑھیے کہ خاصے کی چیز ہے۔

“‎اگر آپ نے عورتوں کے مسائل ہی بیان کرنے ہیں تو ڈھنگ کے الفاظ بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں…. آپ کی لکھائی کسی پورن فلم کی سٹوری سے کم نہیں ہے….”

یہ پڑھ کے پہلے ہم ہنسے اور اتنا ہنسے کہ آنکھ نم ہوگئی۔ یہ ہے پدرسری معاشرے کا المیہ کہ ان المناک مسائل کے بیان کو بھی نشاط انگیز سمجھ کے پورن سے جوڑ دیا جاتا ہے جو عورت کو زندہ درگور کرتے ہوئے اسے مصلوب کرتے ہیں۔ ان سب عورتوں کی بے چارگی ہمیں خون کے آنسو رلاتی ہے۔

ویسے راز کی ایک بات کہتے چلیں کہ بے چارگی کی اس فہرست میں کبھی ہمارا نام بھی شامل رہ چکا ہے لیکن وہ قصہ بعد میں! خیر ہم نے بصد احترام ان صاحب سے پوچھ لیا کہ وہ کوئی اور مناسب لفظ تجویز کر دیں تاکہ بقیہ داستان میں وہی الفاظ استعمال ہو سکیں اور انہیں پورن کا شائبہ نہ ہو۔ بس ایک عرض ہے کہ شرم گاہ نہ کہہ دیجیے گا۔ چلیے جواب آنے تک بات آگے بڑھاتے ہیں۔

یہ سب کیسے اور کیوں ہوتا ہے؟

زچگی کی پہلی سٹیج میں درد زہ شروع ہوتے ہیں جن کا نارمل دورانیہ آٹھ سے دس گھنٹے کا ہوتا ہے۔ درد زہ کے نتیجے میں بچے دانی کا منہ پہلی سٹیج کے آخر تک پورا کھل جاتا ہے( یعنی دس سینٹی میٹر۔ چار انچ) پہلی سٹیج کے آٹھ دس گھنٹوں میں زچہ کو زور لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ بچہ ابھی رحم یا بچے دانی میں ہی ہوتا ہے اور منہ آہستہ آہستہ کھل رہا ہوتا ہے۔

زچگی کی دوسری سٹیج تب شروع ہوتی ہے جب رحم یا بچے دانی کا منہ پورا کھل جائے۔ اس سٹیج میں بچے کو رحم سے سرکتے ہوئے نیچے ویجائنا میں آنا ہوتا ہے۔ اب زچہ کو اپنے جسم و جاں کا پورا زور لگانا ہے۔ اس سٹیج کا نارمل دورانیہ دو سے تین گھنٹے ہے جس میں بچہ کسی درد کے ساتھ نیچے سرکتا ہے اور کسی درد کے ساتھ بالکل نہیں ہلتا۔ اندازہ کیجیے کہ دس سینٹی میٹر یعنی چار انچ لمبی ویجائنا کا سفر تقریباً دو سے تین گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ زندگی کا پہلا سفر، اس قدر طویل اور جان لیوا!

پہلا بچہ ہو تو ویجائنا میں بچے کا سر دو سے تین گھنٹے تک پھنسا رہتا ہے۔ تنگ سرنگ جیسی ویجائنا درد زہ کے نتیجے میں دھکیلے جانے والے سر کو راستہ تو دیتی ہے لیکن خود لہولہان ہو جاتی ہے۔ جوں جوں بچوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے، سیکنڈ سٹیج کا وقت کم ہوتا جاتا ہے کہ ویجائنا کافی حد تک کھل جاتی ہے۔

جس وقت بچے کا سر باہر نکلتا ہے ویجائنا کی ایک دیوار میں کٹ لگایا جاتا ہے تا کہ کچھ آسانی پیدا ہو۔ مقعد ( Anus, عربی زبان میں شرج) کا نظام خراب ہونے کی ایک وجہ ویجائنا( مہبل) اور مقعد کے اعصاب کا متاثر ہونا ہے۔ تین گھنٹے تک بچے کے سخت سر کا تنگ ویجائنا میں مسلسل پریشر ان اعصاب کی کمزوری کا سبب بنتا ہے جو اس نظام کو دماغ سے منسلک کر کے کنٹرول کرتے ہیں۔ بڑھتی عمر کے ساتھ ان اعصاب کی مزید شکستگی پاخانے اور ریح کے وقت نا وقت خروج کا باعث بنتی ہے۔

زچگی میں تشویشناک صورت حال تب پیدا ہوتی ہے اگر بچہ صحت مند ہو یا بچے کی پوزیشن ٹھیک نہ ہو یا زچگی میں اوزاروں کی مدد لی جائے۔ بہت سے مریضوں میں ویجائنا ( مہبل) میں شگاف تو آتا ہی ہے لیکن کچھ میں مقعد کے اندرونی اور بیرونی پیچ بھی پھٹ جاتے ہیں۔ لیجئیے یہاں سے شروع ہوا وہ مسئلہ جس کے لئے ہم نے اتنی تمہید باندھی۔

دیہات میں رہنے والیوں کا تو عام حالات میں کوئی پرسان حال نہیں ہوتا اور ایسی صورت حال سے نبٹنا تو دائی یا لیڈی ہیلتھ وزیٹر کے لئے ناممکنات میں سے ہے۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ مقعد کے اندرونی پیچ کو پہنچنے والے نقصان کا سد باب ایم بی بی ایس ڈاکٹرز اور کم تجربہ کار گائنی سپیشلسٹ بھی نہیں کر سکتے۔

کیسے کہیں کہ زیادہ تر ڈاکٹرز کو اندرونی پیچ کی پہچان ہی نہیں ہوتی کہ کبھی دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا ہوتا ۔ اور اگر کبھی دیکھا بھی ہو تو پہچان اور سلائی میں مہارت نہیں پیدا ہوئی ہوتی۔ بعض اوقات استاد بھی اناڑی ہوتا ہے، کتابی علم سے انسانی جسم کے رموز تو نہیں سمجھے جا سکتے نا۔

اصل میں تکنیکی اعتبار سے اندرونی پیچ کچھ ایسا گنجلک ہے کہ پھٹنے کی صورت میں فورا سکڑ کے بقیہ مسلز کے پیچھے چھپ کے آنکھ سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ نتیجہ کیا نکلتا ہے کہ بیرونی پیچ جو بالکل سامنے ہوتا ہے اس کی سلائی ڈاکٹر کر دیتے ہیں اور اندرونی پیچ کے نقصان کی تشخیص ہی نہیں ہو پاتی۔ نتیجتا اندرونی پیچ نامی موصوف جو ریح اور پاخانے کے کنٹرول کا نظام چلاتے ہیں، ان کے چراغوں میں روشنی نہیں رہتی اور زچہ کا نظام درہم برہم اور زندگی کے اگلے برس عذاب۔

ایک مشکل اور بھی ہے کہ اندرونی پیچ کو صرف اور صرف تب پہچان کے قابو کیا جا سکتا ہے جب مریض کو بے ہوش کر کے چھپے ہوئے پیچ کو پکڑا جائے اور پھر ایک خاص طریقے اور خاص دھاگے سے سلائی کی جائے۔ ایسی سہولیات بھی اکثر ممکن نہیں ہوتیں۔

اہم بات یہ ہے کہ زچگی کے وقت اندرونی پیچ کی اگر درست سلائی نہ کی جائے تو بعد کے برسوں میں یہ تقریباً ناقابل مرمت بن جاتا ہے۔ اردگرد کے مسلز سے مڑی تڑی حالت میں جڑ جاتا ہے جس میں کنٹرول کی کوئی طاقت باقی نہیں رہتی۔

عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ارد گرد کے مسلز بھی کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں اور وہ تکلیف جو جوانی میں بیرونی پیچ بھینچ کے کچھ قابو کی جا سکتی ہے، بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ پیمپر اور پیڈ کے سہارے عورت نہ خلوت میں اطمینان کا سانس لے سکتی ہے اور نہ جلوت میں۔ احباب و اہل خانہ اپنی قوت سماعت اور قوت شامہ پہ آخر کتنا بوجھ ڈالیں؟

صاحب، اس پرخطر راہ کے اسرار و رموز کا قصہ ابھی ختم نہیں ہوا! چلتے چلتے ایک خاتون کا تبصرہ سن لیجیے جو ہمارا سیروں خون بڑھا گیا،

“میں تو ڈاکٹروں سے پوچھ پوچھ کے بوڑھی ہو گئی ہوں …..اب پتہ چل رہا ہے…..اللہ آپ کو جزائے خیر دے”۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments