مہنگائی اور ڈی جی آئی ایس آئی


راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ چونکہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے سوال پر اب وزیر داخلہ شیخ رشید بھی لب کشا ہو رہے ہیں۔ یادش بخیر چار روز پہلے تک موصوف نے اس سوال پر منہ میں گھنگھنیاں ڈالی ہوئی تھیں اور صحافیوں کو فواد چوہدری یا پرویز خٹک سے بات کرنے کا مشورہ دے کر جان چھڑا رہے تھے۔ اب انہوں نے خبر دی ہے کہ’ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے حوالے سے معاملات طے ہیں۔ اعلان اگلے سات دن تک ہوسکتا ہے‘۔

اس دوران وزیر اعظم عمران خان نے پارٹی کے پارلیمانی گروپ کو اعتماد میں لیا ہے اور بتایا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں کبھی کسی وزیر اعظم کے آرمی چیف کے ساتھ ایسے خوشگوار تعلقات نہیں رہے جیسے ان کے اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان موجود ہیں۔ بند کمرے کے اجلاس میں ’خوشگوار اور قریبی تعلقات کی ڈینگیں مارنے‘ والے وزیر اعظم نے اجلاس میں شرکت سے پہلے البتہ صحافیوں کے پے در پے سوالوں کے جواب میں ایک شرمیلی مسکراہٹ سے کام چلانا کافی سمجھا۔ شیخ رشید نے ایک تازہ ٹی وی انٹرویو میں کہا ہے کہ بعض سوالوں کا جواب تو عمران خان کے پاس ہی ہے لیکن وزیر اعظم کو میڈیا کا سامنا کرنے کی تاب نہیں ہے ، نہ ہی وہ ملک کے سیاسی منظر نامہ پر موجود اس سنگین معاملہ پر گرمی گفتار دکھانے کا حوصلہ کرپائے ہیں۔ البتہ اشاروں کنایوں یعنی مشیروں وزیروں کے توسط سے عوام کو یہ یقین دلانے کی کوشش ضرور کی جارہی ہے کہ ’آپ نے گھبرانا نہیں ہے‘۔ یعنی کیا یہ کافی نہیں ہے کہ وزیر اعظم بدحواسی میں ہاتھ پاؤں مارتا پھرتا ہے تو پھر عوام کو پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔

فوج کے ساتھ ایک ’اصولی معاملہ‘ پر اختلاف کو جس طرح طول دیا گیا ہے اور ایک عہدہ پر تقرری کے لئے ملکی نظام اور اس میں موجود اداروں اور افراد کی اتھارٹی اور تعلق کے حوالے سے جس قدر بے یقینی عمران خان کی حکومت نے پیدا کی ہے، پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس کی نظیر تلاش نہیں کی جاسکتی۔ یہ معاملہ گزشتہ کئی ہفتوں سے حکومت اور فوج کے درمیان اختلاف کی بنیاد بنا ہؤا ہے لیکن بظاہر حکومت کو اس بے یقینی سے نکلنے کی کوئی جلدی بھی نہیں ہے۔ جو معاملہ ایک سمری اور ایک دستخط سے طے ہوسکتا تھا، اب اس کے بارے میں وزیر داخلہ نے یہ اطلاع دی ہے کہ یہ اگلے جمعہ تک طے پاجائے گا۔ وزیر اطلاعات یہ تسلیم کرتے ہیں کہ حکومت اور فوج کے درمیان رسہ کشی ملکی سیاست کے لئے مناسب نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ ہی غیر مصدقہ اطلاعات کی تصدیق کے ذریعے ا س تاثر کو قوی بھی کرتے ہیں کہ ابھی تک معاملات طے نہیں پاسکے ہیں اور وزیراعظم کو فوج کے تجویز کردہ نام پر مکمل اتفاق نہیں ہے اور فوج اغلباً اس نام کو واپس لینے کا ارادہ نہیں رکھتی جس کا اعلان ہفتہ عشرہ قبل آئی ایس پی آر کی طرف سے کیا جاچکا ہے۔

اس دوران یہ خبریں چلتی رہی تھیں کہ وزیر اعظم اب اپنی اتھارٹی ثابت کرنے کے لئے ان تمام جرنیلوں کا ’انٹرویو‘ کریں گے جن کے نام انٹر سروسز انٹیلی جنس کے نئے سربراہ کے طور پر فوج کی طرف سے تجویز کئے گئے ہیں تاکہ عام و خاص کو خبر ہوجائے کہ وزیر اعظم نہ تو کسی دباؤ میں آتا ہے اور نہ ہی وہ اپنی اتھارٹی پر سودے بازی کرتا ہے۔ یہ اطلاعات فواد چوہدری کی تصدیق سے پہلےقیاس آرائی اور افواہ ہی سمجھی جارہی تھیں۔ تاہم وزیر اطلاعات نے ان ’افواہوں‘ کو مسترد کرتے ہوئے گزشتہ روز واضح کیا ہے کہ ایک ادارے کے نئے سربراہ کی تقرری سے پہلے متعلقہ لوگوں سے ملاقات کرنا وزیر اعظم کا استحقاق ہے اور معمول کی کارروائی ہے۔

اس حوالے سے یہ جاننا اہم ہوگا کہ اس سے پہلے جب بھی سول حکومت کے ساتھ فوجی قیادت کے اختلافات سامنے آئے تو سول قیادت نے اس پر زور بیان صرف کرنے سے گریز کیا جبکہ فوج نے مختلف طریقوں سے اختلاف کو اچھال کر سول حکومت کو کونے میں دھکیلنے کی کوشش کی اور یہ واضح کیا کہ سول قائدین کیسے فوجی قیادت کی ’بدنامی‘ یا قومی مفاد کو نقصان پہنچانے کا سبب بنے تھے۔ اس رویہ کے شواہد پیپلز پارٹی کی حکومت میں اچھالے جانے والے میمو گیٹ اسکینڈل میں بھی تلاش کئے جاسکتے ہیں اور نواز شریف کے دور حکومت میں ڈان لیکس کے نام سے مشہور ہونے والے واقعہ میں بھی اس کے آثار دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان دونوں مواقع پر اگرچہ ملک میں دو مختلف پارٹیوں کی حکومت تھی لیکن انہوں نے فوج کے ساتھ عوامی مناظرہ و مباحثہ کرنے کی بجائے باہمی گفت و شنید سے معاملہ حل کرنے کی کوشش کی۔ اس کے برعکس اس وقت ایک ایسے شخص اور پارٹی کی حکومت ہے جس کے بارے میں اب عمومی اتفاق رائے موجود ہے کہ اسے فوجی اسٹبلشمنٹ کی براہ راست تائید و حمایت حاصل رہی ہے۔ اس کے باوجود حکومت خود فوج کے ساتھ ایک تقرری کے حوالے سے پیدا ہونے والے اختلاف کو طول دینے، اچھالنے اور اسے عومی مباحث کا حصہ بنانے میں سرگرم ہے۔ فوج نے ایک اعلامیہ کے بعد اس حوالے سے مکمل خاموشی اختیار کی ہے۔

ملک کی سیاسی اپوزیشن نے بالواسطہ طور سے فوج کی حمایت کی ہے یا پھر عمران خان کی سیاسی پوزیشن کمزور کرنے کے لئے یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ موجودہ حکومت جادو ٹونے یا جنات کی مدد سے اہم سیاسی و انتظامی فیصلے کرتی ہے۔ اگرچہ جمہوریت کی تقویت اور ملک میں سول ملٹری تعلقات میں فوجی بالادستی کے تناظر میں یہ متوازن رائے سامنے آئی ہے کہ اپوزیشن کو تحریک انصاف اور عمران خان سے تمام تر اختلافات کے باوجود اس معاملہ پر اسٹبلشمنٹ کی بجائے منتخب حکومت کی حمایت کرنی چاہئے اور اس کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہئیں کیوں کہ کسی بھی جمہوری سیٹ اپ کی حمایت کے ذریعے ہی آئینی بالادستی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ اور کسی تنازعہ یا اختلاف کی صورت میں تمام سیاسی قوتیں مل کر ہی یہ واضح کرسکتی ہیں کہ وہ تمام تر اختلافات کے باوجود ماورائے آئین کسی معاملہ میں سول حکومت کے مقابلے میں فوج کا ساتھ نہیں دیں گی۔ تاہم یہ پوزیشن اختیار کرتے ہوئے کسی بھی جمہوری حکومت سے بھی یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ غیر منتخب اداروں کے دباؤ کی صورت میں ملکی سیاست میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے اور خفیہ ملاقاتوں ، کابینہ اجلاس یا پریس کانفرنس میں اس معاملہ کو ’حل‘ کرنے کی بجائے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے۔

ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے معاملہ پر پیدا ہونے والے ابہام میں دو پہلو بنیادی اہمیت کے حامل ہیں:

1)حکومت اس معاملہ پر وزیروں مشیروں کے ذریعے قطرہ قطرہ معلومات عام کرنے کی بجائے ، پارلیمنٹ کے سامنے اپنی پوزیشن واضح کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتی۔ وزیر اعظم بنیادی طور قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے کر قائد ایوان منتخب ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے ان کی اولین ذمہ داری یہ ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں اور بتائیں کہ اس معاملہ میں کہاں کس سے کیا کوتاہی ہوئی ہے اور حکومت یا وزیر اعظم سیکرٹریٹ اس کی اصلاح کے لئے کیا طریقہ اختیار کررہا ہے۔ اس طریقہ کار کی تکمیل میں کتنا وقت صرف ہوگا اور اس سے کیا مقصد حاصل کیا جائے گا۔ حکومت پارلیمنٹ پر اعتماد کا ایسا شفاف طرز عمل اختیار کرے گی تب ہی ملکی سول سوسائٹی، میڈیا اور دیگر عناصر اپوزیشن پارٹیوں سے بھی یہ توقع کریں گے کہ وہ اصولی جمہوری رویہ اختیار کرے اور ایک اہم معاملہ میں سول حکومت کو کمزور کرنے کا سبب نہ بنے۔

2) عمران خان کی حکومت گزشتہ دو برس کے دوران اپوزیشن لیڈروں پر الزام تراشی کی مہم میں فوج کی عزت و وقار کو قومی سلامتی سے منسلک کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ سیاست میں فوجی مداخلت کے جائز اور پیچیدہ سوال پر ہونے والے مباحث میں حکومت نے اپوزیشن کے علاوہ غیر جانبدار مبصرین اور میڈیا کی زبان بندی کا اہتمام بھی کیا ہے ۔ یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ فوج پر کسی بھی قسم کی گفتگو سے صرف دشمن کو ہی فائدہ پہنچتا ہے اور ایسی باتیں کرنے والے دراصل دشمن ملک کے ایجنٹ ہی ہوسکتے ہیں۔ میڈیا اتھارٹی نامی بل کے علاوہ سائیبر قوانین میں ترامیم کے ذریعے بھی فوجی قیادت کے کردار پر نہایت مدلل اور محتاط طرز گفتگو کو بھی روکنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے۔ لیکن گزشتہ چند روز سے ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے معاملہ پر ایسا رویہ اختیار کیا گیا ہے جس سے فوجی قیادت کی شہرت اور نیک نیتی پر متعدد سوالیہ نشان لگے ہیں ۔ حکومتی نمائندے خود اس کا سبب بھی بنے ہیں۔ اس وقت سرکاری نمائندوں کا رویہ، بیانات اور ایک تقرری میں تاخیر، فوج جیسے اہم اور باوقار ادارے کے بارے میں شدید غلط فہمی اور شبہات پیدا کررہی ہے۔ حکومت خود اس کا موجب ہے لیکن اسے اپنا یہ کردار قومی مفاد سے متصادم دکھائی نہیں دیتا۔

تحریک انصاف کے پارلیمانی گروپ کے سامنے جنرل باجوہ سے بے حد قریبی اور خوشگوار تعلقات کی بڑھک بازی کا واحد مقصد یہ یقین حاصل کرنا ہے کہ اسٹبلشمنٹ کے اشارے پر وفاداری بدلنے والے عناصر پریشان نہ ہوں۔ ایسا کرتے ہوئے وزیر اعظم خود اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں کیوں کہ اگر تبدیلی کی ہوا چلی تو الیکٹ ایبلز سیاسی بادنما کا رخ پہچاننے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہیں۔ وہ نسل در نسل اس کام کا تجربہ رکھتے ہیں۔ پھر کسی وزیر اعظم کی یقین دہانیاں ان کے ہاتھ پاؤں نہیں باندھ سکتیں۔ البتہ تقرری کے حوالے سے حکومتی رویہ کی ایک قابل فہم وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ ملک و قوم کو درپیش اہم معاملات پر مباحث سے گھبراتی ہے اور اس حوالے سے اٹھنے والے سوالات کا جواب دینے کی تاب نہیں رکھتی۔ اس لئے غیر ضروری مباحث سے سیاسی ماحول کو انگیختہ رکھا جارہا ہے۔

ان معاملات میں سر فہرست مہنگائی اور بنیادی ضروریات کی نایابی ہے۔ گیس کی کمی، گندم و چینی کی مہنگائی اور بجلی و پیٹرول کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ نے ملک کے عام شہری کی کمر دوہری کردی ہے۔ ایک بار پھر پیٹرول کی قیمتوں میں 9 روپے لیٹر تک اضافہ کی خبر سامنے آئی ہے۔ وزیر اعظم عالمی منڈی میں قیمتوں میں اضافہ کو اس کی وجہ کہتے ہیں اور عوام کو یہ کہہ کر تسلی دلانا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں مہنگائی اب بھی علاقے کے باقی ملکوں سے کم ہے۔ یا پھر حکومت سنبھالنے کے تین سال بعد بھی سابقہ حکومتوں کو کوسنے سے کام چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تاہم جب گھروں میں چولہا ٹھنڈا پڑ جائے یا مریض دو ا نہ ملنے سے جاں بلب ہو تو اس نعروں سے نہ پیٹ بھرتا ہے اور نہ ہی کسی کا دکھ درد کم ہوتا ہے۔

ایسے میں ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے سوال پر وزیر اعظم کے اصولی مؤقف کا پرچار ، امریکی حکومت کو اڈے دینے سے دو ٹوک انکار اور عید میلادالنبی ؑ کے موقع پر رحمت اللعالمین اتھارٹی کے قیام کا اعلان بے چین و پریشان حال عوام کو بہلانے کے ہتھکنڈے ہیں۔ بدنصیبی سے حکومت نہ تو ان طریقوں کے دوررس نقصانات کا اندازہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور نہ ہی اسے یہ پریشانی ہے۔ وہ کسی بھی طرح آج کا دن گزارنا چاہتی ہے۔’ ڈنگ ٹپاؤ‘ سرکار ایسے ہی انتظام کو کہا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2773 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments