اسپیشل بچے


کچھ عرصے سے شعبہ تدریس سے تعلق ہے۔ ایسے میں ہر عمر کے بچیاں اور بچوں سے ملاقات ہوتی ہے۔

عمر اور صحت کے حساب سے ہر بچہ کسی نہ کسی سرگرمی میں اپنی مہارت دکھاتا ہے۔ انہیں بچوں میں کچھ بچے ایسے بھی ملے ہیں جو ذہنی اور جسمانی طور پر صحت مند نہیں ہیں۔ جنہیں عرف عام میں اسپیشل بچے کہا جاتا ہے۔

اسپیشل بچے دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو جسمانی معذوری کا شکار ہوں اور دوسرے ذہنی معذوری کا شکار بچے۔ جسمانی معذوری سے زیادہ غور طلب ذہنی معذوری ہے۔ ایسے بچوں کی ذہنی نشو و نما عام بچوں کے مقابلے میں بہت آہستہ ہوتی ہے۔ عام بچہ جو کام فوراً سیکھ سکتا ہے اسپیشل بچوں کو وہی کام سیکھنے میں وقت درکار ہوتا ہے اور ضروری نہیں کہ وہ مکمل طور پر اسے سیکھ سکیں۔ اس وقت جب کلاس میں تدریسی عمل جاری ہوتا ہے تو اسپیشل بچے سیکھنے کے بجائے مزید ذہنی دباؤ کا شکار ہوتا ہے کیونکہ وہ کلاس کے ساتھ کام کرنے سے قاصر ہے تو دوسری طرف استاد پہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے بچے کو کچھ نہ کچھ ضرور سکھا دے۔ ایسا ہونا بہت مشکل عمل ہے۔

اسپیشل بچوں پہ یہ ایک ظلم ہے جو ان کے والدین ان پر کر رہے ہیں۔ بڑی بڑی فیسیں ادا کردینے سے وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے بچے کا حق ادا کر رہے ہیں اور باقی بہن بھائیوں کی برابری کا برتاؤ رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ یہ سراسر ان اسپیشل بچوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ اللہ پاک کی قدرت ہے وہ انسان کو اگر کسی کمی میں رکھتا ہے تو کہیں نہ کہیں کسی چیز کی زیادتی کر دیتا ہے۔ یقیناً اسپیشل بچے بھی اگر ذہنی کمزور ہیں تو اللہ نے ان کے اندر کوئی نہ کوئی صلاحیت پوشیدہ رکھی ہوتی ہے۔

مگر افسوس کہ ماں باپ اس موقع پر سمجھ داری سے کام لینے کے بجائے مقابلے کی دوڑ میں پڑ جاتے ہیں۔ اپنا اسٹیٹس برقرار رکھنے کے لئے کسی ایسے اسکول کی تلاش ہی نہیں کی جاتی جو ان معصوم بچوں کی ذہنی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے تدریسی عمل سے گزارتے ہیں۔ ایسے اسکول بچوں کو ان کی صلاحیت کے معیار پر رکھتے ہوئے ان کے اسکلز پر کام کرتے ہیں۔ جس سے بچہ اپنی تمام تر توانائی اس پر مرکوز کر دیتا ہے۔ اس دوران وہ کسی ذہنی دباؤ کا شکار نہیں ہوتا اس کے آس پاس اسے اپنی ہی طرح کے بچے نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے احساس کمتری پیدا نہیں ہوتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ آگے بڑھتا ہے۔

ان اسکول میں بچوں کو لکھانے اور پڑھانے کی الگ تکنیک استعمال ہوتی ہے جس سے آہستہ آہستہ وہ دو چار جملے لکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔

جبکہ عام اسکول میں وہ ہی بچہ روز بہ روز اپنے گرد ایک حصار کھنچتا رہتا ہے۔ اس کے دماغ کی صلاحیت اجاگر ہونے کے بجائے دباؤ کا شکار ہوجاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کا رویہ باقی کلاس کے بچوں کے لئے بھی مناسب نہیں ہوتا جس سے باقی بچے بھی اپنے کام پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے ان بچوں کی حرکتوں پر متوجہ ہو جاتے ہیں۔

اسکول میں تعلیم تو دی جا رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ اسکول مالکان کے لئے ایک کاروبار ہے۔ انہیں ہر صورت اپنا کسٹمر بڑھانا ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں اس کاروبار میں سب سے زیادہ پیسہ ہے۔ جتنا بڑا نام اتنی بڑی فیس پس اس بات سے اسکول مالکان کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جس بچے کو داخلہ دیا جا رہا ہے اس کی ذہنی صلاحیت کیا ہے۔ اور ماں باپ حقیقت سے آنکھیں چراتے ہوئے نام و شان کی دوڑ میں ایک معصوم بچے پہ ظلم کے پہاڑ توڑتے ہوئے اسے ایک ایسی دوڑ میں کھڑا کر دیتے ہیں جو اس کی ہے ہی نہیں۔

اپنے بچے کو ذہنی کمزور تسلیم کرنا بہت بڑی آزمائش ہے لیکن اس آزمائش کو تسلیم کرنے میں ہی عقل مندی ہے۔ وقت پر کیے گئے صحیح فیصلے پوری زندگی سدھار دیتے ہیں۔ ایک غلط موڑ منزل سے دور لے جاتا ہے۔

التماس ہے ان ماں باپ سے جنہیں اللہ نے اپنے قریب رکھا اور اس آزمائش میں ڈالا خدارا اپنے بچوں پہ رحم کریں اور اس دوڑ سے نکال کر انھیں اس کی ریس میں کھڑا کریں یقین جانیں آپ کا یہ اقدام اس کا مستقبل بنا دے گا۔

دوسری طرف حکومت وقت کو چاہیے کہ اسکولوں کی اس دوڑ پر چیک اینڈ بیلنس رکھے۔ اسکول میں داخلے کے وقت بچے کی صحت کا سرٹیفکٹ بھی جمع کرایا جائے۔ معاشرے کے کمزور ذہن بچوں کو ان کے مخصوص اسکولوں میں داخل کرایا جائے۔ اس طرح وہ بچے وقت آنے پر کسی قابل بن سکیں گے۔ اپنی اندرونی صلاحیت کو اجاگر کرسکیں گے۔ معاشرہ ایسے بچوں کو قبول کرے گا وہ اپنے دائرے زندگی میں روزگار ڈھونڈ سکیں گے اپنی جگہ بنانا ان کے لئے آسان ہو گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments