پاک بھارت بارڈر پر میلے بھی تو لگ سکتے ہیں


پاکستان اور ہندوستان کے مشہور واہگہ اور گنڈا سنگھ بارڈر پر روزانہ سورج غروب ہوتے ہی دونوں ممالک کے قومی پرچم اتارنے کی تقاریب اب اتنی مقبول ہو چکی ہیں کہ روزانہ دونوں ممالک سے ہزاروں عام لوگ اور سینکڑوں غیر ملکی سیاح بھی صرف وہ تقریب دیکھنے آتے ہیں۔ یقیناً وہ ایک رسمی کارروائی ہوتی ہے جس کو عام لوگوں کے لیے دلچسپ بنانے کے لیے شاندار اسٹیڈیمز، پارک، ریسٹورنٹس اور تھوڑے فاصلے پر دکانیں بھی بنائی گئی ہیں، صرف اسٹیڈیم میں آنے کے لئے رکھی گئی ٹکٹس اور کار پارکنگ کی آمدن سے ہر ماہ کروڑوں نہیں تو لاکھوں روپے ریونیو کمایا جاتا ہے یا کمایا جاسکتا ہے پھر خرچہ بھی کیا جاتا ہے۔ واہگہ اور گنڈا سنگھ بارڈرز پر یہ تقاریب لوگوں میں قومی جذبات بلند کرنے کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کی رقابت کو بھی ہر دم تازہ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ویسے تو ایسے تین بارڈر افغانستان، دو ایران اور ایک چائنہ سے بھی ملتا ہے مگر وہاں ایسی کوئی تقریب نہیں ہوتی، پتا نہیں کیوں۔

ہندوستان سے لاکھ دشمنی کے باوجود ہم تاریخ، تمدن اور تہذیب کی یکجا نشینی کو ماننے سے مصنوعی طور پر انکار تو کر سکتے ہیں مگر دل سے جھٹلا تو نہیں سکتے۔ سناتن اور صوفی مزاج ہمارے خمیر میں رچا بسا ہے، ہم اسلام پر بھی اپنے روایتی طریقے سے عمل کرتے ہیں نہ کہ عربوں اور ترکوں کی طریقے سے۔

جس طرح پنجاب کے شہر ننکانہ صاحب میں بابا گرو نانک کی جائے پیدائش کی جگہ گردوارہ جنم استھان اور کرتارپور میں موجود بابا گرو نانک کی سمادھی و گردوارہ بھارتی پنجاب کے سکھوں کے لیے نہایت اہمیت رکھتا ہے اسی طرح بھارت میں رہنے والے سندھی ہندوؤں کے لیے سندھ بلوچستان بارڈر پر پہاڑوں میں موجود ہنگلاج دیوی ماتا کا قدیم مندر، حیدرآباد کے قریب اڈیرو لال المعروف جۂ جھولی لال اور تھرپارکر میں موجود ماتا چامنڈا کا مندر بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ بمبئی اور الہاس نگر کی آدھی مارکیٹ اکانومی اور بالی وڈ اڈیرو حال المعروف جۂ جھولے لال کے عقیدت مندوں کے ہاتھ میں ہے۔

کرتارپور گردوارے طرح ماتا چامنڈا کا مندر بھی تھرپارکر میں بھارتی بارڈر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہے، جیسے بھارتی پنجاب سے سکھ صاف موسم میں اپنے گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر دوربین سے کرتارپور کے گردوارہ کا دیدار کرتے ہیں اسے طرح بھارت کے لوگ دور سے ماتا چامنڈا کے مندر اور پہاڑی کا درشن کرتے ہیں۔

ابھی ہندو دھرم کے دھرمی دن ”نوراتڑی“ چل رہے ہیں، اور تھرپارکر کے اکثر ہندو یہ نو راتیں اس مندر میں جاکر گزارتے ہیں۔ یہاں آنے والوں میں زیادہ تعداد لوہار، مالہی، کولہی اور مینگھواڑ برادری کے لوگوں کی ہوتی ہے۔

ہر سال اس مندر پر حاضری دینے والے ہریش کمار چوڑیو کا کہنا ہے کہ ”آدشکتی ماتا چامنڈا دیوی کا صدیوں سے موجود یہ مندر ایک پہاڑ کے دھانے میں بنا ہوا ہے، جہاں ایک طرف سے پہاڑ ہے باقی تینوں طرف سے کھلا میدان ہے، اور پہاڑ جھک کر اس مندر کو ڈھانپتے ہوئے اس کی چھت بن جاتا ہے۔ یہ مندر تھرپارکر کی تحصیل ننگرپارکر کے دور دراز پہاڑ پر واقع ہونے کی وجہ سے پہلے یہاں صرف صوفی، سنت، درویش یا سیلانی لوگوں کی ہی عبادت گاہ یا پناہ گاہ ہوا کرتا تھا، مگر پھر آہستہ آہستہ آمدورفت کی سہولیات آنے سے عام لوگوں نے بھی درشن کرنے آنا شروع کیا، ماتا چامنڈا دیوی کے عقیدت مند پاکستان اور بھارت میں لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ سیاحوں کے علاوہ یہاں آنے والے زیادہ لوگ ہاری، چرواہے، کسان، شکاری، مزدور، سیلانی اور سنت ہوتے ہیں۔

سناتن تاریخ کے مطابق ماتا چامنڈا دیوی کا شمار سب سے طاقتور دیویوں میں سے ہوتا ہے، اس کو مہا دیوی پاروتی کی خاص یوگنی مانا جاتا ہے، چامنڈہ دیوی نے ہی مہا راکشسوں ’چنڈا‘ اور ’منڈا‘ کو مار کر نشٹ کیا تھا۔ ماتا چامنڈا دیوی کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا شمار درگا دیوی اور کالی ماتا کے ساتھ ساتھ ہوتا ہے۔ ماتا چامنڈا دیوی کے مندر ویسے تو بھارت کے اکثر بڑے شہر میں موجود ہیں مگر ٹیپو سلطان کے علاقے کرناٹک کے مکھیہ شہر میسور میں سب سے بڑا اور تاریخی مندر ماتا چامنڈا دیوی کے نام سے منسوب ہے۔ ”سندھ میں بھی ماتا چامنڈا دیوی کے ہزاروں ہندو عقیدت مند موجود ہیں، کہتے ہیں کہ تھرپارکر کے علاقے ننگرپارکر کے پہاڑو پر ماتا چامنڈا دیوی کی خاص نظر رہی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ صدیوں سے موجود یہ مندر اب بھی آباد ہے۔

ماتا چامنڈا دیوی کا یہ مندر بھارت کی سرحدوں کے اتنا قریب ہے کہ دن کو بھارت کا بارڈر اور اس کے دوسری طرف صحرا صاف نظر آتا ہے، جبکہ رات کو سرحدوں پر لگی باڑ اور جلتی بتیاں دور تک لائن بناتی نظر آتی ہیں۔ یہ نہایت دلچسپ بات ہے کہ ماتا چامنڈا دیوی کے مندر سے لے کر بھارتی سرحد تک موجود پاکستانی علاقے کا پہاڑ اور رقبہ سرسبز درختوں یا جھاڑیوں سے آباد ہے، اور جیسے سے بھارت کا علاقہ شروع ہوتا ہے تو دور دور تک کوئی درخت نظر نہیں آتا ایک ایسا صحرا ہے جہاں صرف بیابانی ہو۔

ہریش کمار چوڑیو کا کہنا ہے کہ ”کئی صدیوں تک یہ مندر بغیر کسی مورتی کے موجود رہا، یہاں صرف روحانی رمز رکھنے والے ہی آتے تھے، ہر کوئی یہاں کا راستہ بھی نہیں جانتا تھا، مگر جب سے عام لوگوں نے آنا شروع کیا تو یہاں پہاڑ کی اونچائی تک راستے، سیڑہیاں اور آخر میں روڈ بھی بن گئے۔ سب سے پہلے ماتا کے عقیدت مند مرچو مل مالہی نے یہاں ماتا چامنڈا دیوی کی مورت بنا کر آویزاں کی، جس کے بعد ایک چار دیواری بنائی گئی، پھر کمرے بنے اور آنے والے عقیدت مندوں کے رہنے کا بندوبست کیا گیا۔

اس وقت ماتا چامنڈا دیوی کے مندر میں ہزاروں لوگ آتے ہیں جن کے لئے کھانے پینے، رہائش، ستسنگ، بھجن گانے اور صفائی ستھرائی کا اچھا انتظام کیا گیا ہے۔ سندھ سرکار نے ننگرپارکر سے مندر تک کارپٹڈ روڈ بنائی ہے، جس کے بعد عقیدت مندوں کا تانتا سا بندھ گیا ہے۔ جب سے زیادہ لوگوں نے آنا شروع کیا ہے وہاں کا منظر ہی تبدیل ہو گیا ہے، ہر وقت آنے والوں کے لیے لنگر چلتا رہتا ہے، پاکستان ہندو کمیونٹی نے زائرین کے لیے پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے قریبی گاؤں سے پانی کی پائیپ لائن بچھائی ہے، واش رومز اور نہانے کا بندوبست کیا گیا ہے۔ اب یہ مندر مقامی سیاحوں کے لیے کشش رکھنے لگا ہے، جس طرح سے ہنگلاج دیوی کا استھان مسلمانوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہے اسی طرح سے یہاں ماتا چامنڈا دیوی کا مندر دیکھنے کے لیے مسلمان بھی آتے رہتے ہیں۔

یہ سندھ میں مذہبی رواداری کا ہی اعجاز ہے کہ شاہ عبداللطیف بھٹائی، سچل سرمست اور قلندر لال شہباز کے میلوں پر ہزاروں ہندو عقیدت مند آتے ہیں اسی طرح سے ہنگلاج دیوی، چامنڈا دیوی، اڈیرو حال المعروف جۂ جھولے لال اور سامی سرکار کے میلے پر بھی ہزاروں مسلمان جاتے ہیں۔

ماتا ہنگلاج دیوی کے درشن کرنے تو خود حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی بھی گئے تھے۔ اس تیرتھ والے واقعے کو خود بھٹائی سرکار نے اپنے کلام ’شاہ جو رسالو‘ میں بیان کیا ہے۔ کلام کے مطابق جب شاہ بھٹائی ہنگلاج دیوی ماتا کے درشن کرنے جا رہے تھے تو کسی نے طعنہ دیتے کہا

ڪوڙا سامی ڪوڙا سامین پنڌ
ھوت ہن ہنڌ ہو ٿا وڃن ہنگلاج
( جھوٹے سامی، جھوٹی سامیوں کی تیرتھ یاترا،
خدا تو اس جگہ موجود ہے، وہ جا رہے ہیں ہنگلاج)
شاہ عبداللطیف بھٹائی نے جواب میں فرمایا
سچا سامی سچا سامین پنڌ
ھوت ہر ہنڌ پر ہنن ڏٺو ہنگلاج ۾
( سچے سامی، سچی سامیوں کی تیرتھ یاترا
خدا تو ہر جگہ موجود ہے، مگر انہوں نے دیکھا ہنگلاج میں )

روایات کے مطابق ہنگلاج دیوی کو نانی کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے، شاہ عبداللطیف بھٹائی نے بھی اپنے کلام میں ہنگلاج دیوی کو نانی کے نام سے یاد کیا ہے۔ شاہ بھٹائی فرماتے ہیں کہ

نانگا نانی ہلیا ہنگلاجان ہلی
دیکی تن دوارڪا مھیسین ملھی
آڳ جن علی آؤن نہ جئیندی ان ری
( لوگ جوق در جوق ’نانی‘ کی خدمت میں حاضر ہونے ہنگلاج جا رہے ہیں،
جنہوں نے ’دوارکا‘ دیکھا ہے، ان کو ہی نانی کا دیدار نصیب ہوا ہے،
جن کے آگے رہبری حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہے، ان کے سوا ہم جی نہیں سکتے۔ )

ہنگلاج ماتا ہو، چامنڈا دیوی ہو، جۂ جھولے لال ہو یا پھر بابا گرو نانک ہو ان کا اس دھرتی اور رہتل کے ساتھ وہ ناتا ہے جو ہم دھرتی کے باسیوں کو آپس میں تہذیبی طور پر جوڑ کر رکھتا ہے۔

ریاستوں کی سرحدیں بحال اور برقرار رہیں اور رہنی چاہئیں، قومی مفادات ہر کسی کو عزیز ہیں اور ہونے چاہئیں، وطن پر جان قربان مگر کیا ہی اچھا ہو جائے اگر پاکستان اور ہندوستان کے سرحدوں پر گھوڑے کے نعلیں لگے جوتوں والی ٹانگیں اوپر اٹھانے کا مقابلہ کرنے کے بجائے روایتی اور ثقافتی میلے لگوائے جائیں۔ جہاں غصے سے آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کے بجائے دوستی سے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر پیار اور محبت کے ساز اور سر ہر طرف شہنائیوں کی صورت بجتے رہیں، اور ہر طرف میلے کا سا سماں ہو، جہاں ہم سب آنکھیں اٹھا کر ایک دوسرے سے ملا سکیں، ہاتھ ملا سکیں اور دل بھی ملا سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments