ایندھن۔


نمبروں کا مسئلہ صرف میٹرک یا ایف ایس سی لیول کا نہیں ہے۔ یہ مسئلہ ہمارے پورے نظام کی عکاسی کرتا ہے۔

ایک ایسا نظام جس میں تھوک سے پکوڑے تلے جا رہے ہیں اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ کاغذوں، ڈگریوں، نوکریوں اور سی ایس ایس تک میں یہ پکوڑے قابل قبول بھی ہیں۔

جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ کسی سافٹ ویئر انجینیئر سے وائی فائی سکیورٹی کوڈ کی تفاصیل پوچھ لیجے وہ بغلیں جھانکنے لگے گا۔ یہی حال دیگر شعبوں کا ہے۔

پرائیویٹ میڈیکل کالجوں سے ایم بی بی ایس کی ڈگریاں بزور زر لینے والے ڈاکٹر ایک ہی کلاس کی چار چار اینٹی بائیوٹکس لکھ کر نسخے کا منہ کالا کر دیتے ہیں مگر درست تشخیص نہیں کر پاتے۔

سرجن لوگوں کے پیٹ میں قینچیاں اور تولیے رکھ کر رضائی کی طرح سی رہے ہیں۔

حتی ’کہ رسمی تعلیم کی سب اعلی‘ ڈگری پی ایچ ڈی کاپی پیسٹ پر بانٹی جا رہی ہے۔ پی ایچ ڈی کے طلبا سپر وائزروں کے بچوں کے پیمپر تک لا کر دیتے ہیں۔

ہمارے میڈیکل کالجوں میں گوروں کے بعد بھارتی مصنفین کی کتب شامل تدریس ہیں۔ خود ہم نے انہیں کی کتابوں سے پڑھا ہے۔ ہمارے والوں کی اگر کوئی کتاب ہے بھی سہی تو اس کی اوقات وہی ہے جو ادب میں عمیرہ احمد کی ”پیر کامل“ یا نمرہ احمد کی ”جنت کے پتے“ کی ہے۔ یہاں سے ریسرچ اور قابلیت کے معیار کا اندازہ کر لیجے۔

یورپ و امریکہ تک سے مڈل کلاس خاندان ابھی تک لیور ٹرانسپلانٹ کرانے بھارت کا رخ کرتے ہیں کہ وہاں سستا بھی ہے اور ماہر ترین سرجن بھی موجود ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ ہماری درس گاہوں میں قابل اساتذہ کی کمی ہے بلکہ اجارہ داری اور کرپشن کے باعث ایسے قابل فخر لوگوں کو یا تو گورنمنٹ کالج لاہور کی فٹ بال ٹیم کا کوچ لگا دیا جاتا ہے یا پھر ان کے سروں پر نا اہل، نکمے اور الف کو کلی، ب کو بلی کہنے والوں کو مسلط کر دیا جاتا ہے۔ کام چور جہلا کو ترقی پر ترقی دی جاتی ہے جبکہ نادر روزگار کھڈے لائن لگا دیے جاتے ہیں۔

سفارش اور پرچی عام ہے۔

فارماسیوٹیکل سائنسز کے دو اہم مضامین میڈیسینل کیمسٹری اور فارما کگنوزی ہیں جن میں دنیا کی تمام ادویات کی اصل کا مطالعہ کیا جاتا ہے کہ یہ کہاں سے اور کس طریقے سے حاصل ہوتی ہیں، میکنزم آف ایکشن کیا ہے اور ان کی ساخت وغیرہ اور انسانی جسم پر یہ کیسے عمل کرتی ہے۔

یونیورسٹیاں عموماً تیسرے اور چوتھے سال میں دو ہفتوں کا ”پلانٹ کلیکشن“ کا ایک لانگ ٹور شمالی علاقہ جات کا منعقد کرواتی ہیں جس میں طلبا و طالبات کو ڈرگز کی بوٹینیکل، زوولوجیکل اور منرل اوریجن سے پریکٹیکلی آگاہ کیا جاتا ہے۔ اس طرح سیر کی سیر ہوجاتی ہے اور آگاہی کی آگاہی۔ ہم خرما و ہم ثواب۔

زمانہ طالب علمی میں ہمارا یہی ٹور شوگراں و ناران کے جنگلوں میں پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا۔ ایک پی ایچ ڈی پروفیسر صاحب درختوں کے سائنسی نام بتا بتا کر کیرولس اے لینیئس ثانی بنے جاتے تھے۔ فقیر پر تقصیر کی جو شامت آئی تو ایک درخت (جو کہ کارڈیالوجی کی ادویات کا منبع ہوتا ہے ) کے میڈیسنل استعمال کے بارے پوچھ بیٹھا۔

پہلے خفیف ہوئے، پھر کھسیانے سے ہو کر بولے
”ایندھن۔ جن علاقوں میں سوئی گیس نہیں ہے وہاں لوگ آگ جلانے کے لئے یہی لکڑی استعمال کرتے ہیں۔“
اس قدر علمی جواب سن کر اضطراری طور پر ہماری ہنسی نکل گئی۔
”سر وہ ڈائی جو کسن اور ڈجی ٹاکسن بھی تو اس سے حاصل ہوتی ہیں۔ کارڈیو کی اہم ڈرگز ہیں۔“
بس جناب پھر کیا تھا۔
نازک مزاج شاہاں، تاب سخن ندارد۔
پاس کھڑے دوسرے پروفیسر سے غضب کے عالم میں گویا ہوئے
”آپ دیکھ رہے ہیں اس کی زبان درازیاں۔ ہمیں پڑھا ریا ہے۔“
دوسرے صاحب جو انہیں کے بھائی بند تھے سب کے سامنے فرمانے لگے
”خیر ہے۔ وائیوا میں دیکھ لیں گے۔“
اور سالانہ امتحان میں تھیوری میں 90 / 100 لینے والا فقیر وائیوا میں فیل کر دیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments