سیاسی عزم اور ترجیحات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔


مہنگائی جب بڑھتی ہے تو اس کے اثرات براہ راست انسانی زندگی کو اجتماعی طور پر متاثر کرتے ہیں۔ یہی مہنگائی کئی اور بے شمار مسائل پیدا کرتی ہے۔ جس سے نہ صرف عوام کے مشکلات میں دن بہ دن اضافہ ہوتا ہے بلکہ حکومت اور حکومتی اداروں کے لئے بھی مشکلات اور رکاوٹیں پیدا کرتی ہیں۔

میں چونکہ ماہر معاشیات نہیں بلکہ ماہر سماجیات ہوں اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ معاشی بحران سے ہمیشہ بے شمار سماجی مسائل جنم لیتے ہیں۔ ایک طرف اگر چوری، ڈاکے اور کرپشن میں اضافہ ہوتا ہے تو دوسری طرف طبی اور تعلیمی سہولیات کا حصول جو کہ فل وقت مشکل ہے اور اگر حالات پر قابو نہ پایا گیا تو اللہ نہ کرے بچے فٹ پاتھوں پر پیدا ہو کر فٹ پاتھوں ہی پر مریں گے۔ تعلیم کا تو ویسا بھی کوئی پرسان حال نہیں کیونکہ ملک میں اس وقت ڈھائی کروڑ سکول جانے کے عمر کے بچے سکول سے باہر ہیں۔ اسی طرح جب پوری دنیا کا زور تعلیم ہی پر ہے جس کے ذریعے چائلڈ لیبر کا خاتمہ کیا جا رہا ہے اور جو کوششیں تعلیم ہی کے ذریعے چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لئے پچھلے 10 سے 15 سال میں ہوئیں ہیں سب کی سب رائیگاں چلی جائیں گی۔

یوں معاشی مسائل سے لڑائی جھگڑوں، قتل و غارت اور خودکشیوں میں اضافہ کے خطرے سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔

سماجی مسائل کے ساتھ ساتھ ثقافتی، سیاحتی اور تفریحی سرگرمیاں ماند پڑ جائیں گی یہاں تک کہ خیرات اور صدقات غریبوں کی مدد کی خاطر جو کیے جا رہے تھے وہ بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی میں اضافہ ہو گا۔ مافیاز مزید سرگرم عمل ہوجائیں گے گورننس کا نظام جو پہلے ہی سے ناگفتہ بہہ چلا آ رہا ہے اور بھی زبوں حالی کا شکار ہو گا۔ جس کے نتیجے میں تھانوں، کچہریوں اور عدالتوں پر مزید بوجھ بڑھ جائے گا۔

روزگار جو پہلے ہی سے ایک مسئلہ رہا ہے جس میں مزید اضافہ ہو گا اور جب روزگار نہ ہوں تو ظاہر ہے ڈپریشن ہو گا، بے چینی اور اضطراب میں اضافہ ہو گا جس سے نشے کی لعنت میں بھی اضافہ ہو گا جس نے پہلے ہی سی ہمارے نوجوان نسل کو اپنے لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔

بحر حال ’ہم نے گھبرانا نہیں‘ کیونکہ ہم ایک باہمت قوم ہیں۔ ہم نے ہمیشہ حالات کا مقابلہ کیا ہے۔ لیکن عوامی قربانی جو ہمیشہ سے کٹھن حالات میں رہی ہے۔ اب کے بار حکمرانوں نے بھی دینا ہو گی۔

پہلی ترجیح گورننس کے نظام کو مضبوط، مربوط اور مستحکم کرنا ہو گا۔ عوام پر مہنگائی کا بم گرانے کی بجائے حکومتی اخراجات میں کمی لانا ہو گا۔

مافیاز کے سامنے ہاتھ جوڑنے کی بجائے ان کا قلع قمع کرنا ہو گا۔
کرپشن کا خاتمہ اور صاف شفاف احتساب اب حقیقی معنوں میں وقت کا تقاضا بن چکا ہے۔

ہم اس معاشی گرداب سے با آسانی نکل سکتے ہیں بس سیاسی عزم اور ترجیحات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ورنہ یہ سیلاب اللہ نہ کرے سب کچھ بہا کے لے جائے گا اور پھر ’نہ رہے گا بانس، نہ بجے گی بانسری!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments