رمیز بھائی سیکنڈ بیٹنگ کا مسئلہ یاد کریں


”رن چئیز ہو اور پاکستان میچ جیت جائے ایسا ہوتا ہوا لگتا نہیں ہے۔ جیسے ہی ایک ٹارگٹ سیٹ ہوتا ہے پاکستان کو ، دوسری ٹیمز کو یہ پتا ہے کہ ٹارگٹ کو یہ ایک ہوا سمجھتے ہیں اور کہیں نہ کہیں یہ بلینک اور بلاک ہو جاتے ہیں ذہنی اعتبار سے۔ پاکستان کو یہ سوچنا ہے کہ ٹف مومنٹس میں کرنچ مومنٹس میں کون سے ایسے بیٹسمین ہیں جو اسٹراگل کرتے ہیں اور کون سے ایسے پلئیرز ہیں جو کھڑے ہوتے ہیں۔“

2018 میں ابو ظہبی میں کھیلے گئے پاکستان بمقابلہ نیوزی لینڈ ٹیسٹ میچ کے بعد اپنے ماہرانہ تجزیے دیتے ہوئے ان خیالات کا اظہار موجودہ چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ رمیز راجہ نے کیا تھا جن کے لہجے سے عیاں ہو رہا تھا کہ وہ ٹیم کی اس غیر متوقع شکست پر سخت رنجیدہ ہیں۔ صرف وہ ہی نہیں تمام کرکٹ فینز بھی سخت مایوس اور حیران تھے کہ جب پاکستان کے 129 پر صرف تین ہی کھلاڑی آؤٹ اور میچ جیتنے کے لیے صرف 47 رنز ہی درکار تھے تو اپنی ہوم کنڈینشز میں کیسے ہارا جا سکتا ہے۔

جیسے کرکٹ کے کھیل میں اچانک بازی پلٹ جانے والی بات کوئی انہونی چیز نہیں ہے تو پاکستان کے لیے بھی ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے اس طرح ہار جانا کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ہار جیت تو کھیل کا حصہ ہوتی ہے اکثر شائقین کرکٹ سے اپنی ٹیمز کی ہار برداشت نہیں ہوتی اور وہ جذباتی ہو جاتے ہیں لیکن اگر کوئی ٹیم مسلسل ایک ہی طریقے سے شکست کھانے لگے تو صورتحال خاصی مضحکہ خیز ہوجاتی ہے۔ ہاں کئی میچز ہارنے کے بعد کوئی ایسا موقع آتا ہے جب پاکستان نے کوئی بڑا ہدف کامیابی سے عبور کیا ہو جس میں سری لنکا وہ ٹیم ہے جس کے خلاف پاکستان کا ریکارڈ خاصہ بہتر ہے۔ اکثر بیٹنگ کی سازگار وکٹوں پر کم ہدف کے تعاقب میں قومی ٹیمز نے ایسے میچز ہارے کہ باؤلرز سر پکڑ کے رہ گئے۔

رمیز راجہ کے تبصرے سے قبل 2013 میں شعیب اختر نے بھی ببانگ دہل ایسی ہی شکستوں کے بعد تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا۔ ”اب یہ مان لینا چاہیے پاکستان جب ٹاس ہارے گا پاکستان میچ نہیں جیتے گا، پاکستان کی بیٹنگ لائن ہاتھ کھڑے کردے گی کہ بھائی ہم نے اسکور چیئز نہیں کرنا تسی جو مرضی ساڈے نال کرلو۔“ حیرت کی بات یہ ہے کہ سابق کھلاڑیوں کے توجہ دلانے کے باوجود بھی ٹیم کی اتنی بڑی خامی کو دور کرنے کے لیے خصوصی کوششیں نہیں کی گئیں اور کئی اہم مقابلوں میں ہم پیچھے رہ گئے۔ اور اب تو ٹی ٹوئنٹی کے ورلڈ کپ کا بھی آغاز ہے۔

پچھلی دہائی میں کھیلے گئے تین ٹی ٹوئنٹی عالمی کپ مقابلوں میں پاکستان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو 2012 کے سیمی فائنل میں سری لنکا کے خلاف پاکستان 140 رنز کے ہدف کے تعاقب میں ناکام ہو گیا تھا۔ 2014 کی بات کی جائے تو پاکستان آسٹریلیا اور بنگلہ دیش سے پہلے بیٹنگ کر کے جیت گیا لیکن ویسٹ انڈیز کے خلاف اہم مقابلے میں 167 کا ٹارگٹ سامنے دیکھ کر پوری ٹیم 82 رنز پر آل آؤٹ ہو کر ناک آؤٹ ہو گئی۔ 2016 میں بھی پاکستان پہلے بیٹنگ کر کے بنگلہ دیش سے تو جیت گیا لیکن آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے خلاف اہم مقابلوں میں سیکنڈ بیٹنگ آنے کے سبب ہدف کے حصول میں ناکام ہو کر باہر ہو گیا۔

یاد رہے کہ ان ریکارڈز میں بھارت کے خلاف میچز کا ذکر نہیں کہ وہ ایک الگ بیماری ہے۔ بھارت کے خلاف پاکستان عالمی کپ مقابلوں میں صرف ہارا ہی ہے چاہے بیٹنگ پہلے ہو یا دوسری۔ اکثر عالمی کپ میں پوائنٹس ٹیبل پر بھارت سے اچھی پوزیشن میں ہو کر بھی پاکستانی ٹیم بھارت سے یک طرفہ شکست کھا گئی اور سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔

خیر اب جب پاکستان کرکٹ کی باگ ڈور خود رمیز راجہ کے ہاتھوں میں ہے۔ وہ یقیناً ورلڈ کپ کے پیش نظر متنازعہ بیانات اور دیگر امور سے الگ ہو کر اپنی خصوصی توجہ اس اہم مسئلے کی جانب مبذول کریں گے جس کی نشاندہی وہ ماضی میں کرچکے ہیں۔ اس سلسلے میں نئے کوچنگ اسٹاف کی آمد ہو چکی ہے تو کیا قومی ٹیم کو سیکنڈ بیٹنگ کے حوالے سے کوئی اضافی پریکٹس بھی کروائی جائے گی؟

ویسے تو سیکنڈ بیٹنگ میں پاکستانی ٹیم کے ریکارڈز ایک الگ کالم کے متقاضی ہیں لیکن محض یہ چھوٹا سا نکتہ ہی قابل غور ہے۔ پاکستان اور زمبابوے کے مقابلے اک طرفہ ہی ہوتے ہیں لیکن پاکستان زمبابوے کے خلاف جو آخری ٹیسٹ ہارا تھا اس میں اسے 264 رنز کا ٹارگٹ مل گیا تھا۔ پاکستان زمبابوے کے خلاف جو آخری ون ڈے ہارا اس میں اسے 279 کے ہدف کا سامنا تھا اور جو آخری ٹی ٹوئنٹی شکست کا سبب بنا اس کی وجہ بھی اتفاق سے 119 رنز کا تعاقب ہی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments