کیا جسم میں شوگر لیول کم ہونا ذیابیطس ہے؟


آسمان پہ کالی گھٹا چھا جاتی تو بہا ول پور کے لوگ کہتے ”سائیں! کالی دھوں بدلی آ گئی اے، ہنڑ ڈاھڈی بارش ہوسی۔“ ۔ (سائیں! کالی سیاہ گھٹا چھا گئی ہے، اب موسلادھار بارش ہو گی۔ ) ۔ بارش آہستہ آہستہ شروع ہوتی اور جیسے جیسے ٹھنڈ میں اضافہ ہوتا جاتا میرے اندر ”چاچا انگریز“ کے ٹھیلہ سے گرم گرم جلیبیاں کھانے کی خواہش زور مارتی۔ مجھے رم جھم بارش میں بھیگنا بہت پسند رہا اور عجیب بات یہ کہ مجھے سردیوں کی بارش زیادہ پسند رہی۔

میں بارش میں بھیگتا ہوا آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا بارش کا مزا لیتا ہوا چاچا انگریز کی ریڑھی کے پاس آتا اور کہتا ”چاچا! پانچ روپے کی گرم گرم تازہ جلیبی بنا دو ۔ جلیبی کو سرخ کر دینا۔“ ۔ وہ مسکراتا اور پھر میرے لیے تازہ جلیبی بناتا۔ اسٹیل کی پلیٹ (اس وقت پلاسٹک پلیٹوں کا رواج تھوڑا کم تھا۔ لوگ پلاسٹک کے برتنوں میں کھانا پینا پسند نہیں کرتے تھے۔ ) پہ اخباری یا کوئی سفید کاغذ بچھاتا اور اس پہ گرم گرم شیرے والی جلیبی ڈالتا۔ میں جلیبی منہ میں ڈالتا، بارش برساتے بادلوں کی جانب دیکھتا۔ کبھی آسمانی بجلی بھی بڑے زور سے کڑکتی اور چمکتی۔ میں اسے الائچی والی جلیبی کہتا تھا کیونکہ چاچا الائچی کا استعمال زیادہ کرتا تھا۔

گاؤں میں گھر میں خالص دودھ روزانہ آتا تھا۔ جب کالے سیاہ بادل چھا جاتے اور ٹھنڈی ہوا چلنے لگ جاتی تو میرا مزاج سمجھنے والی میری بڑی بہن کبھی اس دودھ کو کاڑھ کے میرے لیے کھویا بنا دیتیں اور کبھی اس میں چنے کی دال اور انڈے ڈال کے حلوہ بنا دیتیں۔

ایس۔ ای کالج کا طالبعلم تھا۔ کبھی دل کرتا تو خراماں خراماں فرید گیٹ چلا جاتا۔ کہتے ہیں نواب آف بہاول پور نے اس گیٹ کا رخ بیکانیر کی طرف رکھوایا تھا اور اس کا پہلا نام بھی بیکانیری گیٹ تھا۔ پہلے بہاول پور میں دانتوں کے بجنے اور کپکپی طاری کر دینے والی سردی پڑتی تھی۔ فرید گیٹ کے اندر داخل ہوتے ہی اے بخش کی سوہن حلوہ کی دکان آتی۔ بہاول پور کے عالمی شہرت یافتہ ہاکی پلیئرز بھی یہاں سوہن حلوہ کھانے اور گرم گرم دودھ پینے آتے۔

اے بخش کے سوہن حلوہ کی شہرت اس کے خاص ذائقہ کی وجہ سے سعودی عرب، دبئی اور دیگر کئی ممالک تک پہنچ چکی تھی اور لوگ وہاں رہائش پذیر اپنے پاکستانی رشتہ داروں کو بھی بجھواتے۔ آرمی افسران اور بیوروکریٹس بھی یہاں سے خرید کر اپنی فیملیز کو بھجواتے۔ صحرائے چولستان میں تلور کے شکار کے لیے آنے والے عرب شہزادے بھی اپنے لیے منگواتے۔ اس دور میں موسم سرما میں مجھے کالے رنگ کی شال لپیٹنا بہت پسند تھا۔ میں شال لپیٹے اے بخش کی دکان میں داخل ہوتا۔ ویٹر میرے سامنے پلیٹ میں گرم گرم سوہن حلوہ اور شیشے کے چھوٹے سے گلاس میں بھاپ اگلتی چائے لا کے رکھ دیتا۔ کبھی رات کو شاہی بازار میں ایک دکان پہ جاتا جہاں ایک پیالے میں گرم دودھ میں جلیبی ڈال کے پیش کی جاتی اور میں چمچ سے جلیبی نکال نکال کے کھاتا۔

چندی پور بس سٹاپ پہ اللہ ڈیوایا ماہنگ من دو من جلیبی بناتا۔ بڑے بڑے جستی تھال جلیبیوں سے بھر دیتا۔ کسان آتے اور کلو دو کلو تین کلو جلیبی خریدتے اور وہیں بیٹھ کے کھا جاتے۔

پھر دور بدل گیا اور ہر طرف سے سننا پڑا ”زیادہ میٹھا نہ کھاؤ ورنہ شوگر (ذیابیطس) ہو جائے گا۔ روزانہ انسولین والا ٹیکا لگانا پڑے گا۔“ ۔ لوگ میٹھا کھانے سے ڈرنے لگے بلکہ ترسنے لگے کہ گھر میں بیوی ڈنڈا اٹھا کے کھڑی ہوتی ہے کہ ”خبردار، تم نے مٹھائی کو ہاتھ بھی لگایا، پہلے ہی تمہارا شوگر ہائی ہے۔“ ۔ خون میں شوگر لیول بڑھ گیا، نہ جسم کا باقاعدہ حصہ بن سکا اور نہ ہی خارج ہو سکا بلکہ جسم میں زہر بن کے اسے نقصان پہنچانے لگا تو ذیابیطس کہلایا۔

سوال یہ ہے کہ جسم میں شوگر لیول کا مسلسل بڑھے رہنا تو ذیابیطس کہلایا لیکن یہ جو کبھی کبھی جسم میں شوگر لیول کم ہو جاتا ہے تو کیا یہ بھی ذیابیطس اور بیماری کہلائے گا؟ ڈاکٹروں کی ایک تعداد اور عوام کی اکثریت تو یہی کہے گی کہ ”ہاں جی، یہ بھی ذیابیطس اور بیماری ہے۔ “ اکبر شیخ اکبر یہاں آپ سے احترام کے ساتھ اختلاف کرے گا۔ اس کا نکتہ نظر یہ ہے کہ کبھی کبھی جسم میں شوگر لیول کم یا ڈاؤن ہو جانا نہ تو ذیابیطس ہے اور نہ ہی بیماری ہے بلکہ یہ جسم کی ایک نارمل ایکٹیویٹی اور پیغام ہے کہ اس وقت اسے میٹھی چیز کی صورت میں گلوکوز کی ضرورت ہے۔

لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں کے ساتھ دنیا میں فارماسوٹیکل مافیا نے ”سادہ لوح ڈاکٹرز“ کے ساتھ مل کر سب سے بڑا ظلم یہ کیا کہ ایک خاص قسم کے اور مسلسل پروپیگنڈا کے ذریعے برین واشنگ کر کے ان کو یقین دلا دیا گیا کہ جسم میں شوگر لیول کم ہو جانا بھی ذیابیطس کی بیماری ہے اور اب تمہیں لازمی طور پہ دوائیں کھانا ہوں گی۔ (جب کبھی میں اپنے بلاگز میں فارماسوٹیکل مافیا کے بارے میں کچھ لکھ دیتا ہوں تو نظر نہ آنے والے کچھ ہاتھ حرکت میں آتے ہیں اور فیس بک پہ میرے بلاگز کی آؤٹ ریچ کم کر دی جاتی ہے۔

پھر میرے بلاگز فیس بک پہ میری فرینڈ لسٹ میں موجود تمام دوستوں کی بجائے بس چند دوستوں کے سامنے ہی آتے ہیں۔ جب ہم نے نئی نئی شاعری شروع کی تو کراچی کے ایک پروفیسر صاحب جو شاعری میں عروض و اوزان کے معاملہ میں انتہائی ”متشدد مزاج“ رکھتے تھے ہماری ایک فیس بک پوسٹ پہ یوں تبصرہ کیا ”بھائی! جسے آپ اپنی شاعری سمجھ رہے ہیں آپ اس سے باز آنے والے نہیں“ ۔ یہ پڑھ کے پہلے تو ہمیں غصہ محسوس ہوا لیکن پھر ہم ہنسے اور اور اس طنز کو بھر پور انجوائے کیا۔

ویسے بھی لٹریچر اور سوشل میڈیا کی دنیا میں لکھنا ہو تو پھر طنز کا سامنا کرنے کے لیے خود کو ذہنی طور پہ تیار رکھنا پڑتا ہے۔ یہ اور بات کہ پروفیسر صاحب تبصرہ کرتے ہوئے شائستگی کا دامن چھوڑ جاتے تھے جس کی وجہ سے ہمیں انھیں بلاک کرنا پڑا۔ عرض ہے کہ جب ہم پہ بلاگ لکھنے کا دورہ پڑ ہی جاتا ہے تو پھر ہم بلاگز لکھنے سے باز آنے والے نہیں۔ ہاں، اگر کوئی مدھو بالا کہے کہ اکبر میاں بس بہت ہو چکا اب تمہیں بلاگز لکھنے بند کرنا ہوں گے تو ہو سکتا ہے یہ کمزور دل بندہ دلیپ کمار بننے کے چکر میں۔

ارے صاحب! ویسے بھی دنیا کی بہت بڑی میٹھی اور شیریں زبان بولنے والے اپنے جذبہ محبت و رومانس کی وجہ سے اپنی بیویوں کے غلام ہوتے ہیں۔ ہماری شہرت ہی یہ ہوتی ہے کہ اپنی بیویوں سے ڈرتے بہت ہیں۔ یہ جو ملتان، بہاول پور، ڈیرہ غازی خان اور جھنگ میں شام ہوتے ہی سڑکوں سے شادی شدہ مرد غائب ہونا شروع ہو جاتے ہیں تو اس کی وجہ یہ فون کال ہوتی ہے ”کتھاں مر گیا ایں؟“ (کہاں مر گئے ہو؟ ) ۔ ”انھاں لوندھاں سکداں دا ددھ ڈیری فارم توں تیڈا پیو گھن آسی؟“ (ان معصوم بچوں کا دودھ ڈیری فارم سے تیرا باپ لے کے آئے گا کیا؟)۔ خیر۔ کیا پتہ مدھو بالا بلاگز لازمی لکھنے کی شرط رکھ دے پھر؟)

کیا آپ جانتے ہیں کہ ذیابیطس کی دوائیوں اور میڈیکل ڈیوائسز کی دنیا بھر میں ہونے والی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدن کتنی ہو گی؟ ”اربوں ڈالرز نہیں کھربوں ڈالرز۔ جی ہاں کھربوں ڈالرز“ اور اس آمدن کا بڑا حصہ دنیا کے طاقتور ممالک دنیا بھر میں اپنے مخصوص مقاصد پہ خرچ کرتے ہیں۔

تھوڑا ماضی میں چلتے ہیں۔ کیا ماضی میں غریب لوگوں کو ذیابیطس یا شوگر کا مرض ہوتا تھا؟ کیا مڈل کلاس کی بھی بڑی تعداد ذیابیطس کے مرض سے محفوظ نہیں تھی؟ یقیناً جواب یہ ہو گا کہ ماضی میں ذیابیطس کا مرض دولتمند افراد کو لاحق ہوتا تھا جن کے پاس نوکروں چاکروں کی فوج ہوتی تھی اور ان کے پاس کھانا پینا بہت وافر ہوتا تھا اور خاص بات یہ کہ ان کا زیادہ وقت بس آرام کرنے میں گزرتا تھا یعنی ان کی فزیکل موومنٹ بہت کم ہوتی تھی۔

ماضی میں کبھی آپ نے سنا کہ کسانوں اور دیہات کے لوگوں میں شوگر کا مرض بڑے پیمانے پہ رپورٹ ہوا ہو؟ اور اب۔ اب کسان بھی انسولین کے انجکشن لگاتے پھر رہے ہیں اور دیہات کے لوگ بھی ذیابیطس کے ہاتھوں اپنے گردے ناکارہ کرا کے یا دل کے مریض بن کے بڑے شہروں کے ہسپتالوں یا اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کے پاس چکر لگاتے پھر رہے ہیں۔

عوام یہاں تک کہ غریب خاندانوں کا بھی بڑے پیمانے پہ ذیابیطس کے مرض کا شکار ہونے کی درج ذیل وجوہات ہیں۔

1۔ مختلف انٹرنیشنل اور نیشنل برانڈز کے نام پہ ایسے سافٹ ڈرنکس عوام میں مقبول کرا دیے گئے جن کے اندر موجود کیمیکلز براہ راست لبلبہ کی کارکردگی اور قدرتی انسولین کے نظام کو متاثر کرتے ہیں۔ بہاول پور، ملتان اور ملک کے دیگر علاقوں میں لیمن سوڈا واٹر، آئس کریم سوڈا، فالسہ، لیچی، آلو بخارا سوڈا وغیرہ کے نام سے جو مشروبات بیچے اور پلائے جا رہے ہیں یہ چائنا سے درآمد کیے جانے والے ایک خطرناک کیمیکل سے بنائے جا رہے ہیں۔

یہ کیمیکل اگر براہ راست پی لیا جائے تو پھیپھڑوں اور گردوں کے ٹشوز پھاڑ دیتا ہے۔ سڑک پہ ہوں اور پیاس لگی ہو تو کبھی کبھی گلابی دودھ سوڈا یا انٹرنیشنل برانڈ کا سافٹ ڈرنک پی لیتا ہوں لیکن اوورآل اس طرح کے مشروبات سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہوں۔ آپ بھی کبھی کبھی دل پشوری کے لیے یہ رنگ برنگے مشروبات پی سکتے ہیں لیکن روزانہ کی روٹین نہیں بنانی۔

2۔ ایسے جنک اور فاسٹ فوڈز اور دیگر فوڈ آئٹمز عوام میں متعارف کرائے گئے جو قدرتی انسولین کے فعال ہونے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔

3۔ مختلف لیزنگ اسکیموں کے ذریعے گاڑیاں اور موٹر سائیکل عام کر دیے گئے۔ یورپ کے لوگ ترقی یافتہ اقوام بننے کے باوجود موٹر سائیکل پہ شفٹ ہونے کی بجائے سائیکل سوار ہی رہے لیکن ہمارے ہاں گھر کا سودا سلف منگوانے اور اماں جی کو شاپنگ کے لیے بازار یا رشتہ داروں کے پاس لے جانے کے لیے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی موٹر سائیکل ڈرائیور بنا دیا گیا۔ جب ان کی فزیکل موومنٹ ہی ختم ہو گئی تو ان کا جسم خون میں خوراک کے ذریعے آنے والی ایکسٹرا شوگر یا مٹھاس کو نہ تو ہضم کر سکا اور نہ ہی ٹھکانے لگا سکا۔ نتیجہ یہ کہ بڑے تو بڑے نوجوانوں اور ٹین ایجرز اور بچوں میں بھی ذیابیطس کا مرض رپورٹ ہونے لگا۔

آپ جسم میں شوگر لیول کے مسلسل یا مستقل ہائی رہنے کے مریض بن چکے ہیں اور دوائیاں اور انسولین استعمال کرتے ہیں اور ساتھ دیگر جسمانی پیچیدگیوں کے بھی شکار ہو چکے ہیں تو راقم آپ کو یہ ادویات اور علاج چھوڑنے کے لیے اصرار نہیں کرتا۔ آپ کا علاج کرنے والا ڈاکٹر چاہے وہ ایلوپیتھک ہے یا ہومیوپیتھک وہ جیسا آپ کو کہتا ہے آپ ویسا کریں۔ لیکن جب آپ کے جسم میں شوگر لیول کم یا ڈاؤن ہو جائے تو پھر اسے اوپر لانے کے لیے دوائی کی بجائے کوئی میٹھی چیز کھانی ہے۔

اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ میں آپ کو یہ کہوں کہ روزانہ میٹھی چیزیں کھانی ہیں۔ چونکہ آپ نے اپنے جسم کو متحرک رکھنا چھوڑ دیا ہے۔ آپ واک اور ورزش بھی نہیں کرتے۔ آپ گھر کے قریب واقع مارکیٹ سے سودا سلف لانے کے لیے بھی پیدل یا بائسیکل پہ جانے کی بجائے موٹر سائیکل یا کار پہ جاتے ہیں۔ (بائسیکل چلانا تو ویسے بھی اب جنوبی ایشیا خاص طور پہ پاکستان اور اس کے ایک ارب سے زیادہ آبادی رکھنے والے ہمسایہ ملک میں اسٹیٹس کے خلاف سمجھا جاتا ہے اور کسی کو چلانا بھی پڑ جائے تو وہ بیچارہ احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے۔ ) تو ایسے حالات میں میٹھی چیزوں کا حد سے زیادہ استعمال آپ کو واقعی ذیابیطس کا مریض بنا دے گا۔

ملک میں ذیابیطس کے مریض کم کرنا ہیں تو سب سے پہلے تو عوام کا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنا ہو گا۔ عوام کی ذہن سازی کرنا ہو گی کہ بائسیکل چلانا اور پیدل چلنا کوئی کمتر کام نہیں بلکہ یہ آپ کی صحت کے دوست عوامل ہیں۔ روزانہ واک اور ورزش کو اپنا لازمی معمول بنا لیں یہاں تک اپنے گھر کی خواتین کو بھی چار دیواری میں قید رکھنے کی بجائے انھیں بھی گھر سے باہر نکل کے اگر قریب کوئی پارک نہیں تو سڑک پہ ہی واک کرنے کی اجازت دے دیں۔

جنک اور فاسٹ فوڈ اور برانڈڈ سافٹ ڈرنکس کبھی کبھی لے لیں روزانہ نہیں۔ سیلف میڈیکیشن اور ادویات کا بے تحاشا استعمال نہیں کرنا۔ خصوصاً ڈاکٹروں سے التجا ہے کہ ہر مریض کے ہاتھ میں نسخہ کے نام پہ ادویات کی لمبی چوڑی فہرست نہ پکڑا دیا کریں۔ آپ جس شعبہ سے وابستہ ہیں اس میں مریضوں کا علاج اور خدمت بھی ایک طرح کی عبادت ہے اور اور اگر آپ کو روز جزا و سزا پہ یقین ہے تو دکھی انسانیت کی یہی خدمت آپ کے لیے اخروی زندگی میں کامیابی بن جائے گی۔ جب ایک مریض کی بیماری میں علاج کے لیے ایک یا دو یا زیادہ سے زیادہ تین دوائیاں ہی کافی ہوتی ہیں تو اس وقت آپ کا آٹھ دس دوائیاں لکھ دینا اس کے جسم میں نئی بیماریوں اور پیچیدگیوں کا سبب بن جاتا ہے۔

میں دوبارہ یہ بات لکھ رہا ہوں کہ کبھی کبھی شوگر لیول کم ہو جانا بیماری نہیں البتہ کوئی فرد پہلے سے ہائی بلڈ شوگر یا کسی اور کر و نک بیماری کا مریض ہے اور اس کا شوگر لیول روزانہ یا اکثر اچانک ڈاؤن ہونے لگ گیا ہے تو پھر وہ اس کا علاج کرا سکتا ہے۔ ہومیوپیتھ ریسرچر ڈاکٹر اختر سعید سہو کے تجربہ کے مطابق ہومیوپیتھک دوا Thyrodinum ایسی علامات میں اچھا کام کرتی ہے کہ مریض کا بلڈ شوگر لیول اکثر کم ہو جاتا ہے اور میٹھی چیز کھانے کی خواہش ہوتی ہو جسے کھانے سے وہ واپس نارمل لیول پہ آ جاتا ہو۔ یہ دوا 30 یا 3 x کی پوٹینسی میں استعمال کی جائے گی۔

احباب! آپ کی مرضی ہے آپ چاہیں تو ہائی بلڈ شوگر کی بیماری کے لیے ایلوپیتھک علاج کرائیں تاہم میں اپنی معلومات کے مطابق کچھ ہومیوپیتھک ادویات بھی لکھ دیتا ہوں۔ آپ چاہیں تو ان ادویات کو گوگل سرچ انجن میں سٹڈی کر لیں لیکن انھیں اپنے قریبی ایسے تجربہ کار ہومیوپیتھ کی زیر نگرانی ہی استعمال کرنا ہے جو ہومیوپیتھک علاج میں کمپاؤنڈز یعنی مرکب ادویات کی بجائے سنگل ریمیڈی یعنی اکیلی دوائی سے علاج کرتا ہو۔ پاکستان میں ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہومیوپیتھس ہوں گے لیکن ان میں سنگل ریمیڈی علاج کرنے والے شاید صرف ایک ہزار ہوں۔

1-Syzygium Jambolanum—2-Uranium Nitricum —3-Conium —4-Phosphoric Acid—5-Natrum Sulph

درج بالا ادویات خون میں ہائی شوگر لیول کو واپس نارمل لیول پہ لانے کے لیے بطور جنرل میڈیسنز کے 30 یا 3 x یا 6 x کی پوٹینسی میں استعمال ہوتی ہیں تاہم اگر آپ کا ہومیوپیتھ معالج سیانا اور تجربہ کار ہے تو وہ آپ کا میازم پہچانتے ہوئے آپ کو پہلے اینٹی۔ میازم دوائی دے گا اور اگر اسے آپ کے اندر کوئی منفرد ذہنی علامت بھی ملے گی تو وہ اس کی بھی دوا دے گا۔ ہومیوپیتھی فلاسفی کے مطابق جسم میں موجود بیماری کسی منفرد علامت اور مخصوص رویہ کے ذریعہ اظہار کر رہی ہوتی ہے۔ 14 اگست 2021 کو مینار پاکستان پہ ہجوم نے منفی اور انتہائی غیر اخلاقی رویہ اپنایا جو ایک بیمار معاشرے کی علامت تھا۔ اجتماعی سطح پہ مثبت سوچ اور مثبت رویوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

جڑی بوٹیوں یا مصالحہ جات میں دار چینی سے ہائی بلڈ شوگر کو کنٹرول کرنے اور قدرتی انسولین کی کارکردگی میں بہتری لانے کے لیے اچھے نتائج لیے گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments