مہنگائی ڈائن


کافی برس پہلے ایک گانا سنا، ’سکھی سیاں تو کھوب ہی کمات ہیں، مہنگائی ڈائن کھائے جات ہے۔’

اس وقت ‘باپ کی کمائی’ اڑاتے تھے اور ایسے کلام کو سمجھنے کے لیے جو فہم و ادراک چاہیے ہوتا ہے وہ موجود نہ تھا، اسے صرف ایک گانا سمجھا۔ یہ نہیں سوچا تھا کہ ایک روز یہ دل کی آواز بن جائے گا۔

یہ گانا جس فلم میں تھا اس میں انڈین پنجاب میں کسانوں کی بڑھتی ہوئی خودکشیوں پر معاشرے کے ردعمل پر طنز کیا گیا تھا۔ آج ہمارے ہاں بھی کچھ ویسے ہی حالات سامنے آنے والے ہیں۔

پیٹرول کی قیمت میں اضافے کے ساتھ ہی بے شمار اشیا کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ دس، پانچ روپے کے اس اضافے کا شاید متوسط اور اوپری متوسط طبقے پر اس قدر برا اثر نہیں پڑتا لیکن غربت کی لکیر سے نیچے اور اس لکیر پر زندگی گزارنے والوں کے لیے یہ ایک بم سے کم نہیں۔

بجلی کے بل تو خیر پہلے ہی بے قابو تھے اب مزید اضافے کے بعد دیکھیے معاملہ کہاں تک پہنچتا ہے۔ گھریلو صارفین اپنی جگہ رو رہے ہیں۔ کاشتکار اور کمرشل بجلی استعمال کرنے والے الگ سر پکڑے بیٹھے ہیں۔

ہمارے کچھ مہربان ایسے بھی ہیں کہ ان حالات کے بارے میں ذکر کرنے پر سخت خفا ہو جاتے ہیں اور ڈانٹ بتا کے کہتے ہیں، ’آپ تو چوروں کے دور میں ہی خوش تھے، وہ سب مصنوعی طور پر سستا تھا، اسی لیے اب سب کچھ اتنا مہنگا ہو رہا ہے۔‘

اس منطق کی سمجھ اس لیے نہیں آتی کہ آخری بار جب ریاضی کا پرچہ دیا تھا تو رعایتی نمبروں سے پاس ہوئی تھی۔ معاشیات کا اتنا ادق اصول میرے پلے نہیں پڑتا۔

ہوں گے وہی قصور وار مگر سزا ہم کیوں بھگت رہے ہیں؟ جنھیں گرفتار کر کے ان کی جیبیں جھاڑی گئی تھیں ان سے برآمد شدہ اس لوٹی ہوئی دولت نے ہمیں کیا فائدہ دیا؟

لوگ مایوس ہو چکے ہیں۔ ایک خوف، ایک اضطراب اور بے یقینی ہے۔ عوام کو اپنے لیڈر پر بڑا بھروسہ ہوتا ہے۔ جب لیڈر کے بارے میں ہی کچھ کا کچھ سننے کو ملے تو یہ اضطراب لازمی ہے۔

لوگ نہ صرف تھک چکے ہیں بلکہ اکتا بھی چکے ہیں۔ میں نے کسی کو کسی اچھی خبر کا منتظر نہیں دیکھا۔ ہر صبح چہروں پر یہ ہی لکھا ہوتا ہے کہ اب کیا ہو گا؟

یہ مہنگائی کیوں ہو رہی ہے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ مہنگائی یوں ہی بڑھتی رہے گی یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ جیسے پریوں کی کہانیوں میں سوتیلی ماں آتی تھی تو بچت کے نام پہ سب سے پہلے ننھی شہزادی کے سب اللے تللے بند کر دیے جاتے تھے۔

عین اسی طرح پاکستانی عوام کو سوتیلی ماں کی سفارشات پر یہ سب سہنا پڑے گا۔ مہنگائی کا یہ جن، کتنوں کا ذہنی سکون کھا رہا ہے۔ ایک وقت کھا کے دوسرے وقت کی فکر پڑ جاتی ہے۔ فرات کے کنارے والا کتا خوش نصیب تھا کہ اس کا کوئی پرسان تھا۔

لاکھوں کروڑوں انسان پریشان ہیں اور ان کا پرسان کوئی نہیں۔ دعوے کرنا ایک بات ہے اور نبھانا دوسری۔ خاں صاحب کی حامی ایک خاتون تو مہنگائی کے سوال پر اتنے جلال میں آئیں کہ مجھے لگا ان میں جن حلول کر گیا ہے۔

آج جانے کیوں بار بار، جن، پری، ڈائن کا ذکر آئے جا رہا ہے۔ جنات تک بات آ گئی ہے تو بات بدل دینی چاہیے کیونکہ یہ بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔

ایسا ہے کہ ہمیں جن ون کی تو کوئی خاص خبر نہیں پر یہ بات ضرور سچ ہے کہ اس ملک پہ ایک ڈائن کا سایہ پڑ گیا ہے اور اس کا اثر حکمرانوں کے لیے کبھی بھی اچھا ثابت نہیں ہوتا۔ مہنگائی ڈائن، سب کچھ کھا جاتی ہے۔ کاش کوئی جی دار اس ڈائن کو قابو کر سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments