مرو گے تب جب موت آئے گی


یہ بات 1971 سے پہلے کی ہے۔ ہمارا گھرانا ویسے ہی مذہبی تھا۔ جنونی نہیں علمی حوالے سے مذہبی۔ مذہب سے بغاوت جسے گھر کی مذہبیت سے انکار کہنا زیادہ مناسب ہو گا، کے جراثیم تو پہلے ہی پنپنے لگے تھے جب میں گورنمنٹ کالج لاہور کے اقبال ہوسٹل کے صحن کے گول گراسی گراؤنڈ میں اذان دے کر کافی دیر تک منتظر کھڑے رائے ونڈ کے رہائشی داڑھی والے لڑکے مولوی ستار کی توجہ کامن روم سے بلند ہوتے قہقہوں کی جانب کروا کے فی البدیہہ شعر پڑھ دیا کرتا تھا:

قہقہے گونج رہیں ہیں واں طرب خانے میں
نہ نمازی کوئی اب تک سوئے مسجد آیا

ستار ( سنا ہے بعد میں وہ بہت ماڈرن پلے بوائے بن گیا تھا ) خجل مسکراہٹ مسکراتا تھا اور میں ہنس کر کے آگے بڑھ جاتا تھا۔

ایف ایس سی کر کے نشتر میڈیکل کالج ملتان آنا پڑا کیونکہ گھر والوں کے خیال میں گھر کا یہ اچھا بچہ لاہور جا کر خراب ہو گیا تھا۔ اس اچھے بچے کو ایک اچھی بچی سے پیار ہو گیا تھا، جس کی بہت مخالفت ہوئی تھی۔ حالانکہ ہم دونوں کا رشتہ وہی تھا جو حضرت علی رضی اللہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہم کا نکاح سے پہلے تھا (بعد میں اس لڑکی کی بہنیں بالترتیب میرے سگے چھوٹے بھائی، میرے سگے بھتیجے اور میرے سگے بھانجے کی بیویاں بنیں ) مگر روایات اور تعصبات میں مذہب کے حوالے کون مانتا ہے۔

خیر جب پیار سے دور ہوا، پہلے مذہب میں پناہ لی۔ زیادہ وقت نشتر میڈیکل کالج کی مسجد میں گزرا کرتا تھا۔ تبلیغی جماعت کی جانب راغب ہو گیا۔ کئی سہ روزہ لگانے کے بعد چلے پر نکل گیا۔ قصہ مختصر پہلا قیام ہی جی سی لاہور کی مسجد میں تھا۔ اس کا قصہ پھر کبھی۔ وہاں سے پنڈی، پنڈی سے چارسدہ، اس کا قصہ بھی مستقبل پر چھوڑتے ہیں پھر پشاور یونیورسٹی کی مسجد، یہاں کا قصہ بھی محذوف قرار دیتے ہیں۔ پشاور سے لوٹنا تھا۔ جو ویگن کرائے پر لی تھی، اس کا پٹھان ڈرائیور سڑک پر چلتی ہر لڑکی کو دیکھ کر ہارن بجاتا تھا۔ میں شیریں مقال مبلغ تھا۔ مجھے رائے ونڈ کے مولانا وہاب بھی پسند کرتے تھے چنانچہ ہمارے فزیالوجی کے ڈیمانسٹریٹر اور تبلیغی ساتھی ڈاکٹر کمال نے مجھے کہا کہ تم اگلی سیٹ پر جا کے ڈرائیور کے پاس بیٹھو اور اسے دین کی تبلیغ کرو۔ آگے جو بھائی بیٹھے تھے، انہیں پیچھے میری نشست پر بٹھا دیا گیا۔

میں نے ڈرائیور سے اس کے حالات زندگی پوچھ کر اس کی قبائلی زندگی سے گفتگو کی ابتدا کی اور سمجھاتا گیا۔ اس کے ساتھ پنڈی پہنچانے کا طے ہوا تھا لیکن وہ میری تبلیغ سے اتنا متاثر ہوا کہ بولا، ”آپ اچا لوگ اے، لہور بی ام لے جائے گا اور رعایت سے لے جائے گا“ ۔ ہمیں تو سواری ہی چاہیے تھی سو مان گئے۔

گوجر خاں کے نزدیک اس نے مجھے کہا دیکھو ام یہ موڑ کیسے کاٹے گا۔ پیچھے سے کمال صاحب نے کہا، ”ارے بھائی احتیاط سے“ ۔ اس نے گردن موڑ کر کہا، ”چپ کرو مولوی صیب، تم کیتا اے سب اللہ کرتا ہے، ڈرتا کیوں اے“ اور موڑ کاٹ دیا۔ ویگن لڑھکنیاں کھاتی ہوئی کھائی میں جا رہی تھی۔ مجھے سب کچھ الٹا سیدھا ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔ شکر ہے موڑ پر لگا ایک ڈرم بھی آگے آگے لڑھکتا جا رہا تھا، چنانچہ بیس پچیس میٹر کی گہرائی میں جا کر جس چٹان کے سہارے، چھت کے بل ویگن ساکت ہوئی اس کے ساتھ وہی ڈرم لگ کے پچک گیا تھا، مگر بچت ہو گئی۔

میں سر نیچے ٹانگیں اوپر ویگن میں باقی لوگوں کی طرح بند تھا۔ کہنی مار کے شیشہ توڑا تو کوئی گرم گرم مائع میری دونوں آنکھوں میں پڑ گیا۔ بہت جلن ہوئی مگر میں نے پہلے سر کھڑکی سے باہر نکالا اور پھر کھسک کر نکل آیا۔ دونوں آنکھوں پر ہاتھ تھے۔ ایک طرف کی آنکھ کی ریخ سے دکھائی دیا کہ ڈرائیور سر پکڑے ایک پتھر پر بیٹھا ہے اور اس کے ماتھے پر خون کی لکیر ہے۔ ایک کھڑکی سے علی شمس القمر ( اب ریٹائرڈ کرنل ڈاکٹر ) کا سر نکلا ہوا ہے۔ وہ بے ہوش ہے اور اس کے سر سے خون کا فوارہ نکل رہا ہے۔

اوپر مسافر بسیں رک چکی تھیں، لوگ مدد کے لیے نیچے اتر آئے تھے۔ کسی نے مجھے اوپر لے جانا چاہا تو میں نے کہا کہ تھا پہلے قمر کو نکال کر لے کے جاؤ۔ قمر کو میں راغب کر کے ساتھ لے گیا تھا۔ خیر مجھے کوئی پکڑ کر چڑھاتے ہوئے اوپر لے آیا تھا اور ایک بس کی آخری لمبی سیٹ (اس زمانے میں ہوتی تھیں ) پر لٹا دیا تھا۔ وہاں بیٹھی کسی مہربان عورت نے میرا سر اپنی گود میں رکھ لیا اور کہے جاتی تھی، ”ہائے نی کسی دا ویر، کسی دا پتر، کڈا سوہنا اے۔ اللہ ایدھی اکھاں دی خیر“ میں مسکراتے ہوئے اسے تسلی دے رہا تھا۔

گوجر خان سول ہسپتال پہنچا دیا گیا۔ اتفاق سے اس روز پنڈی سے ماہر چشم بھی آئے ہوئے تھے جنہوں نے آپریشن تھیٹر میں لے جا کر میری آنکھوں کو بورک ایسڈ سے دھو دیا اور مجھے بیڈ پر پہنچا دیا۔ میری ایک آنکھ کے پہلو کی ریخ سے ہی دکھائی دیتا تھا۔ مجھے گریبان پر کچھ گرا ہوا لگا، میں نے جھاڑا تو جہاں جہاں نشان تھے وہاں سے کپڑا ہی جھڑ گیا۔ میں چیخا ”سر یہ تو ایسڈ تھا“ اصل میں میری آنکھوں میں بیٹری کا تیزاب پڑ گیا تھا۔ مجھے فوری طور پر تھیٹر لے جایا گیا اور اس بار آنکھوں کو الکلی سے دھویا گیا۔

اس کے بعد ایک ماہ تک نیم نابینا رہا۔ آنکھوں میں کبھی Atropine کے قطرے تو کبھی Esserine کے۔ پتلیاں پھیل جاتیں تو روشنائی چبھتی اور سکڑ جاتیں تو اندھیرا ہو جاتا۔ میں آج تک Photosensitive gray glasses پہنتا ہوں۔

ڈر گیا کہ اندھا ہو جاتا تو مسجد میں بٹھا دیا جاتا۔ اب مذہب سے بالکل ہی گریزاں ہو گیا۔ ذہن میں ”اس“ کے ”ہونے“ اور ”نہ ہونے“ کی جنگ تھی:

وہ ضرور ہے!
لیکن کہاں؟ اور کون؟
میں بتا سکتا ہوں
سوچ، سمجھ، ادراک، وقوف
تو تمہارے چار ہوئے ناں!
پاگل! یہ تو ”وحدت الوجود“ ہے
اور جاہل! وحدت الشہود بھی
ہنہ۔ (طنز و تمسخر سے بھرپور زہر خند)
چلو بتاؤ کیسے؟
(توقف اور تجاہل عارفانہ۔ )
دلیلوں اور تاویلوں سے فائدہ؟
ختم اللہ علی قلوبھم وعلی۔
(جھنجھلاہٹ) ۔
اچھا چلو تم ہی بولو، کون کہی اں اور کیسے؟
بس ہے (تیقن سے )
(نگاہوں کا الجھاؤ۔ بے بسی)
تو ہم دونوں اندھیرے میں ہیں (دونوں دھیرے سے
نہیں! نہیں، ہم تو بینا ہیں، وہ ہی اندھیرے میں ہے
(ڈگمگاتے ایقان کے ساتھ)
واہ! وہ تو نور ہے
ہوتا رہے (اکتاہٹ)
آنکھیں موندیں اور سو جائیں

سوچا اپنی جان لے لی جائے تاکہ اس کرب سے جان چھوٹے۔ اپنی جان لینا اتنا اسان نہیں ہوتا۔ اس زمانے میں بہت قوی خواب آور گولی Soneryl کے نام سے ہوا کرتی تھی۔ نوکر کے ہاتھ پچیس تیس منگوا لیں۔ حوصلہ نہیں ہوتا تھا۔ روز ایک لے لیتا تھا۔ جب اٹھارہ بیس کے قریب بچ رہیں تو اپنی بزدلی پر غصہ آ گیا۔ سوچا آج کھا ہی لوں گا۔ منصوبہ یہ تھا چونکہ نوکر روزانہ چارپائی چھت پر بچھا ہی آتا ہے، گولیاں کھاؤں گا اور جا کر لیٹ رہوں گا، صبح تک قصہ تمام ہو جائے گا۔

نوکر کے آنے سے پانچ منٹ پہلے باتھ روم میں جا کر ساری گولیاں منہ میں ڈالیں اور پانی کے دو تین گھونٹ بھرے۔ آج بھی میں ایک گولی مشکل سے نگلتا ہوں۔ چار پانچ ہی نگلی جا سکیں، باقی ہتھیلی پر الٹ دیں۔ لمحہ دو لمحہ سوچا کہ گڑ بڑ ہو گئی۔ ہمت کر کے باقی بھی نگل لیں۔ باہر نکل کر کسی ہم جماعت سے تھوڑی گپ شپ کی اور کمرے میں لوٹ آیا۔ آج اتفاق سے نوکر آیا ہی نہیں تھا۔ چارپائی کمرے ہی میں تھی۔ پرائیویسی میں ایسٹ پاکستان سے لوٹا ہوا ایک دوست رہتا تھا۔

کمرے کی بجلی بجھاتے ہوئے اسے کہا، ”یار میں سو رہا ہوں“ اس نے پوچھا اتنی جلدی۔ میں نے کہہ دیا ہاں نیند آ رہی ہے۔ اب دیکھیے، مشرقی پاکستان سے آیا ہوا ایک اور لڑکا جو بہت کم آتا تھا، کمرے میں داخل ہوا اور بجلی کا سوچ دبانے لگا تو میں نے درشتی سے کہا، ”مت دباؤ“ ۔ اس نے بلب روشن کیا اور بولا، ”میں تمہیں ملنے آیا ہوں اور تو سو رہا ہے“ ۔ میرا درشت لہجہ سن کر پر اؤیسی میں بیٹھا دوست بھی کمرے میں آ گیا۔ اس نے میری طرف دیکھا اور پوچھا، ”وہ تمہاری گولیاں کہاں ہیں؟“

اس نے بعد میں بتایا کہ میرے چہرے پر پسینے کے قطرے دیکھ کر اس نے پوچھا تھا۔ میں نے لاعلمی ظاہر کی۔ اس نے سختی سے پوچھا، ”کھا تو نہیں لیں“ ۔ میں نے پھر انکار کیا۔ اس نے آنے والے سے کہا، ”بیٹھو یار، ابھی تھوڑی دیر میں یہ بے ہوش ہو گا۔ ہم اسے ہاتھ پاؤں پکڑ کر لے کے جائیں گے پھر اسے اپنی بے عزتی کا معلوم ہو گا“ ۔ میں نے لجاجت سے گولیاں نگلنے کا اعتراف کرتے ہوئے منت کی کہ مجھے مر جانے دو یار۔ اس نے چیخ کر کہا اٹھو چلو ہسپتال۔

میں چار و ناچار ان کے ساتھ نکل کھڑا ہوا۔ وہ دونوں بیچارے نئے نئے اس کالج میں منتقل ہوئے تھے۔ انہیں کچھ معلوم نہیں تھا کہ کہاں لے جانا ہے۔ دونوں مجھے لے کر ساتھ کے ہوسٹل میں ایک مشترکہ دوست کے پاس پہنچے اور اسے بتایا کہ اس۔ نے گولیاں کھا لی ہیں مرنے کے لیے۔ میں نے سوچا میرا روم میٹ تو تیز ہے، جس کے پاس لے کر گئے تھے وہ سادہ لوح۔ میں نے اداکاری کرتے ہوئے کہا، ”یار میں نے مذاق کیا اور یہ سچ مان گئے“ ۔ اس سادہ طبع نے کہا، ”یار یہ روز کہتا ہے، مر جاؤں گا، مرتا ہے نہیں۔ جھوٹ بولتا ہے“ لیکن مجھے لے جانے والے ڈٹ گئے کہ نہیں چلو اسے ایمرجنسی میں لے کر چلتے ہیں۔ جب اس ہوسٹل سے نکلے تو مجھے شدید نیند آنے لگی اور میں نے کہا، ”مجھے سونے دو یار“ ۔

جب آنکھ کھلی تو ایمرجنسی میں تھا۔ قصہ مختصر میں اگلے روز زندہ تھا اگرچہ آنکھیں وریدیں پھٹنے کی وجہ سے لال انگارہ ہو چکی تھیں۔ مرنے سے پہلے جو رقعہ لکھا تھا، اس میں درج کیا تھا، ”مجھے خدا نہیں مار رہا، میں خود مر رہا ہوں“ ۔ میں آج بھی حیات ہوں۔ روم میٹ دو سال پہلے طبعی موت مر چکا اور جس مشترکہ دوست کے پاس لے گئے تھے اس نے 1976 میں ”کامیاب“ خود کشی کر لی تھی۔

سال غالباً 1974 کا تھا۔ تب لاہور اور ملتان کے درمیان ”غزالہ“ نامی ریل کار چلا کرتی تھی۔ اچھے دن تھے، پاکستان ریلوے سفر کا مناسب ذریعہ ہوا کرتی تھی۔ ریل کار کی آمد و رفت کے اوقات باقی گاڑیوں کی نسبت بہتر تھے، اس لیے بہت سے لوگوں کی طرح طالبعلم بھی سفر کے لیے اسی کو ترجیح دیتے تھے۔

میں لاہور سے واپسی کے لیے اسی ریل کار میں سوار ہوا، تو تھوڑی دیر بعد ایک لڑکا اسی حصے میں آیا اور مجھے خاص طور پر سلام کر کے سامنے والی نشست پر کھڑکی کے نزدیک بیٹھ گیا۔ اس کے ہاتھ میں کوئی نیا ڈائجسٹ رسالہ تھا۔ اس کے سامنے والی نشست پر کھڑکی کے ساتھ کوئی اور مسافر بیٹھا تھا جس کے پہلو میں مجھے جگہ ملی تھی۔ مجھے لڑکے کی شکل جانی پہچانی لگی، چونکہ اس نے مجھے ہی سلام کیا تھا چنانچہ اس کا نام پوچھا۔ اس نے بتایا کہ وہ نشتر میڈیکل کالج میں سیکنڈ ایر کا طالبعلم تھا۔ میں وہاں فائنل ایر میں تھا۔ میں نے اس سے رسالہ لیا اور پڑھنے بیٹھ گیا۔

ریل کار شہر سے نکل چکی تھی۔ میں نے پڑھنا جاری رکھا۔ گاڑی پتوکی سٹیشن پر معمول کے مطابق نہ رکے بغیر آگے نکل گئی۔ یک لخت اس لڑکے نے جس سے میں نے رسالہ لیا تھا اور جو سر نکالے کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا، زور کی چیخ ماری اور سیٹ کے ساتھ جیسے جم کر رہ گیا ہو۔ اس کے چہرے کے تاثرات ہیبت ناک تھے۔ میں نے فوراً اٹھ کر دوسری کھڑکی سے دیکھا، تو رسالہ پھینک دروازے کی جانب بھاگا۔

جس سمت میں ریل کار جا رہی تھی، اس کی مخالف سمت سے اسی پٹڑی پر بھرپور گاڑی تیز گام پوری رفتار سے آ رہی تھی۔ ریل کار کا ڈرائیور حاضر دماغ تھا۔ اس نے گاڑی روک کر پیچھے کی طرف چلانا شروع کر دی۔ چلتی ریل گاڑی سے، اپنے ڈبے کے دروازے سے باہر چھلانگ لگانے والا میں تیسرا چوتھا فرد تھا۔ میں نے زمین پر قدم جما کے چلتی ریل کار کی جانب دیکھا تو ایک آدمی نے اپنا ایک سالہ بچہ میری جانب اچھال دیا، شکر ہے میں نے اسے دبوچ لیا تھا۔ پھر اس آدمی نے بھی چھلانگ لگا دی تھی۔ میں نے بچہ اس کے حوالے کر دیا تھا، جو بری طرح رو رہا تھا۔

اس اثناء میں تیزگام کے ڈرائیور نے بھی ہنگامی بریک لگا دیے تھے۔ ریل کار کی رفتار بڑھ چکی تھی۔ میں نے دیکھا ایک حواس باختہ مرد کھڑکی سے ایک ٹانگ نکالے چھلانگ لگانے کو ہے۔ میں نے دونوں ہاتھ ہلا کر اور چیخ کر اسے روکا۔ بتایا کہ کوئی خطرہ نہیں رہا۔ اگر وہ کھڑکی سے گرتا تو لامحالہ اس کی ٹانگیں پہیوں کی زد میں آ کر کٹ جاتیں۔ ریل کار چلتی چلی گئی ہم پچاس ساٹھ آدمیوں کو پیچھے چھوڑ گئی۔ ہم سب ڈیڑھ دو کلومیٹر کا فاصلہ پیدل چل کر پتوکی ریلوے سٹیشن پہنچے جہاں پہنچ کر ریل کار رک گئی تھی۔

عوامی دور تھا۔ لوگوں نے انچارج سٹیشن ماسٹر کے خلاف نعرے لگانے شروع کر دیے۔ وہ اپنی غلطی باور کر کے فرار ہو چکا تھا۔ جس آدمی نے بچہ اچھالا تھا وہ بہت جذباتی ہو رہا تھا۔ کہتا تھا اگر میرا بچہ یہ نوجوان نہ پکڑتا اور وہ گر کے مر جاتا تو ۔ وہ گاڑی کے آگے لیٹ گیا تھا کہ ذمہ دار شخص کو پکڑو۔ چند مسافروں اور پولیس نے اسے سمجھا بجھا کر وہاں سے اٹھایا۔ یوں ہماری گاڑی اپنے سفر پر پھر سے روانہ ہوئی۔ تیز گام ہمارے سامنے پتوکی سے گزر چکی تھی۔

جب ہماری ریل کار تیس چالیس کلومیٹر آگے پہنچی تو دوسری جانب کی پٹڑی سے ریسکیو ٹرین گزری، جس میں طبی عملہ جو اپنے سفید کوٹوں سے پہچانا جا رہا تھا اور دیگر مددگار سوار تھے۔ ہم نے انہیں دیکھ کر ہاتھ ہلائے اور وہ بھی متعجب خوشی کے ساتھ ہاتھ ہلاتے آگے گزر گئے۔

گریجویشن کے بعد فوج کی لازمی سروس کے تحت ایبٹ آباد میں ڈیڑھ ماہ کی ٹریننگ کے بعد میری تعیناتی گلگت کے دور دراز کے علاقے دیامیر میں گوری کوٹ کے مقام پر موجود فیلڈ ایمبولینس میں کر دی گئی۔ یہ سال 1976 کے موسم بہار کا ذکر ہے۔ مجھے فوجی افسروں نے ان مقامات سے جہاں درہ برزل پار کر کے مجھے بھیجا جانا تھا بہت خائف کر دیا تھا کہ وہاں سے نکلنا ممکن نہیں ہوتا۔ لوگوں کے خطوط تک نہیں پہنچ پاتے۔ آدمی باقی دنیا سے کٹ کے رہ جاتا ہے۔ میں کرنل کے سامنے ڈٹ گیا تھا کہ میں اگے نہیں جاؤں گا۔

خیر اس سب کا ذکر میں اپنی ”خود نوشت“ میں کر چکا ہوں۔ مختصراً یہ کہ میں نے اس مرض کا بہانہ کیا جو مجھے طالبعلمی کے زمانے میں گرفتاری سے پہلے پولیس کے تشدد کے بعد ہوئی تھی یعنی ”کارڈیونیوروسس“ جس کی بنا پر مجھے گلگت کے فوجی ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا۔ میں بیمار ہوتا تو آرام کرتا۔ گھومتا پھرتا تھا۔ کرنل کو سب پتہ چل گیا اور اس نے مجھے ڈسچارج کروا کر واپس بلا لیا تھا۔

اس رات کرنل نے مجھے درشتی کے ساتھ کہا کہ کل ہیلی کاپٹر آ رہا ہے اور تمہیں گلتری جانا ہو گا۔ میری کرنل سے چخ چخ ہوئی۔ میں بہانہ کرنے کی وجہ سے خود بودا ہو چکا تھا، چنانچہ جذباتی ہو گیا اور انگریزی میں کہا، ”مجھے ایک پستول دے دیجیے، جہاں کہیں گے، چلا جاؤں گا“ ۔ کرنل صاحب بیچارے دل کے کمزور تھے، آنکھیں پھیل گئیں اور پوچھا ”پستول کا کیا کرو گے“ ۔ یہ چھوڑیں، میں نے کہا۔ ہر سی او کا ایک چمچہ بھی ہوتا ہے۔ کیپٹن گل مجھے ٹھنڈا کر کے میرے کمرے میں چھوڑ گیا تھا۔

صبح بریگیڈ ہیڈ کوارٹر جائے بنا چارہ نہیں تھا کیونکہ میرا مرض کا بہانہ جھوٹا ثابت ہو چکا تھا۔ کیپٹن گل ہی مجھے چھوڑنے گیا تھا جسے پھر مجھے واپس بھی لانا پڑا تھا۔ ہیلی کاپٹر نے ہیلی پیڈ پر اترنا تھا۔ ہم افسر حضرات بریگیڈ کمانڈر بریگیڈیر داؤد کے استقبال کو کھڑے ہوئے تھے۔ ہیلی کاپٹر اترا۔ اس میں سے بریگیڈیر صاحب اور ایف ڈبلیو اوکے کرنل ضیاء اترے۔ ہم نے سیلیوٹ کیا۔ بریگیڈیر صاحب نے چھڑی لہرا کر انگریزی میں کہا، ”کیپٹن مرزا، میں چونکہ کرنل ضیاء کو ساتھ لے آیا ہوں، اس لیے آج تم آگے نہیں جا رہے“ ۔ یہ کہہ کر وہ دفاتر کی جانب بڑھ گئے، ساتھ ہی باقی افسران بھی۔

میں ہیلی کاپٹر کے نزدیک پہنچا کیونکہ ہیلی پائلٹ میجر چیمہ سے میری گپ شپ تھی۔ ان کے ساتھ دوسرے پائلٹ نیوی کے لیفٹیننٹ خالد تھے۔ میجر چیمہ نے مجھے چھیڑنے کی خاطر ہنستے ہوئے کہا، ”میں تمہیں کبھی اپنے ساتھ نہیں لے جاؤں گا“ ۔ پھر میجر چیمہ نے مصنوعی سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے انگریزی میں کہا تھا، ”میں کریمینل کو ساتھ نہیں لے جا سکتا“ ۔ لگتا تھا رات کی گئی پستول والی بات پھیل چکی تھی۔

میں چونکہ چند ملاقاتوں میں ان کے ساتھ بے تکلف ہو چکا تھا چنانچہ اچک کر سیکنڈ پائلٹ کی سیٹ پر بیٹھ گیا اور سٹریپ باندھتے ہوئے کہا، ”سر آج تو آپ مجھے لے کے ہی جائیں گے، لیفٹیننٹ خالد سر کو یہیں چھوڑ جائیں۔ ظاہر ہے بریگیڈیر صاحب کے حکم کے بعد میں دل لگی ہی کر رہا تھا۔ اتنے میں ہم دونوں نے دیکھا کہ بریگیڈیر صاحب باقی افسروں کے ہمراہ دفتر سے نکل رہے ہیں۔ میجر چیمہ نے بوکھلا کر پنجابی میں کہا،“ اتر جا، کمانڈر آ رہے ہیں ”۔

کمانڈر، جنرل ضیاء اور ٹیکنیشن ایلوٹ ہیلی کاپٹر میں سوار ہوئے۔ ہیلی لفٹ کرنے سے پہلے میجر چیمہ نے کھڑکی کے طرف منہ موڑ کر مجھے آنکھ ماری اور شرارت سے مسکرائے۔ ہیلی کاپٹر بلند ہوا اور موڑ کاٹ کر پہاڑی عبور کرنے کو آگے بڑھا۔ میں بیس پچیس قدم پر واقع بریگیڈ کے ایم آئی (میڈیکل انسپیکشن) روم میں گیا، ٹوپی اتار کے پھینکی اور سپاہی صدیق کو کہا، چائے لاؤ جوان۔ اس نے بریگیڈ میں مستقل متعین آئی ایس آئی کے حوالدار یعقوب کا نام لے کر کہا کہ سر وہ کہہ رہا تھا، آپ بڑے سیاسی تھے۔ اگر ان کو اب تک جلسے ولسے کرنے کا شوق ہے تو ہم یہاں بھی انتظام کروا دیں گے۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا ہر طرف سے سیٹیاں بجنے کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ ہم ہڑبڑا کر باہر نکلے۔ سارے فوجی بھاگ رہے تھے افسر کیا اور باقی کیا۔ میں نے ٹوپی کا تردد نہ کیا اور ساتھ ہی کھڑی جیپ میں بیٹھ کر ڈرائیور سے کہا چلو۔ ایک ہی سڑک تھی لوگ دونوں جانب دوڑ رہے تھے۔ جہاں لوگ کم ہوئے میں نے جیپ رکوائی اور لوگوں کے ساتھ پہاڑی کی جانب بھاگا۔ کسی سے پوچھا کیا ہوا تو معلوم ہوا کہ ہیلی کاپٹر گر گیا ہے۔

ایک پہاڑی چڑھی۔ اترائی اتری پھر دوسری پہاڑی چڑھی۔ چوٹی پر پہنچا تو نیچے منظر دیکھ کر جیسے ٹانگیں جواب دے گئیں۔ نیچے ہیلی کاپٹر کا ملبہ بکھرا پڑا تھا اور لاشیں دکھائی دے رہی تھیں۔

اس رات میں نے والدہ کو خط لکھا تھا جس میں کہا تھا، شاید یہ میرا آخری خط ہو۔ لفافہ جیب میں تھا۔ سوچا تھا پائلٹ کو دے دوں گا تاکہ پوسٹ کر دے۔ پہلے تو جیب سے لفافہ نکال کے اس میں سے خط نکالا اور ٹکڑے کر کے پھینکا۔ پھر پہاڑی اترا۔ پچھلی سیٹ پر بیٹھے تینوں افراد یعنی بریگیڈیر، کرنل اور ٹیکنیشن کے علاوہ میجر چیمہ ہلاک ہو چکے تھے جبکہ لیفٹیننٹ خالد کی سانس چل رہی تھی۔ انہیں لوگ اوپر لے جا چکے تھے۔ ہیلی کاپٹر کے پاس ڈی کیو موجود تھے جنہوں نے مجھے کہا جلدی سے اوپر جاؤ کیپٹن گل کا ساتھ دو ۔ گل باقی افسروں کے ہمراہ، میڈیکل کٹ کے ساتھ مناسب راستے سے ایک ہی پہاڑی چڑھنے اترنے کے بعد پہلے پہنچ گیا تھا۔

میں پہلے ہی اتنی چڑھائی اترائی کے بعد نڈھال تھا مگر پھر بھی سامنے کی پہاڑی چڑھنا شروع کی۔ ایک مقامی شخص نے میری چال دیکھ کر کہا، ”سر میری پیٹھ پر سوار ہوں“ میں نے انکار کیا تو اس نے کہا، ”سر آپ تھکے ہیں بیٹھیں“ ۔ میں بیٹھ گیا وہ پھرتی کے ساتھ مجھے لے کر اوپر پہنچا تو دیکھا کہ لیفٹیننٹ خالد بھی اس دنیا سے جا چکے تھے اور کیپٹن گل سوگوار کھڑا تھا۔

چند گھنٹے بعد میرا کرنل پہنچا۔ ان کے ساتھ میرا بیٹ مین تھا جو بے اختیار میرے گلے لگ کے رونے لگا تھا۔ رونے کی وجہ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ سر ہمیں کہا گیا کہ کیپٹن مرزا پستول دکھا کر ہیلی کاپٹر دشمن کے ملک کی طرف مڑوا چکا ہے۔ مجھے آپ کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ ایسے نہیں۔ اس بیچارے نے مجھے کچھ معمولی تحفے بھی دیے جو میرے لیے گرانقدر تھے۔ میرا کرنل مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا جیسے میں نے ہیلی کاپٹر گرایا ہو یا زندہ بچ کر غلطی کی ہو۔ یہ واقعہ 1976 کا ہے۔

1999 کا مارچ۔ آٹھ مارچ عورتوں کا عالمی دن۔ کچھ مہ وشوں سے نیاز رہا۔ رات کا جاگا ہوا 9 مارچ کی صبح تاتار خاتون دوست آلسو کے گھر پہنچا۔ ملتفت ہونے کے بعد اس ہوٹل پہنچا جہاں سے گیا تھا اور جس کے کمرے ہم دو پاکستانی مل کر ”سب رینٹ“ کرتے تھے۔ پارٹنر کا انتظار تھا کہ وہ آئے تو میں گھر جاؤں۔ وہ آیا تو اس نے میری ٹوپی مانگی کہ اسے آدھ گھنٹے کے لیے کہیں جانا ہے اور معذرت بھی کی۔ ٹوپی لے کر گیا مگر ڈیڑھ گھنٹے بعد لوٹا۔

باقی تفصیل میں جائے بغیر یہ کہ زیر زمین ریلوے کے پہلے سٹیشن سے ہی مجھے لگا کہ ایک مشکوک اور خطرناک دکھائی دینے والا شخص مجھے تاک رہا ہے۔ دوسری ٹرین میں بھی وہ اسی ڈبے میں تھا جس میں میں اور تیسری اور آخری ٹرین میں تو وہ میرے سامنے آ کر کے بیٹھ گیا۔ اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں گاڑ دی تھیں۔ میں نے جز بز ہو کر اس سے نظریں چار نہ کیں۔ اپنے گھر کے نزدیک سٹیشن سے باہر نکلا۔ سڑک پر چلتے ہوئے کئی بار مڑ کر دیکھا مگر وہ جوان خطرناک شخص نہیں تھا۔ سڑک پار کی۔ ایک چلڈرن پارک سے شارٹ کٹ لیا۔ ہر طرف برف ہی برف تھی۔ کئی جگہ دو ڈھائی فٹ اونچے ڈھیر بھی۔ شارٹ کٹ راستے پر مڑ کے دیکھا تو ایک ادھیڑ عمر شرابی لڑکھڑاتا آ رہا تھا۔ میں بے پروا رہا۔ جونہی بلند عمارت کی اوٹ میں پہنچا، میرے لیے دنیا گم ہو گئی تھی۔

معلوم نہیں کتنی دیر بعد جب دنیا پھر روشن ہوئی تو میرے کان ناک سے خون کے فوارے چھوٹ رہے تھے۔ میں کان ناک پر ہاتھ رکھ کے خون روکتے ہوئے تیز تیز چل پڑا۔ چلتے ہوئے زخمی شخص پر لوگ توجہ نہیں دیتے کیونکہ ان کے خیال میں ایسا شخص شراب پی کر کسی کے ساتھ لڑ کے زخمی ہوا ہوتا ہے۔ گھر تک کوئی دو سوا دو سو قدم تھے۔ آٹھویں منزل پر اپنے اپارٹمنٹ کے دروازے پر پہنچ کر گھر کی بیل دی تو اہلیہ کی آواز آئی کہ چابی تمہارے پاس ہے، خود کھول لو۔ میں نے زور سے کہا کھولو دروازہ۔

جب اس نے مجھے ایسی حالت میں دیکھا تو بے ہوش ہوتے ہوتے بچی۔ میں نے کہا جلدی سے ایمرجنسی والوں کو بلاؤ۔ اس نے میڈیکل ایمرجنسی کو فون کیا۔ جب تک وہ آئے یہ کان ناک پر کاٹن رکھ کے خون روک چکی تھی۔ میرا ایک کان چرا ہوا تھا۔ مجھے ہسپتال لے جایا گیا۔ پہلے میرا کان سیا گیا تھا۔ پھر سر کا ایکسرے لیا گیا۔ کھوپڑی تین جگہ سے تڑخی ہوئی تھی۔ پھر ایک ڈاکٹر نے ریڑھ کی ہڈی سے مائع لیا۔ میں اسے اس دوران بتا چکا تھا کہ میں بھی ڈاکٹر ہوں۔

اس نے خون آلود مائع سے بھری سرنج مجھے دکھاتے ہوئے کہا تھا، ”آپ ڈاکٹر ہیں چنانچہ نتیجہ تو آپ کو معلوم ہو گا“ ۔ میں نے رسان سے جواب دیا تھا، ”موت“ لیکن مجھے پتہ تھا کہ میں نہیں مروں گا۔ ایسا کیوں تھا تفصیل اس مضمون سے متعلق نہیں ہے۔ بہرحال بعد میں مجھے شدید لقوہ ہوا۔ مجھے انگریزی کا ہر لفظ بھول گیا تھا لیکن میں مرا نہیں۔ ڈاکٹروں نے 24 گھنٹے نازک بتائے تھے جنہیں گزرے اٹھارہ برس ہو چکے ہیں۔

ان ذاتی واقعات کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ بن آئی نہ آئے۔ موت سے خائف ہونا ایک فطری بات ہے۔ اس کی وجہ اصل میں عدم کا خوف ہے۔ جیسے کسی نے کہا تھا کہ پیدا ہونے سے پہلے نہ ہونے کا کون سا قلق تھا جو موت سے خائف ہوں۔ ہم نہ ہونے سے ڈرتے ہیں۔ ہم ڈرتے ہیں کہ دنیا کا سارا حسن و قبح ہم سے اوجھل ہو جائے گا یہ جانتے ہوئے کہ درحقیقت ہم اوجھل ہو جائیں گے۔ ہم حواس خمسہ کے عادی اور غلام ہیں۔ ہم اس کے کیف سے عاری ہونے سے ڈرتے ہیں۔ مرنے کے بعد ہم نہیں ہوتے۔ کیا کسی نے مرے ہوئے کے بارے میں پوچھا کہ فلاں نام کا شخص کہاں لیٹا ہے۔ مردہ، لاش، نعش، جسد خاکی، مرحوم وغیرہ ہی کہا جاتا ہے۔

چونکہ سب جانتے ہیں کہ موت سے مفر نہیں۔ پیدائش، بڑے ہونا، بیماری یا حادثہ اور پھر موت سے سبھی کو گزرنا ہوتا ہے۔ موت کے خوف کو کم کرنے کی خاطر اگر آپ مذہبی شخص ہیں تو مذہب پر مکمل عمل کریں۔ دنیاوی آسائشیں، سہولتیں پانے اور مذہب پر مکمل عمل درآمد کرنے میں بہت فرق ہے۔ اگر آپ ان دونوں کی آرزو کرتے ہیں تو آپ موت کے خوف سے چھٹکارا نہیں پا سکیں گے۔ آپ خوف، خواہش، خدشے اور امید کی تاروں پہ جھولتے رہیں گے۔ اگر آپ مذہبی شخص نہیں ہیں اور آپ نے مال و دولت اکٹھی کر لی ہے تو موت کے خوف سے جان چھڑانے کے لیے اسے حقداروں، چاہے آپ کے بھائی بند اولاد ہو، میں بانٹ دیجیے یا بل گیٹس کی طرح دان کر دیجیے اور اگر آپ بالکل بھی نہیں ڈرنا چاہتے تو پہلی بات یہ کہ آپ کے پاس بس بنیادی دنیاوی ضروریات پوری کرنے کا وسیلہ ہونا چاہیے، دینے دلانے کا چکر ہی نہ ہو۔

اگر کچھ نہ کچھ ہے تو جن کو دینا ہے دے دیں یا مرنے سے پہلے خود پر خرچ کر ڈالیں۔ اچھی غذا لیں، اچھے کپڑے پہنیں، جہاں جہاں سیر کے لیے جا سکتے ہیں جائیں۔ خرچ کر ڈالیں۔ آخر تو مر جانا ہے۔ لوگ دفنا، جلا دیں گے۔ لاشیں زندوں کے درمیان جگہ نہیں پاتیں۔ اور سب سے بڑھ کر فارسی کے ایک گیت کی سطر، ”غصہ مخمور عزیزم، زندگی قشنگ اے“ پیارے رنجیدہ مت ہو زندگی حسین ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments