کیا فوج سے اچانک لڑائی ڈال لینا سول سپرمیسی ہے


عمران خان یا پی ٹی آئی کی حکومت کا قصور صرف اتنا ہے کہ انہوں نے بھی اپنے آپ کو حکمران کہلانے کی ذمہ داری لی تھی۔ انہوں نے کوئی نیا کام نہیں کیا۔ یہ غلطی پچھلی تین دہائیوں میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز ایک سے زیادہ مرتبہ کر چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کے حکومت میں آنے پر خوش ہونے والوں کو مایوسی ہوئی۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے جانے سے خوش ہونے والوں کو بھی مایوسی ہی ہو گی۔ کیونکہ نہ تو ان کا آنا کوئی حقیقی تبدیلی تھی اور نہ ان کا جانا کوئی حقیقی تبدیلی ہے۔

آنے والی حکومت بھی مہنگائی کو ختم کر سکے گی نہ روپے کی گرتی ہوئی قیمت کو روک سکے گی۔ روزگار اور کاروبار بہتر ہوں گے نہ اقوام عالم میں پاکستان کی عزت بحال ہو گی۔ محض سیاسی حکومت کی تبدیلی سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔

تبدیلی تب آئے گی جب اصل حکومت بدلے گی جو کہ ستر سال سے نہیں بدلی۔

اصل حکومت کب بدلے گی؟ حکومت تب بدلے گی جب کوئی پارٹی پاکستانی عوام کی عقل اور سمجھ بوجھ پر بھروسا کرتے ہوئے اپنا منشور بنائے گی اور اس منشور پر الیکشن لڑے گی۔ پاکستانی عوام کی عقل اور سمجھ بوجھ پر بھروسا کرنے والی پارٹی کے منشور میں لکھا ہو گا کہ؛

طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔

صحت اور فیملی پلاننگ کی اعلی درجے کی سہولیات ہر شہری تک پہنچائی جائے گی تاکہ عام لوگوں کی صحت اچھی ہو اور ملک میں آبادی کے بے ہنگم اضافے کو صحت مند طریقے سے روکا جا سکے۔

ملک میں تعلیم کے معیار کو بہت کر کے عالمی معیار پر لایا جائے گا۔ اعلی معیار کی تعلیم تک ہر بچے، لڑکی، لڑکا یا ٹرانسجینڈر، کی رسائی ہو گی۔ جو والدین افورڈ نہیں کرتے ان کے بچوں کو بھی تعلیم حاصل کرنے کے بہترین مواقع مہیا کیے جائیں گے۔ تمام بچوں کے لیے بہترین سرکاری سکول میسر ہوں گے۔ بچوں کو سکولوں میں انسانی برابری کا سبق پڑھایا جائے گا۔ مذہبی تعلیم صرف یونیورسٹی لیول پر ہی مہیا کی جائے گی۔ تمام بچوں کی تعلیم سرکار کے ذمے ہو گی اس لیے مفت تعلیم مہیا کرنے والے اداروں کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔ لیکن جو ادارے مفت تعلیم مہیا کرنا چاہیں گے انہیں صرف منظور شدہ سلیبس پڑھانے کی اجازت ہو گی۔ تعلیمی نصاب کی بنیاد بنیادی انسانی حقوق پر ہو گی۔

بچہ مزدوری مکمل طور پر ختم کی جائے گی۔ اس سلسلے میں عالمی معیار کے قوانین اور طور طریقے اپنائے جائیں گے۔

انسانوں کے درمیان جنسی، صنفی، مذہبی، نسلی یا کسی بھی قسم کی تفریق کو ہر ممکن ختم کیا جائے گا۔ اس کے لیے انسانی حقوق کے تحت مناسب قانون سازی کے ساتھ ساتھ باقی تمام طریقے اور وسائل بھی بروئے کار لائے جائیں گے۔

بلوچستان کے مسئلے کو سیاسی طور پر بات چیت سے حل کیا جائے گا۔ اس کا آغاز فوج اور رینجرز کے بلوچستان سے انخلا اور جبری طور پر گم شدہ لوگوں کو عدالتوں کے کٹہرے میں لا کر کیا جائے گا۔ اعتماد کی بحالی کے تمام طریقے آزمائے جائیں گے۔ بیرونی مداخلت کو عوامی اعتماد سے پسپا کیا جائے گا۔

انتظامی طور پر پاکستان کو تیس صوبائی یونٹس میں تقسیم کیا جائے گا۔ لوکل گورنمنٹ کے مضبوط ادارے بنائے جائیں گے اور انہیں آئینی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ تمام سروسز ان کی ذمہ داری اور اختیار ہو گا۔

ایک خاص عمر کے بعد تمام شہریوں کو بڑھاپے کی پینشن دی جائے گی۔ چاہے انہوں نے کوئی باقاعدہ نوکری کی ہو یا نہیں۔

تمام پاکستانی شہریوں کو مذہب کی مکمل آزادی ہو گی۔ ریاست کا کام تمام شہریوں کی مذہبی آزادی کی حفاظت ہو گا۔ ریاست مذہب کی بنیاد پر کسی قسم کی تفریق نہیں کرے گی۔ شہریوں کی شہریت کی تمام دستاویزات جیسے شناختی کارڈ یا پاسپورٹ پر مذہب کا خانہ ختم کر دیا جائے گا تاکہ تمام شہری برابر کے حقوق حاصل کر سکیں۔ انیس صد اسی کی دہائی کے جہادی پروپیگنڈا کے اثرات کو ریورس کرنے، فرقہ واریت کو ختم کرنے اور رواداری کو عام کرنے کے لیے تعلیمی نصاب، میڈیا اور دوسرے ذرائع کا بھرپور استعمال کیا جائے گا تاکہ معاشرے میں پائیدار امن قائم ہو سکے۔

پولیس کے وسائل میں کئی گنا کا اضافہ کیا جائے گا۔ اسے ایک آزاد، مضبوط اور معتبر ادارہ بنایا جائے گا تاکہ وہ ملک میں امن و امان قائم رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور اندرونی تحفظ کے لیے فوج یا رینجرز کی مدد طلب نہ کرنا پڑے۔

فوج کے پچاس کاروباری وینچرز جس میں ڈی ایچ اے اور این ایل سی بھی شامل ہیں انہیں شفاف طریقے سے آکشن کر کے نجی تحویل میں دے دیا جائے گا۔ اس سے ملک کو بہت فائدے ہوں گے۔ بزنس کرنے والے تمام لوگوں کو کاروبار کرنے کے لیے برابری کے مواقع میسر آئیں گے اور بزنس، جو کہ اب فوج کی پچاس کمپنیوں تک سکڑ کے رہ گیا ہے، پھیلے گا۔ دوسری جانب ہماری فوج بھی دنیا کی باقی افواج کی طرح اپنی پروفیشنل ذمہ داریوں پر توجہ دے سکے گی۔

اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ دشمنی ختم کی جائے گی۔ اعتماد کی فضا پیدا کرنے کے لیے دوستی میں پہل کی جائے گی۔ سرحدوں کی حفاظت کا انحصار جنگ کی تیاری کی بجائے دوستی کی پالیسی سے کیا جائے گا۔ پڑوسیوں ممالک کے ساتھ جنگ کے امکانات کو ختم کرنے کے لیے جرمنی اور فرانس کی مثال کو اپنایا جائے گا۔ افغان عوام سے اس بات پر معافی مانگی جائے گی کہ ہم نے پچھلے چالیس سال وہاں پر بدامنی پھیلانے والے دہشت گردوں، پہلے مجاہدین اور پھر طالبان، کو سپورٹ کیا جنہوں نے افغانستان کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔ ہم اس پالیسی کا مکمل خاتمہ کریں گے۔

کشمیر پر ہماری پالیسی غلط ہے۔ اس سے کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد کو بہت نقصان ہوا اور ان کی ترقی اور خوش حالی بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ کشمیر میں کسی طرح کی مداخلت کو ختم کیا جائے گا تاکہ دنیا میں ان کی جدوجہد آزادی کی عزت بحال ہو سکے۔ اور وہ اپنی آزادی کا مقدمہ لڑ سکیں۔ یہ تبھی ممکن جب دنیا کو یہ نظر آئے کہ ان کی جدوجہد مقامی ہے اور اس میں کوئی بیرونی ہاتھ نہیں ہے۔

منشور میں یہ باتیں شامل کرنے والی سیاسی پارٹی کو پھر یہ بتانا چاہیے کہ یہ سارے کام کرنے کے لیے وسائل کہاں سے آئیں گے۔ کیونکہ اگر وسائل میسر نہ ہوئے تو پھر اوپر لکھی گئی تمام باتیں عمران خان کی تقریریں ہی بن جائیں گی۔

اوپر بیان کیے گئے تمام خوابوں کی تعبیر دیکھنے کے لیے مالی اور تکنیکی وسائل کی ضرورت ہے۔ اصل بات تو مالی وسائل ہی کی ہے کیونکہ تکنیکی وسائل مہیا کرنے کے لیے بھی مالی وسائل درکار ہوتے ہیں۔

مالی وسائل کہاں سے آئیں گے؟ ہمارے بجٹ کا ایک بڑا حصہ دو بل ادا کرنے پر چلا جاتا ہے۔ ایک دفاع اور دوسرا قرضوں پر سود، اور وہ قرضے بھی زیادہ تر دفاع کے چکر میں ہی لیے گئے تھے۔ اور انہی قرضوں کی قسطیں ادا کرنے کے لیے مزید قرض لیے جاتے ہیں۔

اب پاکستان پر جو قرضے ہیں اور ان پر جو سود ہے وہ تو واپس کرنا ہی ہے۔ اس کا تو کچھ نہیں ہو سکتا۔ پیچھے رہ جاتا ہے دفاع کا خرچہ۔ دفاع کے بجٹ کو بتدریج لیکن مسلسل کم کر کے ملکی ترقی اور ضرورت مند عوام کو سہولیات مہیا کرنے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔

تو حقیقی تبدیلی لانے والی سیاسی پارٹی کے منشور کا اگلا نقطہ یہ ہو گا کہ ملک کا دفاع جنگ سے نہیں بلکہ امن پر مبنی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں سے یقینی بنایا جائے گا۔ ہمسایہ ممالک سے دوستی کی بنیاد پر جنگ کے امکان کو اتنا کم کر دیا جائے گا کہ فوج کے بجٹ کو بغیر کسی رسک کے کم کیا جا سکے۔ یہی بجٹ ملکی ترقی میں استعمال ہو گا۔

مزید یہ کہ جب پاکستان ایک پرامن ملک ہو گا تو سرمایہ کاری ہو گی، سیاحت بڑھے گی اور ملک کی آمدنی میں اضافہ ہو گا۔

اس تصویر کشی کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان کے مالی وسائل اور پالیسیاں بہتر ہو جائیں گی تو ترقی کی راہ میں سب رکاوٹیں ختم ہو جائیں گی۔ ایسا نہیں ہے۔ بہت سی رکاوٹیں ہوں گی لیکن جب یہ بنیادی ضروریات اور شرائط پوری ہوں گی تو باقی رکاوٹوں کو دور کرنا بھی ممکن ہو گا۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments