فوجی پردیسی رانجھناں



فوجی پردیسی رانجھنا دل لگدا نہیں میرا اووہو
اوبڑیاں برساتاں بالما ں بجلی لس لس چمکے اوو ہو
کدوں آناں چھٹی بالماں میل ہونا تیرا میرا اووہو
فوٹو سینے لائی رکھدی بیری دل گھبرائے اوو ہو
سکھیاں دے نوکر آئے چھٹی دو مہینے رانجھنا اووہو

جموں کے نزدیکی گاؤں میں شادی کے دوران مہندی کی رات یہ ڈوگری گیت ایک دوشیزہ گا رہی تھی ۔اس لڑکی کے چہرے کے تاثرات سے پتہ چل رہا تھا کہ اس کا محبوب یا سرتاج جو فوج میں نوکر ہے وہ اس کو یاد کر رہی ہے۔ وہ اپنے ساجن کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہے کہ میرے پردیسی فوجی سجن میرا دل تمہارے بنا نہیں لگ رہا ہے،مجھے تیری یاد آ رہی ہے۔برسات کا موسم ہے اور بڑی برساتیں ہو رہی ہیں، بجلی بھی بار بار چمکتی ہے۔ تم کب چھٹی لے کر گھر آؤ گے اور ہماری ملاقات کب ہو گی۔جب میرا دل بہت گھبراتا ہے تو میں تمہاری فوٹو اپنے سینے سے لگا لیتی ہوں۔ میری سہیلیوں کے پردیس میں نوکری کرنے والے فوجی سجن تو دو ماہ کی چھٹی لے کر گھر آئے ہوئے ہیں لیکن میں تمہارا انتظار کر رہی ہوں۔

یہ اور اس طرح کے گیت ایک لمبا عرصہ تک متحدہ ہندوستان اور پنجاب کے گاؤں کی اکثر ان دوشیزاؤں کے من کی پکار رہی ہے جن کے خاوند، منگیتر یا پیارے فوج کی ملازمت میں دوسرے شہروں یا اگلے مورچوں پر ڈیوٹی پر ہوتے تھے جہاں سے وہ ڈیڑھ دو سال بعد دو ماہ کی چھٹی لے کر گاؤں آتے تھے۔

برصغیر میں مغل بادشاہت کے خاتمے کے بعد انگریزی تسلط میں 1844 ء میں ہندوستان کے باشندوں کو برطانوی فوج میں بھرتی کرنا شروع کیا۔اس کے بعد 1901ء میں وائسرائے لارڈ کرزن کے دور میں برطانوی راج نے مقامی افراد کی فوج میں ضرورت محسوس کرتے ہوئے انھیں باقاعدہ برطانوی فوج میں بھرتی کرنا شروع کیا۔اس وقت بڑی تعداد میں ہندوستان کے باشندوں کو فوج میں بھرتی کر کے بہت ساری فوجی یونٹس کھڑی کی گئیں۔ تحریک خلافت کے دوران مسلمان لیڈروں کی مخالفت کے باوجود بہت سے مسلمان نوجوان برطانوی فوج میں بھرتی ہوئے۔

پکی نوکری، پنشن ، وردی اور دوسری بہت سی سہولتیں ہندوستانی باشندوں کی فوج میں بھرتی کا محرک بنیں۔ دیہات میں سہولتوں کے فقدان ،غربت اور جاگیرداری نظام کے جبر کی وجہ سے بھی لوگ فوج میں بھرتی ہوئے۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران ہندوستانی فوجی تاجدار برطانیہ کی سربلندی کے لئے بڑی بہادری سے لڑے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران پنجاب کے دیہاتوں میں فوج میں بھرتی کے لئے باقاعدہ مہم چلائی گئی۔ دوسری عالمی جنگ میں بھی ہندوستانی فوجیوں نے برطانیہ کی طرف سے جنگ میں حصہ لیا اور بہترین خدمات سرانجام دیں ۔

ان وقتوں میں ہندوستان کے دیہات میں زیادہ تر لوگ کھیتی باڑی کرتے تھے یا پھر جاگیرداروں اور بڑے زمینداروں کے ہاں بہت ہی معمولی مشاہرہ پر کام کرتے تھے جس سے ان کی گزر اوقات بڑی مشکل سے ہوتی تھی۔ کشمیر میں مہاراجہ بھی لوگوں سے بیگار لیتا تھا جس کا معاوضہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ ایسے میں برطانوی راج کی فوج میں بھرتی ہونا دیہاتی نوجوانوں کے لئے ایک بہترین انتخاب تھا جس میں سرکار کا ملازم ہونے کے علاوہ تنخواہ، وردی اور دوسری سہولتیں میسر تھیں۔

ان سہولتوں کے عوض گھر، بال بچوں اور اپنے پیاروں سے دوری اور جدائی کا دکھ فوجی نوکری کی قیمت ادا کرنی پڑتی تھی۔فوج میں بھرتی ہو کر ٹریننگ اور پھر دور دراز کے شہروں کی یونٹوں میں پوسٹنگ ہونے کی وجہ سے دو دو سال وہ گھر واپس نہیں آ پاتے تھے۔ ایسے میں ان کے ماں باپ، ان کی گھر والیاں اور ان کے پیارے ان کی جدائی کا دکھ سہتے تھے۔زرائع آمدورفت کم ہونے کی وجہ خط ہی ایک واحد ذریعہ تھا جس سے ایک دوسرے کی خیریت کا پتہ چلتا تھا۔انپڑھ ہونے کی وجہ سے ان دوشیزاؤں کا اپنے من کے میتوں کو خط لکھنا بہت ہی مشکل تھا ایسے میں وہ انھیں اپنے خیالوں میں یاد کرتی رہتی تھیں۔

جب بھی کہیں یہ لڑکیاں بالیاں اور عورتیں کسی جگہ اکٹھی ہوتیں تو سب اپنے اپنے پیاروں کو یاد کر کے ان کی باتیں کرتیں۔کنویں پر اکٹھی پانی بھرتی مٹیاریں بھی اپنے سجنوں کی بات ایک دوسرے سے کر کے خوش ہوتی تھیں۔

فوج میں بھرتی ہو کر جانے والے دیہاتی جوانوں میں فوجی رکھ رکھاؤ ، ٹریننگ اور اس کے دوران پڑھائی کی وجہ سے ان کی شخصیت میں ایک نکھار آ جاتا تھا جو گاؤں میں رہنے والے جوان کاشتکاروں سے انھیں ممتاز کرتا تھا۔ گاؤں کی الہڑ دوشیزاؤں کی امنگوں کا محور بھی یہی ڈھول سپاہیا بنتا تھا۔ گاؤں میں منگنیاں اکثر دو دو تین سال چلتی تھیں۔ نو بیاہتا بیویاں بھی اپنے سرتاجوں کی جدائی کا دکھ سہتی تھیں اور ان کے آنے کا انتظار کرتیں تھی۔ انتظار ان رشتوں میں ایک ایسا رومانس تھا جس پر بہت سے گیت لکھے گئے۔

شریف کنجاہی کی ایک نظم اڈیک بھی جنگ عظیم دوم کے تناظر میں لکھی گئی جب متحدہ ہندوستان خاص کر پنجاب کے ہزاروں نوجوان برطانوی فوج میں بھرتی ہو کر برما اور مشرق وسطی کے محاذوں پر جرمن اور جاپانی فوج کے خلاف لڑ رہے تھے۔محاذ جنگ پر گئے ہوئے ایک ایسے ہی سپاہی کی جوان گھر والی کہہ رہی ہے کہ میرا ماہی اور میرے سر کا سائیں محاذ جنگ پر گیا ہوا ہے اور میں یہاں اکیلی اس کی واپسی کا انتظار کر رہی ہوں۔ اب سنا ہے کہ لام (جنگ) ختم ہو گئی ہے اور میرا ماہی واپس آ نے والا ہے، لگتا ہے کہ میری انتظار ختم ہونے والا ہے۔ اس کیفیت کو کمال لفظوں میں بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح گاؤں کی اس مٹیار نے اپنے ماہی اور سر کے سائیں کو جنگ پر جاتے وقت رخصت کیا تھا۔

اج تک مینوں یاد ہے تیر ا، ملنا جاندی واری
اکھ وچ سِکاں، دل وچ سِکاں، لوں لوں دے وچ سِکاں
لا لا بلھیاں دے نال بلھیاں، ہکاں دے نال ہکاں
لام تے جاندی واری، جد ونڈیاں سن چھکاں
دو دلاں دے جذبیاں دی اوہ سوڑ، اوہ سوڑ آپ مہاری
اج تک مینوں یاد ہے تیرا، ملنا جاندی واری
ڈونگھے ساہ لے لے کے تے اکھیاں وچ اکھیاں پانا
اکھیاں وچ اکھیاں پاپا کے، تانگھاں نوں ہور جگانا
نکے نکے ہٹکورے بھر بھر دسنی بے قراری
اج تک مینوں یاد ہے تیرا، ملنا جاندی واری
سنیا مک پئیے ہون پینڈے، سنیا مک پئیاں ہین لاماں
آماہی جھب آ، میں منیاں ہویاں کئی سلاماں
نین پکا لئے تیرا راہ تک تک کے اساں غلاماں
آ ماہی ہن بھاری لگدی ، اے برہا دی کھاری
اج تک مینوں یاد ہے تیرا، ملنا جاندی واری

مجھے آج تک محاذ جنگ پر جاتے ہوئے تم سے آخری ملاقات یاد ہے جب میری آنکھوں میں اداسی، میرے دل میں اداسی اور میرے روم روم میں اداسی تھی۔رخصت ہوتے سمے ہم ہونٹوں سے ہونٹ اور چھاتی سے چھاتی ملا کے بیٹھے تھے ۔ہم دونوں کے دلی جذبات اور ان کا بار بار گھبرانا بھی مجھے آج تک یاد ہے۔وہ ہمارا گہرے سانس لے لے کر آنکھوں سے آنکھیں ملانا اور پھر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوئے ہوئے جذبات کو جگانا ۔ چھوٹے چھوٹے سانس لے کر اپنی بے قراری ظاہر کرنا مجھے آج تک یاد ہے۔ میرے ماہی میرے سائیں اب تو فاصلے سمٹنے والے ہیں ، چونکہ سنا ہے کہ جنگ اب ختم ہو گئی ہے۔اب

تم جلدی گھر واپس آ جاؤ میں نے تمہاری صحیح سلامت واپسی کے لئے منتیں مان رکھی ہیں۔ تمہاری راہیں دیکھ دیکھ کر اب میری آنکھیں تھک گئی ہیں۔ میرے ماہی اب یہ جدائی کا وقت بہت بھاری لگ رہا ہے، اب جلدی گھر آ جاؤ۔

صوفی غلام مصطفے تبسم کا لکھا ہوا یہ گیت بھی محاذ جنگ پر لڑتے ہوئے ان ہزاروں لاکھوں سپاہیوں کے گھر والیوں اور ان کے پیاروں کے دل کی پکار ہے جو ان کی سلامتی چاہتی ہیں۔

میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں
اج تکدیاں تینوں سارے جگ دیا اکھاں
جتھے قدم جماویں اوتھوں قدم نہ ہلے
تیرے قدماں توں واری میرے جہیاں لکھّاں

میرے سجن سپاہی اﷲ تعالی تمہیں سلامت رکھے ۔آج ساری دنیا کی آنکھیں تمہیں دیکھ رہی ہیں۔ تم جہاں قدم رکھ دو کوئی تمہیں وہاں سے ہلا نہیں سکتا۔ تیرے ان قدموں پر میرے جیسی لاکھوں حسینائیں قربان ہوں۔

پاکستان بننے کے بعد بھی چالیس پچاس تک یہ صورت حال برقرار رہی لیکن پھر زمانہ ترقی کر گیا ۔ فون اور پھر موبائل فون کی سہولتیں میسر آ گئیں ۔ اب فاصلے کم ہو گئے ہیں اور روزانہ فون پر بھی بات ہو جاتی ہے اس لئے وہ والا رومانس بھی اب ختم ہو گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments