پرائیویٹ ریان کو کون بچائے گا؟


آج کچھ محسنوں کی یاد نے دل کو عجب محبت سے گرفت کیا ہے۔ اردو میں بچوں کے ادب کی داغ بیل مولانا محمد حسین آزاد اور مولوی اسماعیل میرٹھی نے ڈالی۔ 1901 میں عورتوں کے حقوق پر پہلی اردو کتاب ’حقوق نسواں‘ لکھنے والے شمس العلما مولوی سید ممتاز علی اور ان کی اہلیہ محمدی بیگم نے اپنے صاحبزادے امتیاز علی کی علمی تربیت کے خیال سے اکتوبر 1909 میں بچوں کا رسالہ “پھول” جاری کیا۔ آج ہم ننھے امتیاز کو امتیاز علی تاج کے نام سے جانتے ہیں۔ نومبر 1909 میں پیدا ہونے والے غلام عباس 1937 میں پھول کے مدیر مقرر ہوئے۔ آنندی، اوور کوٹ اور کتبہ جیسے افسانوں کے خالق غلام عباس کو کون نہیں جانتا۔ تاریخ اور سنین کے حوالوں سے پڑھنے والے کو بوجھوں مارنا مقصود نہیں۔ بتانا یہ ہے کہ چراغ سے چراغ کیسے جلتا ہے۔ قوم کی تعمیر میں علم کی بنیادیں رکھنا موسمی شجر کاری نہیں کہ ایک بیلدار اور چند اہلکاروں نے سڑک کے کنارے گڑھے کھود کر پودے گاڑ دیے۔ علم کی روایت قائم کرنے اور اسے قوم کے کردار کا حصہ بنانے میں نسلیں صرف ہوتی ہیں۔ سمجھدار قومیں اپنے نونہالوں کی ابتدائی تعلیم میں اخلاقی اور تخلیقی اقدار کا خمیر شامل کرتی ہیں۔ یہاں زبان و بیان سے لے کر تصویری خاکوں تک ایک ایک تفصیل پر تاریخ، شہریت اور نفسیات کے زاویوں سے غور کیا جاتا ہے۔ کبھی موقع ملے تو علم تدریس پر سند کا درجہ رکھنے والے استاذی ڈاکٹر شاہد صدیقی سے دریافت کیجئے گا کہ دنیا کے کونے کونے سے آنے والے مہاجروں کے ثقافتی، مذہبی، لسانی اور تاریخی تجربات کو کس کٹھالی میں ڈال کر امریکی قوم کا تشخص تشکیل دیا گیا۔ یہ باریک نقش کاری ہے، یکساں قومی نصاب کا سیاسی نعرہ نہیں کہ ٹیکسٹ بک بورڈ کے اہلکاروں نے سرکاری ہدایت نامہ سامنے رکھ کر جیسے تیسے کچھ مواد جمع کیا اور متحدہ علما بورڈ کے سپرد کر دیا۔

چھوٹے بچوں کا ذہن کمہار کے چاک پر رکھا نرم مٹی کے لوندے جیسا حساس ہوتا ہے۔ بچوں کا تخیل تجسس سے عبارت ہوتا ہے۔ یہاں کھنچنے والے نقوش پوری زندگی پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ آپ سے کیا پردہ۔ آپ کا نیاز مند لکھنے پڑھنے میں پھسڈی رہا۔ طبع آوارہ اور سہل کوشی نے بنیادی علمی خزانوں سے بھی پوری طرح استفادہ نہیں کرنے دیا۔ صرف ایک نعمت نے خاک کے اس پتلے کو آپ کی محبت کا خواستگار بنا دیا۔ اردو بازار گوجرانوالہ میں فائر بریگیڈ کے دفتر کے قریب ’اسلامی کتب خانہ‘ کے نام سے ایک دکان تھی۔ والدہ کی انگلی پکڑے یہاں سے گزرتے ہوئے دل رنگ برنگی کتابوں کے لئے مچل اٹھتا تھا۔ 1972 میں کل 250 روپے تنخواہ پانے والی ماں کی قربانی کا خیال آتا ہے تو آنکھ نم ہو جاتی ہے۔ ان کتابوں میں فیروز سنز سے چھپنے والی کہانیوں کی کتاب ’ہنس مکھ شہزادہ‘ بھی تھی۔ نصف صدی گزرنے کو آئی۔ لدھیانہ کے حکیم شریف سے لے کر برما کے جنگلوں میں لکڑیاں ڈھونے والے زخمی ہاتھی تک، بچوں کے دل سے جن بھوت کا خوف نکالنے والے ڈاکٹر ناصر سے لے کر فرض شناس پولیس افسر تک، آپ کا نیاز مند اس کتاب کی ہر کہانی زبانی سنا سکتا ہے۔ بہت بعد میں معلوم ہوا کہ یہ کتاب سعید لخت نے لکھی تھی۔ اردو زبان میں بچوں کے لئے لکھنے والوں میں سعید لخت بے مثل تھے۔ 1924ءمیں رام پور میں پیدا ہونے والے سعید لخت 15 نومبر 2014 کو لاہور کی مٹی میں اتر گئے۔ لاہور کی رونقیں سلامت رہیں، اس شہر میں کئی آسمان تہ خاک آباد ہیں۔ زمین پر آباد ہنس راج جیسی خوبصورت زندگی کا زیر زمین خزینوں سے ربط سمجھنا ہو تو اسٹیون اسپیل برگ کی 1998 میں بننے والی فلم Saving Private Ryan دیکھیے۔ نیویارک سے تعلق رکھنے والے چار آئرش بھائیوں کی حقیقی زندگی سے ماخوذ یہ کہانی انسانی ہمدردی، بہادری اور احساس ذمہ داری کا نہایت تخلیقی آمیزہ ہے۔

6 جون 1944 کو اتحادی فوج نارمنڈی کے ساحل پر اتری تو کیپٹن ملر کو چند سپاہیوں کے ساتھ خاص مشن سونپا گیا ہے۔ عسکری قیادت کو خبر ملی تھی کہ ریان گھرانے کے جنگ میں شریک چار بیٹوں میں سے تین مارے جا چکے ہیں اور چوتھا بیٹا جیمز ریان لاپتہ ہے۔ کیپٹن ملر کو پرائیویٹ جیمز ریان کو ڈھونڈ کر واپس امریکا بھیجنا ہے۔ کیپٹن ملر جنگ سے قبل ایک استاد تھا چنانچہ انسانی آلام کا گہرا احساس رکھتا ہے۔ اس کے اپنے ساتھی ایک ایک کر کے مارے جا رہے ہیں لیکن وہ جنگی قیدیوں کے لئے رحم دلی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ بالآخر کیپٹن ملر لاپتہ جیمز ریان تک جا پہنچتا ہے لیکن وہ اپنے بھائیوں کی موت کی اطلاع ملنے کے باوجود جرمن گھیرے میں آئی ہوئی اپنی یونٹ کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کر دیتا ہے۔ کیپٹن ملر اپنے ساتھیوں سمیت اس یونٹ کی لڑائی میں شریک ہو جاتا ہے اور شدید زخمی ہو جاتا ہے۔ دم توڑنے سے پہلے کیپٹن ملر جیمز ریان کو قریب بلا کر کہتا ہے کہ تمہیں جنگ کے بعد زمانہ امن کی زندگی مبارک ہو۔ تم نے اپنی بہادری اور فرض شناسی سے زندگی کی قیمت چکائی ہے۔

ہمارے ملک کے رہنے والوں نے بھی عشرہ در عشرہ جمہوریت، امن اور خوشحالی کی قیمت چکائی ہے لیکن ہمارے پرائیویٹ ریان کو خلاصی نصیب نہیں ہوتی۔ ان دنوں بھی ایک تاریخی معرکہ لڑا جا رہا ہے لیکن الجھن یہ ہے کہ ہمیں یہ معلوم نہیں کہ ہمارے ملک میں کیپٹن ملر کون ہے اور پرائیویٹ ریان کون ہے؟ ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ پرائیویٹ ریان اسلام آباد میں محصور ہے یا راول پنڈی میں سینہ سپر ہے، ہمارا کیپٹن ملر لندن میں ہے یا لاڑکانہ میں؟ 1971 کے بعد سے ہمارے گھرانے کے چار بیٹے ہی باقی بچے ہیں لیکن ایک شائبہ سا ہوتا ہے کہ ہمارا پرائیویٹ ریان ایک شخص نہیں ہے۔ ہمارے پرائیوٹ ریان کی تعداد 22 کروڑ 30 لاکھ ہے اور یہ گبھرو بیٹے اور بیٹیاں ناانصافی، محرومی اور سازش کے غبار میں لاپتہ ہو چکے ہیں۔ آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی….


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments