سازشی کہانیوں کا ہجوم


دس سے زیادہ دن گزرگئے۔ ایک ”تعیناتی“ جس کے لئے نام کا اعلان ہو چکا تھا ابھی تک باقاعدہ طور پر ہونہیں پائی ہے۔ اس کی وجہ سے روایتی اور سوشل میڈیا پر ہیجان برپا ہے۔ سازشی کہانیوں کا ہجوم ہے اور ماضی کے چند اہم سیاسی واقعات کو نگاہ میں رکھتے ہوئے ”کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے“ والے وسوسوں کا اظہار بھی ہو رہا ہے۔

جب آتش جوان تھا تو ضرورت سے زیادہ متحرک رپورٹر کو ایسا ماحول ”اصل خبر“ ڈھونڈنے کو بہت اکساتا تھا۔ عمر کے آخری حصے میں داخل ہونے کے بعد ان دنوں دل ودماغ پر چھائے جنون کا جائزہ لینا شروع کیا تو بالآخر اس ضمن میں ہوئی تگ ودو رائیگاں کا سفر ہی محسوس ہوئی۔ چھلنی میں پانی جمع کرنے والی احمقانہ مشقت۔

حکمران اشرافیہ کے مابین جب بھی کسی معاملہ میں تنازعہ کھڑا ہو جائے تو بالآخر وہی فریق کامیاب ہوتا ہے جو 1950 کی دہائی سے ہمارے ہاں کامیاب ہوتا چلا آیا ہے۔ دائروں میں ہوئے سفر کو اگرچہ ہم اب کی بار ویسا نہیں ہو گا والے گماں کے ساتھ جاری رکھتے ہیں۔ بڑھتی عمرکے ساتھ نازل ہوئی کاہلی کو ان دنوں یہ جواز بھی مہیا ہو چکا ہے کہ صحافت ہمارے ہاں اب کھوج لگانے کے قابل نہیں رہی۔ وہی لکھا اور بولاجاتا ہے جو ہمارے حکمران عوام کے روبرو لانا چاہتے ہیں۔

خود کو بے بس ولاچار محسوس کرتے صحافی کو اپنی توجہ میڈیا میں چھائے موضوعات سے ہٹانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ انٹرنیٹ اس تناظر میں میرے بہت کام آ رہا ہے۔ پاکستان کے بجائے دیگر ممالک کے معاملات پر غور میں مصروف رہتا ہوں۔ عالمی منظر نامے پر توجہ دیتے ہوئے بھی تاہم کچھ ایسی خبریں نظر آجاتی ہیں جہاں پاکستان دل یزداں میں کانٹے کی طرح اٹکا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

امریکہ کی ایک وزیر خارجہ ہوا کرتی تھیں۔ نام تھا ان کا ہیلری کلنٹن۔ ایک سابق صدر کی اہلیہ بھی ہیں۔ 2016 میں خود وائٹ ہاؤس پہنچنا چاہا۔ ٹرمپ نے مگر انہیں فقط بدزبانی ہی سے ناکام بنا دیا۔ سیاست دان عموماً آپ بیتی یا ماضی کے واقعات کو بیان کرنے والی کتابیں لکھتے ہیں۔ موصوفہ نے مگر ایک ناول لکھ دیا ہے۔ ناول کا لکھاری عموماً فرد واحد ہوا کرتا ہے۔ ہیلری نے لیکن اسے ایک اور خاتون کے ساتھ مل کرلکھا ہے۔ اس خاتون کا نام ہے لوئیزپینی (Louise Penny) وہ کینیڈا کی شہری ہے اور جرائم پر مبنی پراسرار کہانیاں لکھنے کی وجہ سے کافی مشہور بھی۔

ہیلری اور اس خاتون نے باہم مل کر جو ناول لکھا ہے اسے State of Terrorکا نام دیا گیا ہے۔ ”حالت دہشت“ غالباً اس کا آسان اردو ترجمہ ہو سکتا ہے۔ یہ ناول گزشتہ ہفتے مارکیٹ میں آیا ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ اس کے ذریعے درحقیقت ہیلری کلنٹن نے سابق صدر ٹرمپ کے چار سالہ دور اقتدار کو فکشن کی آڑ میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ناول کا آغاز اس میں بتائے ٹرمپ نما صدر کی انتخابی شکست سے ہوتا ہے۔ اس کی جگہ جو شخص وائٹ ہاؤس پہنچا ہے وہ ایلن ایڈمزنامی ایک خاتون کو اپنا وزیر خارجہ بنادیتا ہے۔ مذکورہ خاتون کا انتخاب مبصرین کو حیران کن اس لئے محسوس ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک بہت بڑے نشریاتی ادار ے کی سربراہ تھی اور اس حیثیت میں اس صدر کی شدید ناقد بھی جس نے اسے وزیر خارجہ بنایا۔ یہ انتخاب کئی حوالوں سے صدر اوبامہ کی جانب سے ہیلری کلنٹن کی بطور وزیر خارجہ تعیناتی کی یاد بھی دلاتا ہے۔

بہرحال ایلن ایڈمز جب وزارت خارجہ کا منصب سنبھال لیتی ہے تو مذکورہ وزارت میں پاکستان پر نگاہ رکھنے والے ڈیسک کی انچارج اسے بتاتی ہے کہ چند پراسرار اشارے ملے ہیں جو نشان دہی کر رہے ہیں کہ جلد ہی دنیا کے کئی ممالک میں نائن الیون سے بھی زیادہ ہولناک واقعات ہونے والے ہیں۔ پاکستان ڈیسک کی اس انچارج کا نام انیتاداہر ہے جو مجھے سوچنے کو مجبور کرتا ہے کہ وہ بھارتی نژاد رہی ہوگی۔ اس کے بیان کردہ خدشات کو مگر امریکہ کے جاسوسی ادارے سنجیدگی سے لینے کو تیار نہیں ہوتے۔ جاسوسی اداروں کی ممکنہ طور پر ایک سنگین ترین واقعہ کی بابت ملنے والے اشاروں سے لاتعلقی کی وجہ اس ناول میں یہ بتائی گئی ہے کہ چار سال تک برسراقتدار رہے

ٹرمپ نما صدر نے انہیں ایسے افراد سے بھردیا تھا جو پیشہ وارانہ لگن سے اپنے کام پر توجہ دینے کے بجائے اناپرست صدر کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے تھے۔ ایلن ایڈمز نامی وزیر خارجہ جاسوسی اداروں کی سرد مہری سے اکتا کر تن تنہا انیتاداہر کے تجزیے کو بنیاد بناتے ہوئے دہشت گردی کے ممکنہ واقعات کے تدارک کو جت جاتی ہے۔ وہ اس ضمن میں ابھی پیش قدمی کی تیاری ہی کر رہی ہوتی ہے تو دنیا کے تین بڑے شہروں میں سواریوں سے بھری بسوں کو دھماکوں سے اڑادیا جاتا ہے۔

ان دھماکوں کے بعد ناول کے پلاٹ میں ایک نیا موڑ آتا ہے۔ دریافت یہ ہوتا ہے کہ پاکستان کا ایک ایٹمی سائنس دان تھا۔ نام تھا اس کا ڈاکٹر بشیرشاہ۔ امریکہ نے اس پر الزام لگایا کہ وہ ایران کو ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کر رہا ہے۔ حکومت پاکستان نے لہٰذا اس سائنس دان کو اس کے منصب سے ہٹاکر گھر میں نظر بند کر دیا۔ سابق ٹرمپ نما امریکی صدر نے مگر اسے حکومت پاکستان پر دباؤ ڈال کر رہا کروادیا۔ اپنی رہائی کے بعد بشیر شاہ نے ماضی کے روابط تیزی سے بحال کیے اور عہد باندھ لیا کہ وہ امریکہ میں ایٹمی ہتھیاروں سے ہوئی دہشت گردی کے ذریعے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلائے گا۔ ناول کا بقیہ حصہ انتہائی ڈرامائی انداز میں ایلن ایڈمز نامی وزیر خارجہ کو تن تنہا امریکہ کے عسکری اور جاسوسی اداروں کے تعاون کے بغیر بشیر شاہ کے ارادوں کو ناکام بناتے ہوئے دکھاتا ہے۔

پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور ہمارے ہاں فروغ پائے دہشت گردی کے رجحانات پر بے تحاشا کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان میں سے چند تحقیقی صحافت کی بدولت ٹھوس حقائق کو آشکار کرنے کی دعوے دار بھی ہیں۔ میں نے ان میں سے کئی کتابوں کو غور سے پڑھا ہے اور وہ اکثر مجھے متعصب ذہن کے ساتھ سنسنی خیزی پھیلاتی ہی محسوس ہوئیں اور یہ دعویٰ میں فقط پاکستانی ہونے کی وجہ سے نہیں کر رہا ہوں۔

ہیلری کلنٹن کے لکھے ناول نے لیکن مجھے پریشان کر دیا ہے۔ وہ امریکہ کے ایک مقبول ترین صدر کی اہلیہ ہے۔ خود بھی نیویارک سے امریکہ کے سینٹ کے لئے منتخب ہوئی تھی۔ 2016 میں امریکی صدر بھی منتخب ہو سکتی تھی۔ امریکہ کی حکمران اشرافیہ کی ایسی باخبر اور با اثر نمائندہ جب ناول بھی لکھے تو اپنا سیاسی ذہن اور ماضی کے تجربات کو فراموش نہیں کرسکتی۔ سوال اٹھتا ہے کہ نظر بظاہر فقط ایک جاسوسی اور دہشت گردی کے موضوع پر ناول لکھتے ہوئے بھی اس نے پاکستان کے ایٹمی سائنسدان کو اس کا مرکزی ویلن کیوں بنایا ہے۔ اس سوال پر غور مجھے یہ کہنے کو مجبور کر رہا ہے کہ امریکہ کی حکمران اشرافیہ کے دل ودماغ میں پاکستان سے نفرت شدت سے سرایت کرچکی ہے۔ 15 اگست 2021 کے دن افغانستان سے امریکہ اور اس کے اتحادی جس ذلت آمیز انداز میں فرار ہوئے ہیں اس نے مذکورہ نفرت کو شدید تربنا دیا ہو گا۔ ہمیں مگر ایک ”تعیناتی“ کے حوالے سے چسکہ فروشی سے فرصت ہی نہیں مل ر ہی۔
بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments