ثمینہ نذیر کی کہانیاں اور ٹیپو سلطان کی ٹیں ،ٹیں ،ٹیں …


کہانی لکھی کیوں جاتی ہے…؟ڈیپ ڈاؤن گھٹی ہوئی سانس کو بحال کرنے کے لئے ؟ یا کسی بیرونی سماجی دباؤ کے خلاف مزاحمت درکار ہوتی ہے  یا پھر کہانی کار اپنی شناخت کے بحران کو اجتماعی معا شرتی تشخص کی تلاش کی اوٹ میں ہڈ بیتی کے واقعاتی تسلسل کی جکڑ میں حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کا مسئلہ اپنی فکری نشوو نما بھی ہو سکتا ہے اور اپنے موقف کی نمودونمائش بھی…اپنے قاری تک ابلاغ کی حد تک بھی وہ اس شوق کا مرتکب ہو سکتا ہے اور کچھ ایسا بھی ہے کہ وہ بذاتِ خود بہت سے سوالوں کے جواب کھوجنے کے بے انت یا بے سمت تجسس کا شکار بھی ہو سکتا ہے۔ اور ممکن ہے کہ اندر کے دائمی غبار اور غصہ بھی اسے تحریک دے سکتے ہیں اور وہ کتھارسس کے لئے کہانی کار کی پیڑھی پر بیٹھ جاتا ہے…ایسا بھی ہو سکتا ہے وہ ذاتی سطح پر یا کمیونٹی کی سطح پر نوسٹیلجیا کی زد میں ہے اور وہ اِس زد سے نکل جانے کی کوشش میں یعنی “مووو آن” ہونے کے لئے یا آگے بڑھنے کے لئے ذاتی یا تہذیبی تاریخ کو دستاویز کر تا ہے۔ اس کلوژر کے اطلاق کے لئے اسے ایک آرٹسٹک کرافٹس مین شِپ یا فنکارانہ ہنر کاری کی مدد سے یہ واردات سرزد کر نا پڑ تی ہےہر صورت میں اسے اور کچھ نہیں تو اس مکالمے کا شراکت دار تو بننا ہی ہوتا ہے جو جمالیات کے شیلٹر میں اسے اپنے عہد کے اس ڈھکے چھپے یا اوپن سیکرٹ منجھ پر اپنے دیگر ہم زبانوں یا ہم خیالوں کے درمیان لے کر آنے کا بہانہ بنتا ہے

ثمینہ نذیر وہ تھیٹر یا سکرین پر بدن بولی اور اداکاری ہے یا سامعین اور ناظرین کے سامنے داستان گوئی ہے کہ حاضرین کے سامنے اپنی ہی کہانیوں کی ڈرامائی قرات یا ادب کے قارئین تک رسائی کے لئے  لیپ ٹاپ کی “کی بورڈ ” پر بیٹھتی اٹھتی، اچھلتی کودتی انگلیاں ہیں، اِسی ایک مہم جوئی اور صحرا نوردی کے قافلے کی ہمقدم ہے جو برصغیر کے اِس خطے کی آزاد مملکت میں جہاں ہم بسے ہیں ایک آزاد قوم کی حیثیت سے اپنی کھوئی ہوئی تہذیبی شناخت کی تلاش میں ہیں یا پھر اِس پکڑائی نہ دیتی تہذیبی شناخت کو از سرِنو تراشنے خراشنے کی خواہش میں پہلے سے گزر ےقافلوں کی چھوڑی دھول میں اس سنگِ میل کو کھوج اور ٹٹول رہے ہیں جو شاید ہمیں ہماری روٹس  کا پتہ دے سکے

 “رات کو نئے دیوان پر لیٹے میں نے سوچا کہ کیا پانچ ہزار سال پرانی گنگا جمنی تہذیب صرف ہندؤں کی میراث تھی ؟ ہم مسلمان سب مکے مدینے اور سعودیہ میں رہتے بستے آئے تھے جو اب ہم سعودی طور طریقوں کو ہی اسلام سمجھنے لگے ہیں ؟ پانچ وقت کی نمازی تو میں بھی ہوں۔ روزے پورے رکھتی ہوں۔ حجاب نہیں لیتی ،لیکن یہاں اسلام ٹوپی،داڑھی اور برقعے میں قید کیوں کر دیا گیا ہے ؟ ٹیپو سلطان ٹیں ٹیں ٹیں ٹیں کر کے مجھے خاموش کرواتا رہا”

یہ ٹیپو سلطان کی ٹیں، ٹیں ، ٹیں ، ٹیں ، ٹیں…جو صدیوں سے ہمارے کانوں میں مسلسل بج رہی ہے۔ پر غور کرنا انتہائی ضروری ہے ٹیپو کہانی کا اہم کردار دراصل وہ طوطا ہے جو ایک ہی گردان دہرائے جا رہا ہے۔ متن اور سیاق و سباق سے مبرا اسے فقط اپنے شناختی بحران کی بھول بھلیوں کے فسوں سے غرض ہے اور اس حباب سے باہر جھانکنے یا نکلنے کو گناہِ کبیرہ سمجھتا ہے۔ اس کا کام اپنے جِگ سا پزل میں لٹو کی طرح گھومتے رہ کر فقط ٹیں ، ٹیں ، ٹیں ہے اور بس…

یہ ٹیپو سلطان کون ہیں ؟ اسے بھی ثمینہ ڈیفائن کرتی ہے

“رضیہ بیگم کے چند نکمے داماد اب عظیم الشان نکھٹو ہو چکے تھے اور مجبورا مساجد اور تبلیغ میں کسی طرح دل لگا رہے تھے”

کہنے کو ثمینہ کی بیشتر کہانیوں کی سیٹنگ مشترکہ ہندوستان کی تہذیبی وراثت کے پس منظر میں ہے لیکن آج کے  قاری کو کلو کی کہانیوں کی ٹائم مشین سے جس سماجی جکڑ میں جکڑے انسانی رویوں کے عجائب گھر کی سیر  کرنے کو ملتی ہے وہ رویے  دورِ حاضر کے بیدار شعور کو آج بھی چہار جانب دیکھنے کو ملتے ہیں…

“ویسے میں آتشی گلابی کتان کی ساڑھی پہن لوں گی۔ آستین ذرا چھوٹے ہیں تو کیا ہوا ،گھر والے ہی تو ہیں”۔

آج بھی عورت پاؤڈر روم میں ہے کہ غسل خانے میں اپنی واڈروب کے انتخاب کے پراسس میں سامنے نصب آیئنے میں دکھائی دیتے عکس سے ایک بار پوچھتی ضرور ہے کیا یہ سب قابلِ قبول بھی ہے یا نہیں…اپنے باطنی خدوخال اور زاویوں کی منظوری سند آج بھی اسے اپنے لاشعور سے نہیں دوسروں کی ججمنٹل نظر سے درکار ہے۔

اِسے بنیاد پرستی کا نام دیں یا تہذیبی نرگسیت کہ انتہاپسندی یا مذہبی جنونیت وہ قبل از نائن الیون ہے کہ بعداز نائن الیون یہ سب ایسے موضوعات ہیں جو افسوسناک حد تک نہ تو کلیشیے بن پائے ہیں اور نہ ہی آؤٹ ڈیٹڈ …ان کی معیاد اب بھی تروتازہ ہے… جیسا کہ ایک کردار “رجو” کاہے۔ “رجو” کو تب بھی مسلمان کیا جاتا رہا رجو کو آج بھی مسلمان کیا جا رہا ہے تا کہ اس کے ساتھ کچھ بھی حرام کرتے ہوئے کم از کم حلال تو محسوس ہو۔

تمدن کی اسی گھٹن کا تذکرہ ایک اور مقام پر کچھ ایسے ہے ؛

“پھر مجھے پتہ چلا اب غفار منزل کی آیئنی دستاویز میں نہ صرف عقد کا کھانا بلکہ ہار، پھول،مہندی ، سنگھار،خضاب، داڑھی مونڈھنا،بارات شادی کا رقعہ،ڈھول تاشے، گانا بجانا، ڈھولک ،گلگلے،ملیدہ،ساڑھی بلاؤز ،سنگھار، ہنسنا بولنا قہقہہ لگانا سب حرام ہے۔ “

کہنے کو افسانہ مختصر کہانی کے زمرے میں ہے لیکن ثمینہ کے ہاں جزیات کی تفصیل ہمیں ناولہ کا لطف بھی دینے لگتی ہے۔ ایک عہد کی منظر کشی اور کرداروں کے باطن و ظاہر کا بیانیہ افسانہ نگار کے ناول نگار ہونے کے امکان کی اطلاع بھی ہے۔  مثال کے طور پر ذیل کی تفصیل دیکھیئے ؛

“آپ تو باجی ہیں معظمہ آنٹی میں، عقیلہ آنٹی میں ،سب تھوڑی تھوڑی زندہ ہیں۔ کوئی خالہ آپ کی طرح بولتی ہیں تو کوئی آپ کی طرح پکاتی ہیں۔ کسی کے ہاتھ آپ کی طرح ہیں تو کسی کی آوازآپ کا اونچا قد ساجد، عابد اور سجیل میں نظر آتا ہے اور آپ کی وہ روشن آنکھیں ؟ جب بھی باجی مجھے دیکھتی ہیں مجھے کیوں لگتا ہے کہ آپ میرے پاس آ گئی ہیں ،مجھے گھور رہی ہیں۔ کل ان کے گھنگھریالے بالوں کی چوٹی کرنے کو میں ہاتھ لگائی تھی ،مجھے لگا آپ لوٹ آئی ہیں۔ “

چند دیگر مثالیں بھی :

 “دلی کے پکوانوں کا وہاں ذکر تک حرام تھا۔ حیدر آبادی دم کی بریانی،بکرے کے کچے گوشت کی بریانی،بگھارے بینگن،قبولی،خاگینہ،تلا ہوا گوشت ،سکی دال،میٹھی دال،کھٹی دال،زبان کی نہاری ،چاکنہ،بھیجہ وغیرہ تازہ اور خستہ کلچوں کے ساتھ ہمہ وقت میسر ہوتے۔ “

ایک اور مقام پر :

“جنازے کو تمام محرموں نے اٹھایا۔ شمو ننگے پاؤں جنازے کے ساتھ بے پردہ قبرستان تک دوڑتی رہی۔ کیسی بے حیا لونڈی ہے یہ۔ نہ برقعہ کا تکلف نہ حجاب کا تردد۔ غفار منزل میں درود، فاتحہ

،میت کا کھانا،سوئم وغیرہ تو حرام تھاہی۔ “

ایک اور جگہ ہمیں یہ تفصیل ملتی ہے :

“ربیع الاول کے کونڈے ،کھیر،پوریاں ،کان چھدائی ،عقیقے ،بسم اللہ ،میٹھی عید پر شیر خورمہ ، بریانی ،محرم میں کھچڑا،روٹ ،ہریسہ،لوز اور دودھ کا شربت جس پر بڑے نانی ماں بہت عقیدت سے لوبان کا دھواں دیتے تھے “

تقسیمِ ہند تہذیبوں کی تقسیم تھی کہ جغرافیائی حدوں کی…ہمیں ثمینہ کی کہانیوں میں پارٹیشن کی سماجی اور انفرادی سطح کی تاریخ جھانکتی ہوئی ملتی ہے تو سیاست اور جنگ فرد اور سماج کے ساتھ کیسے انٹر لنکڈ ہے اور اس دینگا مشتی میں کس کی فتح ہے اور کون شکست خوردہ۔ یہ سوال بھی کلو کی کہانیوں میں قدم قدم پر سر اٹھاتے دکھائی دیتے ہیں ؛

” وہ تہذیب بھی تو جان کنی سے گزر رہی تھی جو لوگ پاکستان نہیں گئے تھے وہ نہ زندوں میں تھے اور نہ مردوں میں۔ کچھ کو اپنوں کے ہجر نے مار رکھا تھا،کچھ فاقہ کشی نے اور کچھ کو شاہانہ ٹھاٹ باٹ کے لٹ جانے کا ملال تھا۔ “

یا ایک اور مقام پر دیکھیئے…اِسی سوال کو پھر سے اٹھایا جا رہا ہے ؛

“میں وہی دھم سے پلنگ پر بیٹھ گئی۔ مسلمان ڈاکٹروں کے ساتھ اس طرح کا بے مروت سلوک عام تھا۔ اگر یہ نہ قبول کرتی تو اس سے بھی چھوٹے اور گمنام دیہات ،ورنگل یا ناندیڑ وغیرہ میں مجھے بھیجا جا سکتا تھا۔ اس سے تو نظام آباد ہی غنیمت تھا۔ “

پھر اقلیت کا اقلیت سے نسلی تعصب اس کلچرل کنڈیشننگ کی طرف اشارہ ہے جس سے آزادی آج بھی ناگزیر دکھا ئی دیتی ہے ؛

“کہاں ہیں آپ کی وہ خوشبو میں بسی دستیاں ( رومال) جو آپ بھنگی کے صحن میں آتے ہی ناک پر رکھ لیا کرتی تھیں “

“ابا فجر کی نماز پڑھ کر آئے اور گھر میں ایک مرتبہ پھر غل غپاڑہ مچا دیا کہ نکالو اس حرامزادی کو…ہندو اچھوت کو …”

پھر ایک اور بہت دلچسپ اور زندہ کردار”مس رضیہ” جس کی وساطت سے ہم آزاد مملکتِ پاکستان میں ایک تہذیبی تنزل کا مظاہرہ دیکھتے ہیں۔

“ہمارے گورنمنٹ گرلز سیکنڈری سکول جیکب آباد لائنز کی کسی بھی تقریب میں صرف علاقائی رقص کرنے کی ہی اجازت تھی۔ مشاعرے ،بیت بازی،معلوماتِ عامہ اور تقریری مقابلوں کی بجائے ہم سب کو عید ملن اور فیئر ویل کا انتظار ہوتا تھا، تا کہ اس دن ہم بغیر یونیفارم بھی آسکیں اور رقص و موسیقی بھی کانوں میں پڑے۔ “

مس رضیہ کی فرسٹریشن جو وہ اپنی طالبات پر باقاعدہ جسمانی تشدد سے نکالتی تھی

“مس افسر” کے ہاتھ اون کی سلایئوں پر چل رہے تھے۔ سمجھ نہیں آتا تھا کہ ان کی زبان تیز چلتی ہے ،کہ اون کی سلائیاں ،کہ ان کی نظر جو کھڑکی کے پار ،دور سے آتی مس رضیہ صلاح الدین کو دیکھ چکی تھی۔

مس رحمٰن ، شمع سلائی سنٹر ، جو حال ہی میں حج کر کے آئی تھیں اور اسلامیات کی سادہ سی ٹیچر تھیں…بہت دلچسپ کردار جو اپنے پس منظرو پیش منظر سمیت کسی سٹیج ڈرامے کی طرح جیتے جاگتے آس پاس گھومتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔

ثمینہ کا اپنا مشاہدہ اس کے تخلیق کردہ کرداروں کی نظر سے ہمیں کہانیوں میں نظر آتا ہے ؛

“سب عورتوں نے انھیں ایسے گھورا جیسے وہ بھرے چوک پر زِنا کی مرتکب پائی گئی ہوں “

ساٹھ ، ستر اور اسی کی دہائی کا پاکستانی اور فلمی کلچر حتٰی کہ ٹیلیویژن کا زمانہ ڈرامہ سیریل ” تنہایئاں َ” کی آخری قسط ، شبنم ، وحید مراد اور ریشماں کا گانا جو وہ انڈیا میں گا کر آیئں ” لمبی جدائی” کوکورینہ ” فلم “چاہت : کے حوالے بنگالی رابن پھر ایک جگہ ” ایئروگرام ” کا تذکرہ آپ کو فقط نوسٹیلجک کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ سب کہانیوں اور کرداروں کے حوالے سے با معنی بھی ہے ایک زمانے میں” کراچی کے ماحول کو “غیر کلچرل” قرار دینا سیاسی تناظر میں ایک مضبوط حوالہ ہے اسی طرح۔ بھٹو کا دور، اسلامی سربراہی کانفرنس پہلی مرتبہ آیئن کے نفاذ جیسے تاریخی واقعات پر تبصرے اب بھی جاری تھے “…

سقوطِ ڈھاکہ کا تاریخی حوالہ اور پھر ضیاءالحق کی نظریاتی آمریت بھی کہانی میں ریفرنس بن کر آتی ہے تو ہمیں آزاد مملکتوں کے ثقافتی ارتقاء کا المیہ بھی یاد آنے لگتا ہے…جو پراگریس کی بجائے تنزل کی طرف گر رہا تھا اور گرتا چلا جا رہا ہے

“باپ طبلہ بجاتا ہے اور بیٹی ہارمونیئم بجا کر نذرالسلام کے گیت گاتی ہے ، وہ بھی بنگلہ میں۔ 71 کی جنگ کے بعد تو انھوں نے رضیہ صلاح الدین پر کفر کا فتویٰ ہی لگا دیا۔ “

مس رضیہ” میں وحید کا کردار…اگرچہ عورت کوتفریح دیتا دکھائی دیتا ہے لیکن اس سٹیریو ٹیپکل کردار پر فریفتہ ہوتی مس رضیہ جس فینٹسی کا شکار ہے وہ بذاتِ خود وحید کی برطانیہ جانے کی فینٹسی سے جب ٹکراتا ہے تو نفسیات ، بشریات اور معاشیات ، جنسیات۔ ایسے تمام ڈسپلنز کو چھوتا ہوا منظرنامہ کہانی پڑھتےہوئے کہانی دکھا بھی دیتا ہے

کہانی “اناجی” کا آغاز بہت ڈرامائی ہے اور وہ قاری کو افسانے کی شروعات میں ہی گرفت میں لے لیتا ہے کتے جو کلیدی کردار ہیں…ہم سے متعارف ہوتے ہیں اور پھر کتوں کے ساتھ انٹر ایکشن ، ان کے ساتھ انسانوں کا جذباتی تعلق محبت ، لگاؤ اور ایک خاص فنکارانہ شعور کے ساتھ واقعات میں بلینڈ کیئے گئے ہیں۔

پھر ضیاءالحق کے دور میں دہریے کرداروں کی معاشرتی بقا کا حوالہ ،انصاری صاحب اور بے باک صحافیوں کا تذکرہ ، کراچی کی مقامی سیاست کس طرح انفرادی اور ملکی سطح پر کہانیوں کے جنم لینے کا بہانہ بنتی ہے کلو کے افسانوں کا خاصہ ہے…

آخر میں دو ڈرامے جو شامل کیئے گئے ہیں ان میں سے ایک کردار حور شمائل یقینا ڈرامائی ہے…کہنے کو تفریحی ہے لیکن شوکت کے توسط سے اِس کردار کی نفسیاتی گنجھلک اور دیگر کرداروں کی ہچکچاہٹیں اور منافقتیں انسانی زندگی کو کیسے الجھا کر رکھ دیتی ہیں بظاہر ایک تفریحی کھیل کو سنجیدہ اور با معنی بنا دیتا ہے

مختصر یہ کہ کلو میں ثمینہ نذیر سرمایہ داری نظام کے اس بنیادی تضاد پر سوال اٹھانے کی کوشش کرتی ہے جو ترقی یافتہ دنیا کے ملکوں میں بستے رحمت کے فرشتوں کو دیکھ کر ذہن میں اٹھتا ہے کہ یہاں تو ہر گھر میں کتا ہے ، پھر رحمت کے فرشتے کیسے ان کے پاس چلے آتے ہیں۔ ؟

البتہ طوطے ٹیپو سلطان کی ٹیں ، ٹیں ، ٹیں ، ٹیں ، ٹیں…سماعتوں میں جتنی بھی کثافتیں بھر دے اور فضا میں کتنا بھی شور برپا رکھے کلو کا ثمینہ نذیر سے اور ثمینہ نذیر کا کلو سے مکالمہ جاری تھا ، جاری ہے اور جاری رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments