ماحولیاتی تبدیلیوں کے مصائب اور لاڑکانہ


تحقیق اور تحریر: نصرت سکندر / ترجمہ: یاسر قاضی۔

ماحولیاتی تبدیلیوں میں عالمی حدت (گلوبل وارمنگ) ، فضائی آلودگی، آبی آلودگی، قدرتی وسائل کا تیزی سے خاتمہ، بڑے پیمانے پر جنگلات کا خاتمہ، دنیا کے مجموعی درجۂ حرارت میں اضافہ، مسلسل برساتوں کا ہونا (جن سے سمندر کی سطح میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے اور یہ اضافہ اور اس اضافے سے ساحلی علاقوں کو درپیش خطرات بھی باعث فکر ہیں۔ ) ، پینے اور آبپاشی کے مقاصد کے لئے استعمال ہونے والے پانی کا غیر معیاری ہونا وغیرہ شامل ہیں، جس کے باعث پورے ملک سمیت سندھ کے کئی علاقے سخت متاثر ہو رہے ہیں، جن میں لاڑکانہ ضلع اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں زیر زمین آب، آبی سطح خواہ ذائقے کے لحاظ سے سخت متاثر ہو رہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اس علاقے میں موجود جنگلات اور آثار قدیمہ بھی ماحولیاتی ابتری کے باعث شدید متاثر ہو رہے ہیں۔

اس دھرتی پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات، زمین کے وجود میں آنے سے لے کر ہی مرتب ہوتے رہے ہیں۔ برفانی دور سے لے کر اس کرۂ ارض کے پانی سے بھر جانے تک اور اب تک، یہ روئے زمین، مجموعی طرح پانی کی قلت کے سبب مذکورہ منفی ماحولیاتی تبدیلیوں کی لپیٹ میں رہی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، جس کا شمار بدقسمتی سے تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک میں ہوتا ہے۔ جس کی ایک وجہ اس کا ماحولیاتی منفی اثرات سے شدید متاثر ہونا بھی ہے۔ ان اثرات سے پورے ملک سمیت سندھ، اور اس کے شمال میں واقع تاریخی ضلع لاڑکانہ اور اس کے آس پاس کے علاقوں کو بھی شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔

لاڑکانہ کے کم ہوتے زیر زمین آب کا جائزہ:

زندگی کے ضامن تین اہم قدرتی اجزاء میں سے پانی وہ اہم جز ہے، جو ہر جاندار کی بقا کی اہم ترین ضرورت ہے۔ سندھ اور پنجاب کے دیگر مختلف علاقوں کی طرح، لاڑکانے کے مختلف علاقوں میں بھی زیر زمین آب کا معیار تیزی سے گرتا جا رہا ہے۔ ساکنین لاڑکانہ، اپنے روز مرہ کے استعمال خواہ پینے کے استعمال کے لئے اب تک زیر زمین پانی ہی استعمال کرتے آ رہے ہیں، جو منفی ماحولیاتی اثرات کے باعث اب قابل استعمال نہیں رہا۔ ”بین الاقوامی جرنل آف سائنٹیفک اینڈ انجنیئرنگ ریسرچ“ کے شمارہ نمبر 11 میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق، لاڑکانہ تعلقہ کے زیر زمین آب کے نمونوں کی طبعی خواہ کیمیائی جانچ پڑتال اور تحقیق کی بنیاد پر نتائج کی صورت ظاہر کیا گیا ہے، کہ یہاں کا زیر زمین پانی بے رنگ ہے، اس میں بظاہر کوئی گندگی تو نظر نہیں آتی (یعنی عام صارف اس پانی کو صاف گردانتا ہے ) ، مگر اس پانی کے تقریباً 13.95 فیصد سیمپلز کا ذائقہ تلخ اور نمکین ملا۔

ترتیب وار اندازہً 53.48 فیصد، 83.72 فیصد، 20.93 فیصد اور 83.72 فیصد زیر زمین آب کے نمونوں میں ترتیب وار پی۔ ای، ای۔ سی، ٹی، اور ٹی۔ ڈی۔ ایس کے اجزاء ملے ہیں، جن کی اس پانی میں مقدار، حد سے تجاوز کر چکی ہے اور ”عالمی ادارۂ صحت“ (ڈبلیو۔ ایچ۔ او) کے مقرر کردہ معیار کے مطابق پانی میں ان اجزاء کا اتنا کثیر تناسب، انسانی صحت کے لئے شدید مضر ہے۔ اس تحقیق کے مطابق تعلقہ لاڑکانہ کے دیہی علاقوں سے لئے جانے والے زیر زمین پانی کے ان نمونوں کا معیار، انسانی استعمال کے لحاظ سے مضر صحت بتایا گیا ہے۔

یہاں کے اندازہً تمام علاقے طبعی خواہ کیمیائی لحاظ سے عالمی ادارۂ صحت کے مقرر کردہ معیار کے مطابق پانی استعمال نہیں کر رہے۔ ان علاقوں میں لاشاری، ذکریو مہیسر، رشید وگنڑ، شاہ حسن، گل محمد چھ اور و، شاہ بیگ جمالی اور محمود دیرو شامل ہیں۔ ان علاقوں میں لوگ روز مرہ کے استعمال کی غرض سے یا تو پانی دیگر علاقوں سے مشقت کر کے اٹھا کے لاتے ہیں، یا وہ وہی آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ مجموعی طور پر 27.9 فیصد ریسرچ ایریا میں زیر زمین پانی غیر معیاری اور ناقابل استعمال ملا۔

اس زیر زمین آب میں ’سینکھیے‘ (آرسینک) کے مقدار کی جانچ پڑتال سے معلوم ہوا ہے، کہ ترتیب وار لگ بھگ 53.48 فیصد، 83.72 فیصد، 20.93 فیصد اور 83.72 فیصد زیر زمین آب کے نمونوں میں سینکھیے (آرسینک) کی مقدار حد سے زائد موجود ہے۔ تحقیق کے مطابق یہاں کے زیر زمین پانی میں ”ٹی ڈی ایس اسٹیٹس“ (سینکھیے کی سطح) کے جائزے سے معلوم ہوا ہے، کہ یہاں کے زیر زمین پانی کے نمونوں میں زہریلے مادے اور ”ٹی ڈی ایس کنسنٹریشن“ مطلوبہ حد سے زیادہ موجود ہیں اور کئی علاقوں کا پانی، پینے کے قابل نہ ہونے کی وجہ سے وہاں کے باشندے پیٹ کے مختلف امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔

لاڑکانہ ضلع کے متاثر شدہ جنگلات:

اوائلی زمانے سے جنگلات، سندھ کے حسن اور خوشحالی کی وجہ رہے ہیں۔ دریائے سندھ کے دونوں کناروں کے آس پاس کا علاقہ ”کچا“ کہلاتا ہے۔ دریائی پانی کی بدولت آباد اور زرخیز ہونے والی کچے کی زمین پر گھنے جنگلات ہیں، جن میں ’باہن‘ ، ’پن‘ ، ’کانہں‘ اور ’شیشم‘ وغیرہ جیسے پودے اور پیڑ بہت بڑی مقدار میں ملتے ہیں۔ یہاں کی نم زمین پر گھاس پھوس ہمیشہ اگتی رہتی ہے۔ کچے کے علاقے میں فطری طور پر خود رو جنگلات اور جھاڑیاں اگتی ہیں۔ جنگل، معاشی خوشحالی کے ساتھ ساتھ ہمیں خالص شہد، پرندوں کی پناہ گاہیں، دریائی سیلابوں کو روکنے سمیت اور کئی فوائد فراہم کرتے ہیں، جبکہ گھاس پھوس اور جھاڑیوں سے ہمیں جانوروں کا چارہ اور کئی ایک جڑی بوٹیاں ملتی ہیں۔

سندھ میں موجود جنگلات میں مندرجہ ذیل اقسام شامل ہیں :

دریائی جنگلات: سندھ میں دریائی جنگلات، دریائے سندھ کے دونوں اطراف موجود ہیں، جن کی تیزی سے ہونے والی کٹائی خواہ ماحول کے ہاتھوں تباہی کے باعث ان کی مقدار دن بہ دن تیزی سے گھٹتی جا رہی ہے۔ ان کے ہمیشہ قائم رہنے کا تمام دار و مدار دریا کے بہاؤ کے آ کر واپس جانے پر ہوا کرتا ہے۔ اسی لئے دریائی جنگلات کا وجود صرف دریائے سندھ کے پانی کے بہاؤ، تیزی اور کثرت پر ہی منحصر ہے۔ انسائیکلوپیڈیا سندھیانا کے مطابق ”جنگلات سیلابوں کو روکتے ہیں۔ ان جنگلات کے اہم پیڑوں میں ’شیشم‘ 60 فیصد، ’کنڈی‘ 14 فیصد، ’دیوی‘ (میسکوائٹ) 12 فیصد، ’لئی‘ 9 فیصد اور دیگر مختلف درخت 5 فیصد ہوتے ہیں۔“

دریا کے ساتھ بہہ کر آنے والی مٹی اور دھول کی وجہ سے کئی ایک قسم کی اجناس، گنے، لئی اور سفیدے کی افزائش میں مدد ملتی ہے۔ ایسی زمین کو قوت دینے سے شیشم اور گھاس اگتی ہیں۔ جبکہ خشک سالی کے موسم میں ’کنڈی‘ ، ’جار‘ / ’کھبڑ‘ (مسواک کے پیڑ) ، ’کریر‘ ، ’کھومبھٹ‘ اور ’باوری‘ جیسی پودوں کی اجناس بھی اگتی ہیں۔ دریائی جنگلات، سندھ کے جنگلات کا نہ صرف بڑا سہارا ہیں، بلکہ ہزاروں افراد کے لئے ان کا ذریعۂ روزگار بھی ہیں۔

کیوں کہ، ان سے ایندھن، عمارتی لکڑی، چارا، شہد اور ’ٹینن‘ حاصل کیا جاتا ہے۔ ان تمام چیزوں کے علاوہ یہ جنگلات، کا ربان گئس جمع کرنے کا خزانہ بھی ہوتے ہیں، اور ساتھ ساتھ آس پاس کے علاقوں کو سیلاب کے زور سے بھی بچاتے ہیں۔ دریائی جنگلات کا صرف بمشکل پچاس فیصد حصہ ہی ڈوب سکتا ہے۔ جس کی وجہ سے دریائی جنگلات کا کچھ فیصد حصہ بچنا بھی ممکن ہوتا ہے۔

نہری جنگلات: یہ جنگلات پہلے ”دریائی جنگلات“ کہلاتے تھے، مگر بعد ازاں سیلابی بند تعمیر ہونے کی وجہ سے دریائے سندھ سے علیحدہ ہونے کے باعث اب ان کی افزائش کا انحصار وہیں کے پانی پر ہے، جس کی وجہ سے انہیں ”نہری جنگلات“ کہا جانے لگا ہے۔ اب ان جنگلات میں پانی کی قلت، زمین کی ناہمواری، سیم اور تھور کی وجہ سے خواہ جنگلات لگانے اور ان کی نظر داری کے لئے فنڈز کی قلت کے باعث دن بہ دن کمی آتی جا رہی ہے۔ ان جنگلات میں اگنے والے اہم پیڑوں میں ’کیکر‘ ۔ 58 فیصد، ’شیشم‘ ۔ 20 فیصد، ’یوکلپٹس‘ ۔ 10 فیصد، جبکہ ’دیوی‘ (میسکوائٹ) اور دیگر درخت 12 فیصد ہوتے ہیں۔

بحری/ سمندری جنگلات (تمر کے جنگلات) : سمندری جنگلات کو دنیا بھر میں چھٹے نمبر پر بڑے جنگلات تصور کیا جاتا ہے۔ یہ نمکین اور کم آکسیجن والے کیچڑ میں افزائش پاتے ہیں۔ ماحول کے لحاظ سے یہ قدرتی نظام کو برقرار رکھنے میں بہت بڑی اہمیت کے حامل ہوا کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ مختلف اقسام کی نباتات اور حیاتیات کی پناہ گاہیں بھی ہوا کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ مچھلیوں اور جھینگوں کے انڈے دینے اور ان کی نسلی افزائش میں بھی معاون ثابت ہوتے ہیں۔ ان جنگلات کے درختوں میں 99 فیصد تمر کے پیڑ اور بمشکل 1 فیصد دیگر درخت ہوا کرتے ہیں۔

ضلع لاڑکانہ میں دریائی جنگلات 2 ہزار 312 ایکڑوں پر مشتمل ہیں، جن میں سے ایک بہت بڑا حصہ ’دوسو جنگل‘ پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ اس وقت 18 جنگلات ”لاڑکانہ فاریسٹ ڈویژن“ کے زیر انتظام ہیں، جن میں ’امروٹ بیلو (جنگل)‘ ( 8.045 ایکڑ) ، ’مدئجی بیلو‘ ( 8.892 ایکڑ) ، ’عاقل بیلو‘ ، ’نؤں آباد بیلو‘ ، ’گاجی دیرو بیلو‘ ، ’شریف پور بیلو‘ ، ’حسن واہنڑ بیلو‘ ، ’گھنگھرو بیلو‘ ، ’تاتری‘ اور ’آگانڑی بیلو‘ شامل ہیں۔ جبکہ ضلع لاڑکانہ کی اہم اور بڑی جھیلوں اور آبی ذخائر میں 164 ہیکٹرز پر مشتمل ’ڈرگھ ڈھنڈھ (جھیل)‘ ، 19 ہیکٹرز پر مشتمل ’لنگھ ڈھنڈھ‘ اور 11 ہیکٹرز پر مشتمل ’کٹ ڈھورو‘ بھی شامل ہیں۔

یاد رہے کہ یہ تینوں ”نم علاقے“ (ویٹ لینڈس) حکومت کی جانب سے ”زیر تحفظ علاقہ جات“ (پروٹیکٹیڈ زونس) کے طور پر اعلان شدہ ہیں۔ شمالی سندھ کے دیگر علاقوں کی طرح ضلع لاڑکانہ کے بیشتر جنگلات بھی ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کے نام پر کٹوا کر ، فطرت کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا ہے، جبکہ باقی بچے ہوئے جنگلات پر موسمیاتی اثرات کے تحت ہر کچھ برس کے ”نم موسم“ (ویٹ اسپیلس) کے بعد آنے والے ”خشک موسم“ (ڈرائی اسپیلس) نے منفی اثرات مرتب کیے ہیں اور دریائے سندھ میں خشک سالی کی وجہ سے جنگلات تباہ ہوتے رہے ہیں اور باقی بچے جنگلات بھی تیزی سے تباہ ہو رہے ہیں۔

یہاں کے جنگلات کے ساتھ ماحولیاتی مسائل و مصائب کے ساتھ ساتھ ایک اور بہت بڑا مسئلہ یہ بھی ہے، کہ یہاں کی مقامی قبضہ مافیا، عام زمین کی طرح جنگلات پر بھی قبضہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی۔ 29 جون 2014 ء کو معروف انگریزی اخبار روزنامہ ”ڈان“ میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق، لاڑکانہ ڈویزن میں 12 ہزار ایکڑوں سے زائد جنگلات کی اراضی پر قبضہ مافیا نے قبضہ کر لیا ہے، جن سے یہ قبضہ چھڑانے والا کوئی نہیں، جبکہ صوبائی حکومت کی جانب سے محض مسلسل دعوے ہی کیے جا رہے ہیں، کہ ”قبضہ مافیاز کے ساتھ نبرد آزما ہونے کے لئے تمام قانونی طریقے استعمال کیے جائیں گے۔“

جنگلات، قدرتی سیلاب سے مقابلہ کرنے کے لئے بے حد کارگر ہتھیار ہوا کرتے ہیں، مگر غیر قانونی طور پر زیر تسلط آنے والے جنگلات کی زمین میں ہونے والی بیشمار درختوں کی کٹائی نہ صرف اس علاقے اور آبادی کو ممکنہ تباہی کی جانب مسلسل تیزی سے دھکیل رہی ہے، بلکہ پورے ”ایکو سسٹم“ اور جنگلی حیات کو بھی مسلسل بھاری نقصان پہنچا رہی ہے۔ ان تمام انسانی خواہ فطری حملوں سے جنگلات کو بچانے کے لئے حکومت سندھ کے محکمۂ جنگلات کو ”محکمۂ تحفظ ماحولیات“ (انوائرنمینٹل پروٹیکشن ایجنسی) کے ساتھ مل کر جامع منصوبہ بندی کے ذریعے جنگلات کو بچانے کے لئے ایسی حکمت عملی مرتب کرنی پڑے گی، جس سے ہمارے جنگلات نہ صرف سیلاب کے موسم میں اپنا دفاعی کردار ادا کرتے رہیں، بلکہ قحط سالی کے موسم میں بھی ان کے تحفظ کا خاطر خواہ انتظام ہو سکے، اس ضمن میں بڑے پیمانے پر شجر کاری کی مہموں کے ذریعے، کسی حد تک اس وقت تک ہونے والے نقصان کے ازالے کے سلسلے میں کوششیں کی جا سکتی ہیں اور دور رس پالیسیوں کے ترتیب دینے سے مثبت نتائج بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

لاڑکانہ ضلع کے آثار قدیمہ کا جائزہ:

”آثار قدیمہ“ کا مطلب ہے : پرانے یا کہنہ نشان۔ ایسے آثار، جن سے کسی خطے کی تاریخ اور ان کے قدیم ورثے سے متعلق معلومات مل سکیں۔ لاڑکانہ ضلع میں ملنے والے آثار قدیمہ میں ”موہنجوداڑو“ ایک بین الاقوامی سیاحتی مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ ”یونیسکو“ کی جانب سے ’عالمی ورثہ‘ (ورلڈ ہیریٹیج) قرار دیے گئے آثار ہیں۔ موہنجوداڑو کے پانچ ہزار سال سے بھی زیادہ قدیم تہذیب کے آثار کہنہ، ’ڈوکری‘ نامی شہر کے قریب واقع ہیں۔

ضلع لاڑکانے کے دیگر آثار قدیمہ میں ”جھکر جو دڑو“ بھی ہے، جو لاڑکانہ شہر سے 18 کلومیٹر کے فاصلے پر انڈس ہائی وے پر موجود ہے۔ خاصی اراضی پر پھیلے ہوئے اس شہر ماضی کی کھدائی سے ملنے والے مٹی کے ظروف، کانسی کے سکے، مہریں اور نیزے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں، کہ یہ شہر، ’موہنجوداڑو‘ کی تہذیب کے کافی بعد آباد ہوا۔ ’جھکر جو دڑو‘ سے پانچویں صدی کے سکے اور بدھا دور کا اسٹوپا بھی ملا ہے۔ ’جھکر جو دڑو‘ کے قریب ہی ’چوٹیاریوں دڑو‘ (رانڑیٔ جو دڑو) بھی موجود ہے۔

50 فٹ تک اونچے نظر آنے والے یہ آثار قدیمہ کافی اراضی پر پھیلے ہوئے ہیں، جہاں سے مختلف دھاتوں اور مٹی کے بنے ہوئے ظروف اور سکے بھی ملے ہیں۔ لاڑکانے کے آس پاس کے قدیم آثاروں میں ”خیرپور جو سے وارو دڑو“ ، ”دھامراہن جو دڑو“ اور رتودیرو کے قریب ”بھانڈو قبو“ بھی موجود ہیں۔ یہ تمام آثار ماضی، منفی ماحولیاتی اثرات کی وجہ سے روزبروز اپنا وجود گنوا رہے ہیں۔ ان منفی ماحولیاتی اثرات میں سیم اور تھور کے باعث ہونے والی تباہی، برساتوں کے باعث ان آثاروں کو پہنچنے والے نقصانات، گرمیوں میں لگنے والی لو اور طوفانوں کی وجہ سے پڑنے والے منفی اثرات سمیت انسانی عمل دخل کے باعث بھی بے انتہا نقصان ہو رہا ہے، جس میں بے دردری سے ان آثاروں کی توڑ پھوڑ، ان کے اوپر نوجوانوں کے ٹولوں کی جانب سے موٹر سائیکلیں چلانے جیسے مظالم اور ان سائٹس کے مختلف حصوں سے اینٹوں اور پتھروں وغیرہ کی چوری ہونے جیسے شرمناک عمل بھی شامل ہیں۔

انسانی مداخلت کی وجہ سے ان آثاروں پر پڑنے والے منفی اثرات کو تو مقامی انتظامیہ کی توجہ اور ان کی جانب سے زیر عمل آنے والی ممکنہ سخت پالیسیوں سے روکا جا سکتا ہے (اگر ایسا کیا جائے تو ۔ ) ، مگر موسمیاتی تبدیلیوں کے ہاتھوں ہونے والے نقصانات کے حوالے سے کسی کے خلاف بھی کارروائی نہیں کی جا سکتی، البتہ اپنے انداز زندگی تبدیل کرنے سے ان منفی ماحولیاتی اثرات کو رونما ہونے سے ضرور بچایا جا سکتا ہے۔

حکومت سندھ کے محکمۂ نوادرات کے ماہرین کے مطابق، موہنجوداڑو کی کل اراضی کے اب تک محض 22 فیصد حصے ہی کی کھدائی کی جا چکی ہے، کیوں کہ 100 فیصد حصہ ظاہر کر دینے کے بعد اس کو ماحولیاتی اثرات سے بچانا اپنی جگہ پر ایک بہت بڑا چیلینج ہو گا، جس پر پورا نہ اترنے کی صورت میں 5000 سال سے بھی زیادہ قدیم اس تہذیب کے مکمل آثاروں سے کچھ عشروں کے اندر اندر ہاتھ دھونے کا احتمال بھی موجود ہے۔

پچھلی کم و بیش آدھی صدی میں، تیزی سے رونما ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث عام انسانی زندگی سمیت ہمارے خطے، بالخصوص لاڑکانہ ضلع کے آثار قدیمہ پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، جن کو ان منفی اثرات سے بچانے کے لئے حکومت سندھ کے محکمۂ ثقافت و سیاحت و نوادرات کی جانب سے غیر ملکی ماہرین کے تعاون اور مشوروں کی مدد سے سنجیدہ نوعیت کے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، جن کی مدد سے ہم اپنے ”ماضی کے ان آئینوں“ کا تحفظ ممکن بنا سکیں اور حال کی طرح اپنے ماضی سے بھی ہاتھ دھونے سے خود کو بچا سکیں۔

اس سال، 5 جون 2021 ع کو پاکستان نے ”عالمی یوم ماحولیات“ کے موقع پر منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس کی میزبانی کا شرف حاصل کیا، جس میں 12 رکنی بورڈ کی زیر نگرانی پہلی مرتبہ پاکستان کو ”عالمی ماحولیاتی فنڈ“ کی سربراہی بھی ملی ہے، جو اعزاز ہمیں پہلی دفعہ ملا ہے۔ جس کی وجہ سے اب ہمارے لئے مقامی منفی ماحولیاتی تبدیلیوں سے بچنے کے لئے اقدامات ناگزیر ہو گئے ہیں۔ اس کانفرنس کی میزبانی جہاں ایک طرف ملک کے لئے ایک مثبت اور خوش آئند بات اور اہم اعزاز ہے، اسی طرح دوسری جانب ملک کے ماحولیاتی مسائل کو حل کرنے کے حوالے سے ہم پر ایک بھاری ذمہ داری بھی ہے، جس کو پاکستان کو ہر حال میں نبھانا ہو گا۔

علاوہ ازیں یہ ایک سنہرا موقع بھی ہے، کہ اس اہم ذمہ داری کو احسن طریقے سے انجام دے کر ، ملک سمیت خطے کو درپیش ماحولیاتی مسائل کو انسانی زندگی، دریاؤں، بحور، ڈیلٹا، زرعی زمینوں، صحراؤں، پہاڑوں، چرند و پرند، موسم، آثار قدیمہ اور مستقبل سے وابستہ خوابوں کی تعبیر پر پڑنے والے منفی اثرات سے نبرد آزما ہونے کے لئے سیاست سے بالاتر ہو کر ، ایسی قلیل خواہ طویل مدتی پالیسیاں ترتیب دی جائیں، جن سے خطے کا ماحولیاتی مستقبل محفوظ بنایا جا سکے اور اپنے گھر (اس زمین) کو آنے والی کئی سو نسلوں کے لئے رہنے کے قابل بنایا جا سکے۔ آنے والی نسلوں کے لئے ایک صاف ستھری اور آلودگی سے محفوظ زمین سے بڑھ کر اور کوئی قیمتی تحفہ نہیں ہو سکتا، جو ہم انہیں دے سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments