خواتین، امن اور سلامتی


جینیواء میں اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کے اڑتالیسویں اجلاس کے موقع پر اوکاپروس انٹرنیشنل نے مراکش اور مختلف ممالک کے اقوام متحدہ میں مشنز کے اشتراک سے خواتین کے حقوق کے حوالے سے ایک پورے دن پر مشتمل فورم کا اہتمام کیا گیا۔ اس فورم میں مختلف ممالک کے سفارت کاروں، انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں، خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم نمائندوں اور ماہرین نے شرکت کی۔ جنوبی ایشیا سے انسانی حقوق کے سرگرم نمائندے ترقی پسند رہنما سردار شوکت علی کشمیری نے اجلاس سے خطاب کیا۔

اور اس خاکسار نے ایک سیشن کی ماڈریشن کے فرائض انجام دیے۔ صنفی مساوات کا سوال بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کرہ ارض پر سات ارب سے زیادہ انسان آباد ہیں۔ جن میں تقریباً آدھی آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔ خواتین کو مساوی حقوق دیے بغیر انسانی ترقی، امن اور سلامتی ممکن نہیں۔ اگر خواتین کو تعلیم، صحت، تعمیر و ترقی کے یکساں مواقعے میسر ہوں تو نہ صرف خواتین بلکہ پورے معاشرے اور اس کرہ ارض کی تقدیر بدل سکتی ہیں۔ بلکہ عالمی اقتصادیات اور معیشت میں کھربوں ڈالرز کا اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔

جو کہ جنگ و جدل اور طالع آزماؤں کی تجوریوں میں جانے کے بجائے انسانوں کی تعلیم، صحت، بنیادی ضروریات کی فراہمی تعمیر و ترقی پر خرچ کر کے نہ صرف انسانوں کے معیار زندگی کو بہت بہتر کیا جا سکتا ہے بلکہ اس کرہ ارض اور اس پر بسنے والے ہر ذی روح کو بھی محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ جو انسانی مہم جوئی، جنگلات کی کٹائی، صنعتوں اور دیگر مہلک ہتھیاروں سے زہریلی گیسوں کے اخراج اور آلودگی کے باعث گلوبل وارمنگ کا شکار ہے۔

یوں تو دنیا بھر میں خواتین کے مساوی حقوق کے حوالے سے بلند بانگ دعوے کیے جاتے ہیں۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کچھ دعویدار کہتے نہیں تھکتے کہ جتنے حقوق ہمارے ہاں خواتین کو حاصل ہیں۔ وہ دنیا کے کسی دوسرے خطے کی خواتین کو حاصل نہیں۔ لیکن جب وراثت میں حصے کا سوال ہو، تو ہمارے دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ بعض صورتوں میں خواتین کی ساری زندگی شادی نہیں کروائی جاتی کہ کئی جائیداد تقسیم نہ ہو جائے۔

خواتین کے جیون ساتھی کے انتخاب کی بات ہو۔ تو فوری پینترا بدل دیتے ہیں حالانکہ معاشرہ اور مذہب دونوں اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ شادی کے معاملے میں خواتین کی رضامندی اور پسند کے بارے میں ان سے رائے لی جائے۔ کم عمری اور خاص کر جبری شادیاں اس معاشرے کی بڑی خرافات ہیں۔ دلیل، منطق اور حقیقت کا سامنا کرنے کے بجائے اکثر مذہب اور معاشرتی روایت اور رسومات کا سہارا لے کر بنیادی انسانی حقوق کی پامالیاں کی جاتی ہیں۔

جب ایک لڑکی یا عورت کو اس کی پسند اور مرضی کے برخلاف ایسے شخص کے ساتھ زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ جس کی اس نے شکل تک نہیں دیکھی ہوتی۔ یا عمر کا فرق بہت زیادہ ہو۔ تو ایسے میں نہ صرف اس عورت کی بلکہ پورے خاندان کے سکون اور خوشیوں کا گلہ گھونٹ دیا جاتا ہے۔ جبری شادی کے نتیجے میں جنم لینے والے بچوں کی خاطر عورت اپنی مرضی اور منشا کے خلاف بچوں کی خاطر ظلم اور جبر سہتی رہتی ہے۔ بعض اوقات غیرت اور عزت کے نام نہاد الزامات لگا کر خواتین کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔

خواتین کے حقوق کے اس بین الاقوامی فورم میں، عورتوں کی جبری شادیاں، مذہب کی جبری تبدیلی، بعض افریقی ممالک، عرب اور ایشیائی ممالک میں خواتین کے ختنے Female genital mutilation، جس میں اکثر خواتین حفظان صحت کی سہولیات کے فقدان کے باعث انفیکشن اور مخلتف بیماریوں کا شکار ہو کر زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین کی مرضی اور منشاء اور بعض صورتوں میں خرابی صحت کے باوجود بچوں کی پیدائش کے لئے مجبور کرنا جیسے مسائل زیر بحث رہے اس کے علاوہ اقوام متحدہ 2000 ء کی سلامتی کی طرف سے قرارداد 1325 منظور کی گئی تھی۔

اور انسانی حقوق کا عالمی چارٹر بھی مساوی انسانی حقوق کی ضمانت فراہم کرنے کی بات کرتا ہے۔ اس قرارداد اور اعلامیہ پر مخلتف ممالک نے کس حد تک عملدرآمد کیا ہے۔ اس کے لئے طویل جدوجہد اور سنجیدہ ریفارمز اور کوششوں کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ جنگ زدہ اور تنازعات والے علاقوں میں لڑکیوں اور خواتین اور بچوں کے خلاف منظم جرائم انسانی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ جو کہ ہزاروں سالوں سے مسلسل کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے۔

لڑکیوں اور خواتین کو جنسی تشدد اور عصمت دری کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اور ان کو باندیاں بنا کے رکھا جاتا ہے۔ مفتوحہ علاقوں کی خواتین کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت گینگ ریپ کیا جاتا ہے، تاکہ مرد قیدی فوجیوں کو ذلت اور رسوائی کا احساس دلایا جائے۔ بعض صورتوں میں منظم انداز میں مفتوحہ لوگوں کی نسل بدلنے کے لئے اجتماعی زیادتیوں کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کی مثالیں تاریخ میں موجود ہیں۔

حالیہ مثالیں ہم نے شام، عراق اور لیبیا میں دیکھی ہیں۔ جہاں پر نوجوان لڑکیوں اور خواتین کو جنسی غلام بنا کر رکھا کیا اور سرعام بازاروں میں فروخت کیا گیا۔ ان کے ہاں بچوں کی پیدائش بھی ہوئی ایسی خواتین اور نومولود بچوں کے مستقبل کے حوالے سے کسی کے پاس کوئی لائحہ عمل تیار نہیں۔ جو خواتین جنگ کی وجہ سے اپنے آبائی علاقوں سے ہجرت پر مجبور ہوئیں ان کی اپنے علاقوں میں دوبارہ آبادی کاری کے حوالے سے بھی وہ تمام ممالک خاموش ہیں۔

جنھوں نے ان جنگوں میں اربوں ڈالرز انسانوں کی تباہی کے لئے خرچ کیے ۔ افغانستان کی موجودہ صورت حال میں خواتین کے خلاف امتیازی سلوک بھی زیر بحث رہا۔ اس فورم میں مقررین نے تنازعات کی روک تھام، خاص طور پر مسلح تصادم جس میں خواتین کو تشدد اور جنسی زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کے فوری خاتمے کے لئے اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے اقدامات کا مطالبہ کیا۔ تنازعات کے حل، امن کے نفاذ میں ثالثی، مذاکرات اور نگرانی میں خواتین کی شمولیت کی ضرورت کی اہمیت پر زور دیا گیا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ انسانی بحرانوں اور تنازعات کی وجہ سے خواتین اور لڑکیاں، تشدد اور امتیازی سلوک کا زیادہ شکار ہیں۔ جب سماجی اور قانونی ڈھانچے کمزور ہو جائیں۔ تو معاشرے کی تنزلی یقینی امر ہے۔ حالیہ برسوں میں بین الاقوامی سطح پر اہم سیاسی اقدامات کیے گئے ہیں، جس کا مقصد خواتین کے حقوق کا احترام، قومی، علاقائی اور بین الاقوامی اداروں میں خواتین کی زیادہ نمائندگی کی حوصلہ افزائی کرنا ہے تاکہ تنازعات کی روک تھام، انتظام اور حل کے لیے خواتین کو تمام مراحل میں زیادہ سے زیادہ شامل کیا جائے۔

امن، سلامتی اور انسانی فیصلہ سازی میں منظم طریقے سے خواتین اور لڑکیوں کو شامل کرنا۔ خواتین کو معاشی عدم مساوات بچانا۔ سیاست قومی، علاقائی اور بین الاقوامی اداروں میں فیصلہ سازی کی ہر سطح پر خواتین کی شرکت کو بڑھانا۔ اقوام متحدہ اور رکن ممالک کو خواتین کے تحفظ، حقوق اور ضروریات کے بارے میں تربیت فراہم کرنا۔ اقوام متحدہ میں صنفی توازن، خصوصی نمائندوں اور ایلچیوں کی حیثیت سے خواتین کی نمائندگی میں اضافہ، اور فیلڈ آپریشنز میں، خاص طور پر فوجی مبصرین، پولیس، اور انسانی حقوق اور انسانی ہمدردی کے اہلکاروں میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنانا شامل ہیں۔

معزز قارئین ایک تعلیم یافتہ، صحت مند، باشعور عورت جس کو مساوی انسانی، معاشی، سیاسی، سماجی حقوق حاصل ہوں، تعمیر

اور ترقی کے یکساں مواقع میسر ہوں۔ وہ نہ صرف اپنے بچوں اور خاندان کی بہتر تربیت کر سکتی ہے۔ بلکہ اجتماعی طور پوری دنیا کی تعمیر و ترقی اور معیشت میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ نسل انسانی کی بقاء کی ضامن ایک ماں، ایک عورت ہی ہے۔ جو ایک انسان کو جنم دیتی ہے۔ نئی زندگی دینے کا سبب بنتی ہے۔ ایسی سوچ جو عورت کو ناقص عقل اور کمتر سمجھتی ہے۔ ایسی دقیانوسی سوچ کی حوصلہ شکنی اور قلع قمع کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ماں کی گود ابتدائی درس گاہ ہوتی ہے۔ ایسی سوچ جو اپنی ماں اور اپنی ابتدائی درس گاہ کی نفی کرتی ہو۔ ذہنی خلفشار اور رجعت پسندی کہ سوا کچھ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments