تبدیلی کے تین سال


بائیس سال کی جہدوجہد، جلسے جلوسوں، بلند بانگ تقاریر اور دعووں کے بعد بلا آخر خان صاحب سادہ اکثریت کے ساتھ انتخابات جیت کر وزیراعظم کے عہدے پر براجمان ہوچکے تھے۔ اسمبلی سے اپنی پہلی تقریر میں حکومت کے نوے دن کے پلان کا اعلان کرتے ہوئے پوری کابینہ کو اس مشن کی کامیابی کا ٹاسک دے دیا تھا اور خود بھی کام پر لگ گئے تھے۔ معاملات آگے بڑھ رہے تھے اور یہ نوے دن نہیں بلکہ پورے تین سال بعد کے ایک خوبصورت دن کا آغاز تھا۔

چونکہ سوئس بینک میں پڑے زرداری کے اربوں ڈالر وزیراعظم کے ایک کال پر دوسرے ہی دن پاکستان پہنچ چکے تھے، نواز شریف، شہباز شریف اور دوسرے ملزمان سے اربوں ڈالر کی مالیت کے رقوم کی نیب کے ذریعے ریکوری عمل میں لائی گئی تھی اس لئے آئی۔ ایم۔ ایف کا کشکول بقایا جات سمیت واپس کرنے فواد چودھری امریکہ یاترا پر تھے۔ جبکہ لٹیروں، چوروں اور بدعنوان افراد کو شہر شہر اور گلی گلی لٹکایا گیا تھا۔ شہر شہر قریہ قریہ لوگ ان کے عبرتناک مناظر پر کان پکڑ کر توبہ کر رہے تھے۔

ملکی خزانہ وصول کیے جانے والے رقوم سے بھرا پڑا تھا۔ پٹرول کی قیمت بڑھانے والے ملک دشمن عناصر سے چھٹکارا مل گیا تھا، ذخیرہ اندوزی کرنے والے افراد معافی مانگنے کے بعد سدھر گئے تھے۔ چونکہ خان کے پاس معاشی ماہرین کی قابل ترین ٹیم موجود تھی اس لئے انہوں نے تین سال کے قلیل عرصے میں برسوں سے ملکی زمیں بوس معیشت کو آسمان پر اٹھا لیا اور یون ملکی معیشت تاریخ کی مستحکم ترین معیشت بن گئی۔ نتیجتاً اشیا خوردنی کی قیمتیں انتہائی کم ہو گئیں۔

پٹرول کی قیمت وزیراعظم کی تقاریر کے مطابق چالیس روپے مقرر کی گئی تھی اور ملک خوشحالی کی جانب گامزن تھا۔ اسی اثنا لندن میں ایون فیلڈ کے بنگلے، متحدہ عرب امارات میں موجود لیگی و پیپلز پارٹی کے سیاست دانوں کے گھر، پنجاب اور سندھ میں بلاول ہاؤسز، جاتی امرا اور رائیونڈ میں نواز شہ از کے قلعہ نما گھر جائیداد بھی نیلام کر دیے گئے۔ اسلام آباد میں موجود وزیراعظم ہاؤس کو جدید یونیورسٹی میں بدل دیا گیا تھا اور صوبائی دارالحکومتوں میں قائم گورنر ہاؤسز بھی پبلک مقامات بن چکے تھے اس لئے شہریوں کی خوشی دیدنی تھی۔

ہر طرف انصافی حکومت کی شہرت کے شادیانے بج رہے تھے۔ ملکی خزانہ بھر جانے کی وجہ سے چونکہ ترقی کا آغاز ہو چکا تھا اس لئے بیرون ملک کام کرنے والے ہمارے سارے پاکستانی بھائی وہاں کی نوکری چھوڑ کر پاکستان پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔ ایک کروڑ لوگوں کو ملک میں ہی نوکریاں ملک گئی تھیں۔ زرعی و صنعتی انقلابی اقدامات کی وجہ سے ملک زرعی و صنعتی لحاظ سے خود کفیل ہونے کے ساتھ ساتھ درآمدات و برامدات میں توازن کی وجہ سے پاکستانی روپے کی قدر میں حیران کن طور پر اضافہ جبکہ امریکی ڈالر اپنی قدر کھونے کے ساتھ ساتھ ملک چھوڑ کر جانے کا سوچ رہا تھا اور آئی ایم ایف و عالمی بینک والے ہمارے انقلابی اقدامات سے حیران تھے۔

ہمارے وزیراعظم کی اصول پسندی اور موروثی سیاست سے نفرت کا عالم یہ تھا کہ پائے کے سیاستدان جن میں شیخ رشید سرفہرست تھے کو چپڑاسی کی نوکری بھی نہیں مل رہی تھی۔ اور اس جیسے بہت سے جید سیاستدان بیروزگار پھررہے تھے۔ پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو چوہدری پرویز الہی اپنے بڑے بھائی چوہدری شجاعت و اہل و عیال سمیت جیل میں مقیم تھے۔ جبکہ انصاف کا یہ عالم تھا کہ عدالتوں میں زیرالتوا لاکھوں غریبوں کے مقدمات میں انہیں انصاف ملنا شروع ہو چکا تھا اور ظلم و جبر پیسے اور طاقت کے بل بوتے پر عدالت پر اثرانداز ہونے والوں کو نشان عبرت بنایا جا رہا تھا۔

قانون کی پاسداری کا عالم یہ تھا کہ تین بار ملک کے وزیراعظم رہنے والے نواز شریف کی علاج واسطے لندن جانے کی درخواست و التجا یکسر مسترد ہونے پر وہ اڈیالہ جیل میں عام قیدیوں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور تھا۔ ملک میں قائم فرسودہ پنچایت کے فیصلوں پر مکمل پابندی کے ساتھ ساتھ وڈیروں، چوہدریوں، نوابوں اور خانوں کے ظلم سے عام لوگوں کو خلاصی مل چکی تھی۔ بھٹو بینظیر زرداری و بلاول، نواز شہباز، مریم، حمزہ یہ سارے نام قصہ پارینہ بن چکے تھے اور انہیں جلسوں کے لئے عوام تو کیا اپنے کارکن بھی نہیں مل رہے تھے۔

جبکہ اپنا پاکستان کے تحت پچاس لاکھ گھر بنا کر غریبوں میں تقسیم کر کے غربت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی شروعات ہو چکی تھی۔ یون ریاست مدینہ کی طرح کا ایک بہترین ریاست پروان چڑھ رہا تھا جس کی گواہی ملک کے تقریباً سبھی میڈیا چینلز، اخبارات، اور سوشل میڈیا کے صارفین دے رہے تھے جبکہ غیرملکی میڈیا میں بھی ہمارے کپتان اور اس کے قابل ترین وزرا و مشیران کی بہترین کارکردگی کا چرچا تھا اور ہر ملک میں ان کی مثالیں دی جانے لگی تھیں۔

دل بہت خوش تھا۔ باغ باغ تھا۔ کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں تھی۔ پیرس و سوئزرلینڈ کی طرح ملک ترقی کی منزلیں طے کر رہا تھا اور ہم خان کے گن گانے میں مصروف تھے کہ اتنے میں کان کے قریب کسی نے آواز دی کہ پاپا اٹھیے گا صبح ہو گئی ہے آپ نے آفس نہیں جانا؟ میں چونک کر اٹھا تو بیٹی سرہانے پر کھڑی پکار رہی تھی اور یہ سب کچھ خواب تھا ایسا سنہرا خواب جس کے بارے ہم خان کے کنٹینر میں جلسے جلوسوں میں سنتے سنتے اتنے عادی ہوچکے تھے کہ دماغ میں سرایت کر گئی تھی۔

سر پکڑ کر گھر میں داخل ہوا تو ایک چینل پر سرکار کے قابل ترین وزرا و مشیران قوم کو شہباز شریف کی کرپشن کے قصے سنا رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ یہ امید دلا رہے تھے کہ جلد نواز و شہباز، زرداری و دیگر بد عنوان لوگوں کی چوری قوم کے سامنے لائی جائے گی اور بہت جلد یہ جیل میں ہوں گے ۔ جبکہ دوسرے چینل پر پٹرولیم مصنوعات میں مزید اضافے کی خوشخبری کے ساتھ ساتھ اشیا خوردنی کے دام بڑھ جانے کی نوید سنائی جا رہی تھی جبکہ ہم سہانے خواب سے جگانے پر بہت نالاں تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments