کیا موجودہ بحران میں مڈ ٹرم انتخابات ہوسکتے ہیں؟ 


ایک بار پھر خبر دی گئی ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس کو آئی ایس آئی کا نیا سربراہ مقرر کرنے کے لئے تین ناموں پر مشتمل سمری موصول ہوگئی ہے۔ یہ خبر اس سے پہلے بھی پھیلائی گئی تھی تاہم اس اہم ترین تقرری کے حوالے سے ابھی تک کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس دوران وزیر اعظم کی صدارت میں آج نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کا اجلاس بھی منعقد ہؤا جس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی شرکت کی۔ اس طرح حکومتی ذرائع اس تاثر کو قوی کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ امور مملکت معمول کے مطابق ہیں۔

عین ممکن ہے کہ وزیر اعظم اور آرمی چیف نے نئے ڈی جی آئی ایس آئی کے حوالے سے آپس میں کوئی اتفاق رائے پیدا کرلیا ہو اور اب محض اس سلسلہ میں اٹھنے والی گرد کے بیٹھنے کا انتظار کیا جارہا ہو تاکہ تقرری کا اعلان ہونے پر کسی نئی بحث کا آغاز نہ ہو۔ یہ بھی ممکن ہے وزیر اعظم نے آرمی چیف کی تجویز مان لی ہو اور محض یہ دکھانے کے لئے کہ اصل اختیار وزیر اعظم کے ہاتھ میں ہے اور جب تک وہ نہیں چاہیں گے، آئی ایس کا نیا سربراہ نہ تو چارج لے سکتا ہے اور نہ ہی پرانا سربراہ اپنے نئے عہدے پر روانہ ہوسکتا ہے۔ اس طرح فوجی قیادت کو طاقت کے توازن کے بارے میں واضح پیغام دیا گیا ہو۔ تاہم یہ سب قیاس آرائیاں ہیں۔ ان قیاس آرائیوں کے جلو میں سول ملٹری تعلقات کے بارے میں افواہوں کا ایک طوفان بھی اس وقت ملک کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔ پاکستان میں سیاست اور سیاسی معاملات میں فوج کی دلچسپی کی تاریخ کی روشنی میں یہ سمجھنا دشوار نہیں ہونا چاہئے کہ وزیر اعظم ہاؤس سے خواہ کوئی بھی اعلان سامنے آئے لیکن اس سے افواہوں کی شدت میں کمی واقع نہیں ہوگی۔

بالفرض وزیر اعظم ’طریقہ کار‘ کی تکمیل کرتے ہوئے بالآخر اسی نام پر اتفاق کرلیتے ہیں جس کا اعلان آئی ایس پی آر پہلے ہی کرچکا ہے، تاکہ سول ملٹری تعاون میں کوئی خلل واقع نہ ہو تو بھی اس سے تحریک انصاف کی حکومت اور فوج کے درمیان نام نہاد ’ایک پیج‘ والی کیفیت واپس آنے کا امکان نہیں ہے۔ اور اگر وزیر اعظم بہر حال اپنی ضد پر قائم ہیں اور کسی بھی طرح جنرل فیض حمید کو مزید چند ماہ یا ہفتوں کے لئے آئی ایس آئی میں تعینات رکھنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے حامیوں کو یقین ہوجائے کہ ان کا لیڈر ہی بااختیار ہے اور فوج کو بہر حال اس کی خواہش پوری کرنا پڑتی ہے کیوں کہ وہ دیانت دار ہے اور کسی بھی طاقت ور پوزیشن پر فائز کوئی بھی شخص اسے دباؤ میں نہیں لاسکتا ، تو بھی ایک بار پیدا ہونے والی رنجش کو آسانی سے دور کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ خاص طور سے جب ملک میں سیاسی تقسیم پہلے سے بھی شدید ہو اور اپوزیشن کے دونوں سیاسی دھڑے حکومت کے خلاف ایک بار پھر احتجاج کا سلسلہ شروع کرنے کا اعلان کررہے ہوں۔ کسی بھی سیاسی حکومت کو اپنا اختیار ثابت کرنے کے لئے ملک میں سیاسی ہم آہنگی کا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔

بدقسمتی سے موجودہ بحران میں حکومت اور اپوزیشن دونوں طرف سے اس کی نہ تو ضرورت محسوس کی گئی ہے اور نہ ہی ایسا کوئی اقدام دیکھنے میں آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اپوزیشن احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے ایک انتظامی اختیار کے معاملہ پر وزیر اعظم کی بجائے غیر منتخب فوجی قیادت کا ساتھ دینا ضروری سمجھتی ہے تو اس کا حقیقی مقصد یہی ہوتا ہے کہ اگر اسٹبلشمنٹ سیاسی معاملات طے کرنے کے لئے اس کی خدمات حاصل کرنا چاہتی ہے تو اپوزیشن کے دروازے کھلے ہیں۔ اس کہانی کا دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ اپوزیشن کے دو دھڑے اپنے اپنے طور پر دست تعاون دراز کررہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو گمان ہے کہ وہی فوج کے لئے بہتر آپشن ثابت ہوسکتی ہے۔ اس صورت حال میں یہ سوال بے معنی اور غیر ضروری ہوکر رہ گیا ہے کہ کیا ایک سیاسی حکومت کو کمزور کرنے کے لئے اسی اسٹبلشمنٹ کے ہاتھ مضبوط کرنے سے ملک میں جمہوری طریقہ اور آئینی روایت مستحکم ہوگی؟ یا اپوزیشن اب خود ہی ان عناصر کی تقویت کا باعث بن کر راحت محسوس کررہی ہے جو کل تک اس کے نشانے پر تھے اور جن پر انتخابات میں دھاندلی سے لے کر ایک ہائیبرڈ نظام کے تحت وزیر اعظم نامزد کرنے تک کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔

اس پس منظر میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا یہ دعویٰ غلط نہیں ہے کہ اپوزیشن کسی بھی طرح اقتدار کے لئے اپنی باری لگوانے کی کوشش کررہی ہے۔

دوسری طرف ایک تقرری کے معاملہ پر اختلاف رائے کو عام کرنے اور پھر اسے طول دے کر تحریک انصاف کی حکومت نے بھی اپنی پوزیشن کمزور کی ہے۔ فوج کی طرف سے وزیر اعظم کی منظوری کے بغیر نئی تقرریوں کا اعلان شاید غلط طریقہ تھا لیکن ابھی تک اس غلطی کا اعتراف نہیں کیا گیا۔ اس حوالے سے جو بیان بھی دیے گئے ہیں وہ وزیروں کی طرف سے سامنے آئے ہیں۔ اس دوران یہ حیرت انگیز تجربہ بھی ہؤا ہے کہ آئی ایس آئی کے ڈی جی کی تقرری کے معاملہ پر حکومتی اختیار کے دعوے کو درست ثابت کرنے کے لئے عمران خان خود میدان میں نہیں کودے اور براہ راست کوئی بیان دینے سے گریز کیا۔ اس کی بجائے فواد چوہدری، شیخ رشید اور عامر ڈوگر کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا گیا۔ ایک طرف اگر حکومت نے اس نازک معاملہ کو عمومی مباحثہ کا حصہ بنانے میں احتیاط نہیں برتی تو دوسری طرف فوج نے بھی تکنیکی یا اصولی غلطی کا اعتراف کرنا یا اس پر کسی تاسف کا اظہار ضروری نہیں سمجھا۔ بلکہ آج گوجرانوالہ کے نئے کور کمانڈر کے عہدہ سنبھالنے کی خبر دیتے ہوئے اس بات پر اصرار کیا گیا ہے کہ فوج کا فیصلہ اپنی جگہ موجود ہے ، وزیر اعظم جیسے چاہیں معاملات طے کرتے رہیں۔ اس غیر معمولی خود اعتمادی کی وجہ فوج کا اپنے ڈسپلن پر بھروسہ، قوت پر اعتبار اور ملک میں سیاسی جوڑ توڑ میں عسکری قیادت کا کامیاب کردار بھی ہے۔ دوست دشمن یکساں طور سے تسلیم کرتے ہیں کہ فوج ایک بار فیصلہ کرلے تو اس سے پیچھے نہیں ہٹتی۔ موجودہ حالات میں اس کا اہم ترین سبب ملکی سیاسی قوتوں کا کردار ہے جو ہمہ وقت فوج کی ہر ضرورت پوری کرنے پر آمادہ ہیں۔

اس تصادم میں حکمران جماعت اور وزیر اعظم کی پوزیشن ایک تو سیاست میں فوج کی غیر معمولی( گو کہ غیر ضروری و غیر آئینی) قوت کی وجہ سے کمزور ہوئی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ملکی معیشت میں پائے جانے والی افراتفری، قیمتوں میں بے پناہ اضافہ اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات میں تعطل بھی حکومت اور فوج میں دوری کا سبب بنا ہے۔ قیمتوں اور بیروزگاری کے بحران کے باعث حکومت دن بدن غیر مقبول ہو رہی ہے۔ گو کہ موجودہ نظام کو ہائیبرڈ نظام کی شہرت اسی وجہ سے ملی ہے کہ عمران خان کی سیاسی طاقت اور فوج کی تائد کو ملا کر ملک پر ایک ایسی حکومت یا نظام مسلط کیا گیاتھا جس میں سول و عسکری قیادت ہم پیالہ و ہم نوالہ تھی۔ تاہم فوج بطور ادارہ ایک غیر مقبول حکومت کی سرپرست کے طور پر شہرت سے پریشان تھی ۔ اختلاف کی موجودہ صورت حال نے اسے کسی حد تک خود کو ’غیر جانبدار یا لاتعلق‘ ثابت کرنے کا موقع دیاہے۔

یہی وجہ ہے کہ تقرری کا تنازعہ حل ہوجانے کے بعد بھی تحریک انصاف کی حکومت کو پہلے جیسا اعتماد اور سیاسی بنیاد میسر نہیں ہوگی۔ اس کا ایک نتیجہ تو یہ سامنے آسکتا ہے کہ مستقبل میں ہونے والے انتخابات میں دھاندلی کا امکان کم ہوجائے اور واقعی ان ہی سیاسی پارٹیوں کو حکومت سازی کا موقع مل سکے جو عوام کی حمایت سے اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اس طرح ایک بری روایت بہر حال ملک میں جمہوری بالادستی کا ایک نیا رجحان سامنے لاسکے گی۔ اور اگر سیاست دانوں نے ہوشمندی سے کام لیا تو مستقبل میں حالات کو اس نہج پر استوار کیاجاسکے گا کہ سول معاملات میں عسکری قیادت کا کردار محدود ہوجائے اور پاکستان ایک نارمل جمہوری معاشرہ کے طور پر کام کرنے لگے۔

دوسری طرف اپوزیشن جس جوش و خروش کا مظاہرہ کررہی ہے اور اسٹبلشمنٹ اپنے ہی تجربہ سے جس طرح زخم خوردہ ہوئی ہے، اس کے نتیجہ میں کوئی عارضی پارلیمانی بحران پیدا کرکے موجودہ حکومت کے خاتمہ کا اہتمام بھی کیا جاسکتا ہے۔ اگر نام نہاد آئینی طریقہ کار پر عمل کیا گیا تو عدم اعتماد کی تحریکوں کا آغاز ہوسکتا ہے۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال خان آلیانی کے خلاف عدم اعتماد پر بدھ کو ووٹنگ ہوگی۔ یہ عدم اعتماد ہوگیا تو پنجاب اور مرکز میں بھی یہی منظر دیکھنے میں آسکتا ہے۔ تاہم یہ طریقہ ملک میں سیاسی استحکام کا باعث نہیں ہوگا اور اس سے بداعتمادی اور سیاسی تنازعہ میں اضافہ ہوگا۔ یہ حالات ملکی معیشت اور پیداواری صلاحیت کے لئے مناسب نہیں ہوں گے۔

اپنے اقتدار کے خلاف دباؤ محسوس کرنے کی صورت میں وزیر اعظم ازخود مڈ ٹرم انتخابات کا اعلان بھی کرسکتے ہیں یا انہیں ایسا اعلان کرنے پر مجبور بھی کیا جاسکتا ہے۔ ایسی صورت میں ہونے والے انتخابات میں عمران خان شاید نہ تو اکثریت حاصل کرسکیں اور نہ ہی دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوسکیں۔ اس لئے ا ن کی خواہش و کوشش یہی ہوگی کہ کسی طرح پارلیمانی مدت پوری کی جائے اور باقی ماندہ وقت میں استحکام پیدا کرکے دوبارہ عوام کی حمایت حاصل کی جائے۔

 تاہم یہ امر بدستور غیر یقینی ہے کہ ان دونوں صورتوں میں عمران خان کس حد تک فوج کو ہائیبرڈ تجربہ جاری رکھنے پر آمادہ کرسکیں گے۔ یہ ممکن ہے کہ فوج اب اس تجربہ کے لئے اپنا ’پارٹنر‘ تبدیل کرنے کے موڈ میں ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments