بھوک کے خلاف جنگ کرتے ہیں!


گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کے ایک اجلاس میں اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیو گوتریس نے بھوک و افلاس سے متعلق اعداد و شمار بتائیں تو افسوس اور شرمندگی محسوس ہونے لگی۔ جنرل سیکرٹری کا اپنی تقریر میں کہنا تھا کہ دنیا میں خوراک کی مساوی تقسیم نہیں ہے جس کی وجہ سے دنیا کی بڑی آبادی کو غذائی قلت کا سامنا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا بھر میں 3 ارب لوگ غذائی قلت اور خوراک کی کمی جیسے مسئلہ کا شکار ہیں، جب کے 462 ملین افراد کا جسمانی وزن اوسط سے کم ہے۔ فراہم کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں 2 ارب لوگ اضافی وزن اور موٹاپے کا شکار ہیں جب کے کل خوراک کا ایک تہائی کھانا ضائع یا پھینک دیا جاتا ہے۔

ہم اگر ان اعداد و شمار پر غور کریں تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ دنیا میں ضرورت کے مطابق خوراک تو موجود ہے مگر جو خوراک ضائع ہوتی ہے وہ ایک تہائی خوراک کے لگ بھگ ہے۔ یعنی دنیا کی کل آبادی تقریباً 8 ارب کے قریب ہے تو اس حساب تو دیکھے تو روزانہ ڈھائی ارب افراد کی خوراک ضائع ہوجاتی ہے۔ اس خوراک کا ضائع ہونا صرف مالی نقصان نہیں بلکہ خوراک کے پیچھے لاکھوں انسانوں کی کئی مہینوں کی محنت ہوتی ہے تب انسانی خوراک بنتی ہے۔

ہم دنیا سے ہٹ کر صرف اپنی طرف بھی نظریں گھمائیں تو ہمیں خوراک ضائع ہونے کے کافی مناظر دکھائی دیں گے۔ جیسے شادی ایک ایسا ایونٹ ہے جو پاکستان میں بہت دھوم دھام سے کی جاتی ہے جس میں انواع و اقسام کے کھانے ہوتے ہیں۔ روزانہ سینکڑوں، ہزاروں شادیاں ملک بھر میں ہوتی ہیں، جس میں کھانا ضائع ہونا عام بات ہے، زیادہ ہوس کے نتیجے میں پلیٹوں میں کھانا نکال لیا جاتا ہے اور پھر پیٹ بھرنے پر چھوڑ دیا جاتا ہے جو کے کچرے میں پھینکا جاتا ہے۔ اس طرح کے مناظر گھریلو فنکشن، ریسٹورنٹس، مزاروں کے لنگر، مجلسوں کی نیاز میں جابجا نظر آتے ہیں جہاں بچ جانے والی خوراک کو کچرے میں پھینک دیا جاتا ہے۔

ہم اس صورتحال کا کیسے مقابلہ کر سکتے ہیں اور کھانا ضائع ہونے سے کیسے بچا سکتے ہیں؟ یہ کچھ اقدامات کر کے آپ کھانا ضائع ہونے سے بچا سکتے ہیں۔

٭ریسٹورنٹ میں کھانا بچ جائے تو پیک کر وا لیجیے اور راستے میں کسی ضرورتمند کو دے دیجئے، لیکن بچ جانے والے کھانا قابل تناول ہونا چاہیے۔

٭اگر شادی میں بہت زیادہ کھانا بچ گیا ہے اور رکھا بھی نہیں جاسکتا تو بہت سے ایسے فلاحی ادارے ہیں جہاں آپ کھانا پہنچا سکتے ہیں۔

٭ کچھ گھروں میں باسی کھانے کا رواج نہیں جس بناء پر کھانا اگلے دن پھینک دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر اسی دن کھانا پیک کر کے دے دیا جائے یا پھر فریز کر کے رکھ دیا جائے اور اگلے دن کسی ضرورت مند کودے دیا جائے تو کھانا ضائع ہونے سے بچ جائے گا۔

٭اسی طرح سماجی تنظیموں کو ایک ایسا نیٹ ورک بنانا چاہیے جو ایک فون کال پر بچ جانے والے کھانے کو گھروں، ہوٹلوں یا پھر شادی ہالوں سے جمع کر لیں اور پھر متعلقہ ضرورتمند اداروں تک پہنچا دیں۔

٭ سب سے زیادہ کھانا شادیوں میں ہوس کے نتیجے میں ضائع ہوجاتا ہے جو کے پلیٹوں میں بچ جاتا ہے۔ لیکن کورونا دور کی طرح ٹیبل ٹو ٹیبل سروس جاری رہے تو کھانا ایک ہی بار میں زیادہ نکالنے کی ہوس کم ہو جائے گی اور کھانا پلیٹوں میں ضائع نہیں ہو گا۔

٭ریسٹورنٹ کے منتظمین بچ جانے والے کھانے کو کچرے میں نہ پھینکیں، بلکہ اس کو پیک کر کے بانٹ دیں یا پھر سماجی تنظیم کے دفتر پہنچانے کا اہتمام کریں یا پھر سماجی ادارے ان ریسٹورنٹ سے روزانہ بچ جانے والے کھانا اٹھا کر خود تقسیم کریں۔

یہ کچھ چھوٹے چھوٹے اقدامات ہیں جسے اپنا کر ہم بہت سا کھانا بچا سکتے ہیں۔ آپ کے پاس اگر وسائل ہے اور خوراک بھی بے بہا ہے تو اس کا قطعی مطلب نہیں کے آپ خوراک ضائع کریں کیونکہ ضائع ہونے والی خوراک بھی نعمت ہے اور نعمت کو اس طرح ضائع نہیں کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments