گنوخ۔ خالص آرین بستی


(

مل مل کھٹو میں رقص جاری ہے، شرکاء اونچی پرسوز آواز میں گا رہے ہیں، کبھی آواز مدہم، کبھی درد انگیز اور کبھی سریلی ہو جاتی ہے، یہ کوئی عام گیت نہیں ہے، قبیلے کی دربدری، زندگی اور موت کا رقص، دیوتاؤں کے ساتھ آبائی وطن سے انخلا اور طویل سفر کی داستان کہی جا رہی ہے۔ لیکن یہ گنوخ کے مل مل کٹھو میں نہیں بلکہ ڈاہ گرکون، ہنو لداخ کے مل مل کٹھو میدان میں ہو رہا ہے اور یہ سب ”بونونو فیسٹیول“ کے دوران ہوتا ہے۔ یہ تہوار ایک سال ڈاہ میں دوسرا سال گرکون میں اور تیسرا سال خالی۔ لیکن کیوں؟ تیسرے سال کا تہوار گنوخ کھرمنگ میں ہوتا تھا لیکن یہاں اشاعت اسلام کے بعد ترک کر دیا گیا یوں روایت کے مطابق خالی رہتا ہے۔ اور پھر ڈاہ لداخ سے شروع، اگلے سال گرکون میں اور پھر تیسرے سال خالی۔ یہ سلسلہ کئی صدیوں سے جاری ہے۔

اس تہوار میں ایک خاص گیت گایا جاتا ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ کس طرح بروشال سے یہ قبائل ذاتی دشمنی اور قبائلی جنگ و جدل کے باعث ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور کس طرح گلگت، روندو، سکردو، خپلو اور کھرمنگ سے ہوتے ہوئے مرول، ژھے ژھے تھنگ، سنکرمو، گنوخ، ڈاہ، ہنو، گرکون، در چکس، خلسے اور دیگر گاؤں میں آباد ہوئے۔ دراصل یہ ہجرت کی کہانی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ روندو، سکردو اور کھرمنگ کے جن جن مقامات پر ان قافلوں نے وقتی طور پر قیام کیا ہے ان میں اب بھی زیادہ تر جگہوں پر ”درد“ لوگ آباد ہیں۔ یہ گیت دراصل کئی دوسری مناجاتی گیتوں کا ایک حصہ ہے جو یہ درد ان تہواروں میں گاتے ہیں۔

ہجرت والی گیت میں تذکرہ ہے کہ بروشل سے نکلنے کے بعد قافلہ گلیت آ پہنچا، یہاں سے سسی، استق، فونگ کٹو، طورمک، بشو، کچورہ، چندہ، غوٹی چنگرہ، کریس، خپلو، غویس سے ہوتا ہوا گنوخ، سنید، ڈاہ گرکون اور ہنو جا پہنچا۔ جو دیوتا اس قافلے کے ساتھ ساتھ آیا اور جس کی پوجا ہوتی رہی اسے ”نارل“ کا نام دیا گیا ہے۔ راستے میں قافلے کے افراد نے روندو کے کسی مقام پر دردوں کا قدیمی کھیل ”چھالو“ بھی کھیلا۔ گنوخ، ڈاہ گرکون اور ہنو پہنچنے پر ”مینارو“ کے ساتھ لڑائی ہوئی۔

دراس اور شنگو شغر کے لوگ چلاسی اور یاغستانی افراد کو مینارو کہتے ہیں جبکہ کاچو سکندر خان کی کتاب ”تاریخ لداخ“ کے مطابق دراس والے ڈاہ، گرکون اور گنوخ ایریا کے لوگوں کو ”کیانگو“ اور ڈاہ گرکون اور ہنو والے دراس کے لوگوں کو مینارو کہتے ہیں جب کہ گنوخ والے ابھی بھی برسیل کھرمنگ کے شین لوگوں کو مینارو کہتے ہیں۔

بونونو میلے کو ہنو میں ”تھوشل“ ، ڈاہ گرکون میں ”شندوم“ اور گنوخ میں ”موری پی پھن“ کہا جاتا ہے۔ تاہم میں نے کئی بار گنوخ کے بزرگوں سے استفسار کیا لیکن وہ تہوار کا متذکرہ نام کی تصدیق نہیں کر پائے۔ ان دردوں پر Robert Shaw، John Biddulph، Giotto Dainelli، Karl Jetmar، Frederick Drew، Rohit Vohra، مولوی حشمت اللہ لکھنوی، کاچو سکندر خان وغیرہ نے کام کیا ہے۔ Rohit Vohra نے تو ڈاہ، گرکون، درچکس اور گنوخ کے قبائل پر تفصیلی کام کیا اور کئی مضامین اور دو کتابیں لکھیں ہیں جبکہ A۔ H Francke نے لداخ، بلتستان اور ڈاہ گرکون، ہنو کے قبائل پر بہت کلاسک کام کیا ہے۔

ڈاہ، گرکون، ہنو درچکس ایریا میں جو درد آباد ہیں وہ ابھی بھی اپنے قدیم عقائد سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان میں شامنزم، بون چھوس اور مظاہر پرستی کے اجزاء نمایاں نظر آتے ہیں۔ وہ گائے کا گوشت کھانے سے اجتناب کرتے ہیں جو کہ قدیم دردوں کا طرہ امتیاز رہا ہے۔ گھر کا دیوتا ”سبدق“ سے لے کر ”یشایاندگ“ اور ”ٹھالی سمین“ تک کی پرستش کی جاتی ہے۔

ان سب سے صرف نظر کر کے میں گنوخ کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ کچھ سالوں سے دلچسپی کے باعث بار بار گنوخ جا رہا ہوں اور مختلف نوعیت کی معلومات جمع کرتا جا رہا ہوں۔

موجودہ گنوخ پری لوقس، چھوکھا، امبرگ، کردار، نیرا محلہ جات پر مشتمل ہے جن میں امبرگ سب سے بڑا ہے۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ اصل آبادی کا آغاز ”ننگ گنوخ“ سے ہوا مگر اب یہ جگہ خالی پڑی ہوئی ہے اور یہاں کی آبادی دیگر متذکرہ بالا محلہ جات جا کر سمٹ گئی ہے۔ ننگ گنوخ سے اوپر چراہ گاہیں ہیں ان میں سے ایک کو کھنڈورو کہتے ہیں جہاں ایک چھوٹی سی جھیل بھی ہے۔ یہاں پرانے کھیتوں کے نشانات ہیں اور جگہ کھلی ہے اور میرا ماننا ہے کہ یہیں گنوخ والا مل مل کٹھو ہے جبکہ گاؤں ہی کا ایک نوجوان قاسم آریان جو گنوخ کی زبان اور کلچر پر محنت کر رہا ہے کا کہنا ہے کہ گنوخ والا مل مل کٹھو اس سے بھی اوپر لائن آف کنٹرول کے قریب ہے۔

گنوخ کے گاؤں تک اب بڑی سڑک بن رہی ہے جبکہ ایک بجلی گھر رات دن بجلی مہیا کر رہا ہے۔ یہاں کی آبادی کی بڑی تعداد سکردو اور راولپنڈی جا بسی ہے اور وجہ وہی پسماندگی اور غربت۔ بڑے بوڑھوں کے مطابق گنوخ کا قدیمی نام گنیشہ ہے جو کہ گنیش ہنزہ سے مشتق ہے اور گنیش کی دوسری جانب والا گاؤں کا نام بروشل ہوپر ہے۔

گنوخ، دانسر اور مرول کی زبان بھی وہی ہے جو ڈاہ، گرکون، درچکس اور ہنو میں بولی جاتی ہے۔ محققین اور دیگر مقامی اسے ”بروکست“ کہتے جبکہ ماہر لسانیات کے مطابق یہ Archaic Shina ہے۔ اس زبان پر ڈی ڈی شرما، رام سوامی سمیت ایک دو اور نے بھی ڈکشنریاں مرتب کی ہیں لیکن اس میں لداخی اثر زیادہ ہے۔ جبکہ اس طرف کھرمنگ والے گنوخ زبان پر ابھی تک کوئی کام نہیں ہوا ہے۔ قاسم آریان کوشش کر رہا ہے جبکہ میں گنوخ کی کلچرل ہسٹری پر کچھ کام کرنے کی کوشش میں ہوں۔ گنوخ والے لہجے میں بلتی اثر و نفوذ زیادہ ہے اور دن بہ دن معدومیت کی طرف گامزن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments