خوف کے سائے تلے صحافت


پوری دنیا میں موجود اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے ادا کرنے والے سینئر صحافیوں کو اتنی مشکلات اور تکالیف سے نہیں گزرنا پڑتا جتنی مشکل اور تکلیف ان کو پاکستان میں کاٹنی پڑتی ہے۔ پاکستان کی صحافت گزشتہ چند سالوں سے بڑے کٹھن راستے عبور کر رہی ہے اور اس کٹھن، خوفناک راستے میں بہت سے صحافیوں کی زندگیاں غیر محفوظ ہو کر رہ گئی ہیں۔ کبھی کسی صحافی کو پارک میں گولیوں کا نشانہ بنا کر جان لینے کی کوشش کی گئی تو کبھی رات کے وقت فلیٹ کے دروازے توڑ کر صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

کبھی رات کے پچھلے پہر گھروں کی دیواریں پھلانگ کر صحافیوں کو اغواء کیا تو کبھی اپنے حقوق کے تحفظ کی خاطر آواز بلند کرنے کی وجہ سے نوکری سے نکلوا دیا گیا۔ کبھی قوم کے سامنے سچ لانے کی وجہ سے صحافیوں کو اپنی جان قربان کرنا پڑی تو کبھی سچ سامنے نہ لانے کی پاداش میں ظلم کا نشانہ بنتے رہے۔ یہ وہ واقعات ہیں جو پاکستان میں بغیر کسی تسلسل کے ساتھ جاری و ساری ہیں۔

اس ملک میں صحافی صرف اپنی قلم کی طاقت سے ہی لوگوں کو سچے واقعات سے آگاہ کر سکتے ہیں جس طرح سینئر صحافی عاصمہ شیرازی نے اپنی قلم کی طاقت سے لوگوں کو ایک چھپے ہوئے سچ کے متعلق آگاہ کیا۔ صحافی کی آواز کو تو دبایا جاسکتا ہے لیکن اس کی قلم کے نیچے سے گزرے ہوئے الفاظ اور سچ کو دبایا نہیں جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج حکومت کا ہر وزیر، مشیر، سرکاری صحافی اور حکومتی جماعت کے سوشل میڈیا پر بنائے گئے اکاؤنٹس مسلسل عاصمہ شیرازی کو ہراساں کر رہے ہیں۔

سیاستدان اس وقت تک ایک مقبول سیاسی جماعت کا سربراہ نہیں بن سکتا جب تک وہ اپنے اندر برداشت کی قوت کو مضبوط نہ بنا لے۔ موجودہ حکومت میں شامل تمام وزراء اور مشیران کو سچ برداشت کرنے کا حوصلہ رکھنا چاہیے اور ان پر کی گئی جائز تنقید کو قبول کرتے ہوئے اپنے قبلے کو درست کرنا چاہیے۔ بظاہر عاصمہ شیرازی کی طرف سے بی بی سی اردو میں لکھا گیا کالم اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں کو اتنا برا لگا کہ انہوں نے اس کالم کی اشاعت کے بعد عاصمہ شیرازی کو ذاتی طور پر نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔

مختلف اوقات میں حکومتی جماعتوں کے وزراء پچھلے چند گھنٹوں میں عاصمہ شیرازی کو ذاتی طور پر ہراساں کر چکے ہیں اور سوشل میڈیا پر اپنی سوشل میڈیا ٹیم کے ذریعے بیہودہ ٹرینڈز لانچ کر چکے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر حکومت عاصمہ شیرازی کے اس کالم کو دل و جان سے قبول کرتی اور اپنے اندر کی خرابیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتی اور ملکی و غیر ملکی سطح پر اس حکومت کا جو امیج خراب ہوا ہے وہ قدرے بہتر ہوتا اور صحافیوں کے دلوں میں اپنا ایک مقام پیدا کرتی لیکن افسوس صد افسوس؛ ہمیں کوئی بھی چیز اس طرح دیکھنے کو نہیں ملی۔

ہمارے ملک میں سچ کو ایک گناہ کے طور پر جانا جاتا ہے، موجودہ وزیراعظم عمران خان بظاہر آزاد صحافت کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن ان کو اس بات کا بالکل بھی علم نہیں ہے کہ پاکستان میں سچ لکھنے والے صحافیوں کے ساتھ جو برا سلوک ہو رہا ہے اس کی مذمت کرنے کے لیے آئی سی آئی جے سمیت دیگر غیر ملکی صحافتی تنظیموں کو میدان میں آنا پڑتا ہے۔ یہی وہ صحافی برادری ہے جو اپنے زور بازوؤں سے دشمن کے ہر ایجنڈے کو ناکارہ بناتی ہے، یہی وہ صحافی برادری ہے جو اپنے زور بازوؤں سے پاکستان کے امیج کو پوری دنیا کے سامنے ”سب اچھا ہے“ کی صورت میں پیش کرتی ہے لیکن سابقہ حکومتوں کی نسبت اس حکومت کا صحافیوں کے ساتھ اپنایا جانے والا رویہ انتہائی خطرناک ہے۔

موجودہ حکومت نے بہت سے منجھے ہوئے سینئر صحافیوں کے ساتھ برے سلوک کر کے ان کو غیر ملکی صحافتی تنظیموں کے حوالے کر دیا ہے اور اگر یہی حکومت ان سینئر صحافیوں کی قدر کرتی، ان کے مفید مشوروں سے میڈیا کو آزادی مہیا کرتی تو وہی صحافی آپ کو غیر ملکی میڈیا پر پاکستان کا دفاع بہتر انداز میں کرتے ہوئے نظر آتے لیکن ہم نے اپنے سینئرز کی قدر نہیں کی جس کی وجہ سے غیر ملکی صحافتی تنظیموں نے ان کو اپنی ٹیم کا حصہ بنا لیا ہے اور ان کے تجرباتی صحافت سے مستفید ہو کر آگے بڑھنے کی جستجو میں ہیں۔

میری وزیراعظم پاکستان سے یہی گزارش ہوگی کہ جناب وزیراعظم! صحافیوں کی قدر کرنا سیکھیں، ان کو ان کے حقوق دینے کے لیے اپنی خدمات پیش کریں، جب انسان پر برا وقت آتا ہے تو ایک یہی صحافی رہ جاتا ہے جو آپ کا ساتھ دینے کے لیے میدان میں موجود ہوتا ہے۔ خدارا! صحافیوں پر کیچڑ نہ اچھالیں بلکہ صحیح معنوں میں ان کی قدر کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments