بلوچستان: واپسی کا سفر شروع


ہماری اسٹیبلشمنٹ کا ملک پر حکمرانی کا یہ تجربہ بھی بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ اس سے پہلے نامزد کردہ یا پھر طوعاً و کرہاً منظور کردہ، کسی بھی وزیراعظم سے ان کی بن نہیں پائی تھی۔ الزام ہمیشہ سویلین پر آتا رہا کہ اس ناکام محبت کی وجہ ان کی نا اہلی ہے۔ اس ناکردہ گناہ کے بوجھ تلے دبے سیاستدان اور عوام اگلے دس سال ’خاکی مار‘ برداشت کرتے تا وقت یہ کہ ان کا شوق چاروں شانے چت ہو جاتا اور عوامی دباؤ پر ٹوٹی پھوٹی معیشت کے ساتھ حکومت پھر عوامی نمائندوں کے حوالے کرنا پڑ جاتی۔

شکست پھر بھی نہ مانتے۔ تکفیر، سرکشی و نافرمانی اور بھارتی ایجنٹی کے الزامات کی مدد سے ان کی سازشیں پروان چڑھتی رہتیں۔ مفاد پرست الیکٹ ایبلز کی چمچہ گیری اور مذہبی انتہا پسندوں کی صحبت ان کے عزائم کو مہمیز کرتی۔ دھرنوں اور عدالتی پیشیوں کی معاونت حکومتوں کو مفلوج کیے رکھتی۔ پھر وہی کھیل کھیلا جاتا اور ایک شام کا آغاز 111 کے بوٹوں کی سلامی اور ’میرے عزیز ہم وطنوں‘ کی دھاڑ کے ساتھ ہوتا۔ عوامی نمائندوں کو کرپٹ، نا اہل اور غدار قرار دے کر ملک بدر کر دیا جاتا۔

پھر دس سال تک ملک میں لاقانونیت، قتل و غارت اور بم دھماکے جاری رہتے۔ کلاشنکوٖف، ہیروئن اور غیرملکی ایجنٹوں کی بھر مار سے ملک مفلوج ہو جاتا۔ سال ہا سال کی ناکام حکمرانی ملک کو ایک دن میں بائیس بائیس گھنٹے تک اندھیروں میں ڈبوئے رکھتی۔ کشمیر، ڈھاکہ، سیاچین اور کارگل کی مہم جوئیوں کے بعد یہ آمر عوام اور غیر ملکی آقاؤں کی نظر میں ناقابل اعتبار اور ناموزوں قرار پاتے۔ پھر وہی سانپ سیڑھی کا کھیل شروع ہوجاتا۔ الیکشن اور نا اہل، کافر، منکرین ختم نبوت، مرتد، غدار، مودی کے یار عوامی نمائندے۔

2018 کی پلاننگ 1992 کے بعد شروع ہو گئی تھی۔ ہمیں یاد ہے کہ جنگی اصطلاح میں ’فاتح عالم‘ قرار پانے والے کپتان کو کس طرح سرکاری پروٹوکول میں ضلع در ضلع متعارف کروایا گیا تھا۔ وہ بانکا سجیلا کپتان جس کی حسین قربتوں کے حسرت گزیدہ قریہ قریہ پائے جاتے تھے۔ وہ جس کی عظیم شخصیت کی تمکنت چاکلیٹ ہیرو وحید مراد کی کمی پوری کرتی تھی۔ گیند پھینکنے کے لیے دوڑتے وقت جس کی ناقابل رسا اڑتی زلفیں دیکھ کر کانچ کی چوڑیوں سے چھنکتی کلائیوں کی تیز نبض رک جاتی تھی۔

اس ہینڈسم کو کالجوں میں لایا گیا۔ چاہنے والوں نے ایک جھلک پانے کے لیے سونے کے کنگن اور ہار وار دیے۔ نظر نظر میں جھلکتی نارسا پرستشوں کی داستان پڑھ لی گئی اور دیوتا بنا کر پیش کر دیا گیا۔ پوجا کا پاٹ مکمل کرنے کے لیے مذہب کا تڑکا بھی لگا دیا گیا۔ اسلام کی ایک رعایت سے بہت سوں کا بھلا ہوا ہے۔ ”سب کچھ کرنے کے بعد کہہ دو کہ میں نے توبہ کر لی ہے۔“ دلوں کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے۔ بہشتی دروازے کی چوکھٹ پر ماتھا ٹیک دو، پیر بھی ساتھ ہو تو ریاست مدینہ کی نیو رکھنے کا نعرہ مستانہ بلند کرنے میں کمی کس چیز کی رہ جاتی ہے! اب پشتہ نہ بھیت اور نیا پاکستان اسارنا شروع۔

لیکن مملکت کے اسرار و رموز جاننا خلائی مخلوق کے بس کی بات نہیں ملکی تدبر و انتظام جاننے کو عرب لوگ سیاست کہتے تھے۔ اور یہ رموز جاننے والا سیاست دان کہلاتا ہے۔ ارسطو کے یونان میں ریاستوں کو پولس کہا جاتا تھا اور ان کے معاملات کو چلانے والے کو پولیٹیشن۔ یہ تدبر، یہ سیاست کسی ادارے میں نہیں سکھائی جا سکتی نہ ہی کوئی منظم ادارہ حکماً اس کا نفاذ کر سکتا ہے۔ یہ عوام میں جا کر ان کی خدمت کرنے سے ہی سیکھی جا سکتی ہے۔

پاکستان میں جو سیاست دان صرف جنازے اور شادیاں بھگتا لے وہ بہت کامیاب کہلاتا ہے۔ ہمارے ہینڈسم نے تو پورے دور حکومت میں صرف دو شادیوں میں حاضری دی۔ ایک اپنے مربی، بڑے صاحب کے بیٹے اور دوسری ملٹری سیکریٹری کی بیٹی کی۔ اپنی بھانجی کی شادی میں بھی شامل ہونا مناسب نہیں سمجھا۔ جنازوں سے تو بانکے سجیلے کا کبھی کوئی تعلق رہا ہی نہیں۔

نواب آف کالا باغ کے بیٹے ملک اعظم خاں، عمران خان صاحب کی نجی محفلوں کے میزبان تھے۔ بہت پہلے جب آتش جواں تھا، جب توبہ کی بجائے توبہ توبہ کی بلاخیز جوانیاں چہار اکناف تھرکا کرتی تھیں، خاں صاحب ان کے ہاں حاضری دیا کرتے تھے۔ ایسی ہی ایک ست رنگی شب کو جب خان صاحب ان کو میزبانی کا شرف بخشنے کے بعد بیڈ روم میں گوشہ نشین ہو کر لطف اندوز ہو رہے تھے، ملک اعظم کی وفات کی خبر ملی۔ ہمارے ہیرو نے یہ اطلاع ملتے ہی وہ جگہ چھوڑ دی۔ اسی وجہ سے ملک خاندان سے ہمیشہ کے لیے تعلقات منقطع ہو گئے۔ ایسا توہم پرست بندہ عوام میں اپنی مقبولیت کھو دیتا ہے۔

معیشت کو سنبھالنے والے ترین، زلفی وغیرہ وغیرہ اپنی معیشت بہتر کر کے رفوچکر ہو چکے ہیں۔ سول انتظامیہ کے سنگھاسن تبادلوں کے اڑن کھٹولے پر لگا دیے گئے ہیں۔ کام کرنے کا موقع ہی نہیں دیا جا رہا ۔ صرف وسیم اکرم پلس کا راگ ہی سنایا جا رہا ہے۔ کرپشن کی پردہ داری یوں کی جا رہی ہے کہ آڈٹ والوں کو حکم ہے کوئی پیراگراف نہیں لکھنا۔ مبادا کہ پریس والے وہ پروانہ لے اڑیں اور نام نہاد عزت بھی خاک میں مل جائے۔

اب اسٹیبلشمنٹ کا لانچ کردہ یہ مہرہ عوامی سطح پر بری طرح پٹ چکا ہے۔ تین سال کی بھرپور سپورٹ، پازیٹو رپورٹنگ، الیکشن کمیشن کا دست شفقت، عدلیہ کی سزائیں، نیب کے ناجائز ہتھکنڈے، اور سب سے اہم بنی گالا کے جن، کچھ بھی ملک چلانے میں مددگار نہیں ہوسکا۔ نفرت اور انتقام سے معیشت کی آبداری کرنے والے، کانٹوں کی فصل کاٹنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ بلوچستان کے روایتی اکھاڑے میں کھیل شروع ہو چکا ہے۔ گھوڑے اصطبل میں بند کر لیے گئے ہیں۔ اب کی بار اپنا چھانگا مانگا آباد کیا جا رہا ہے کیونکہ کوئی قابل اعتبار سویلین مل ہی نہیں رہا۔ کوئی نواز شریف یا زرداری اب کی بار سہارا نہیں دے رہا۔

وہ جو طعنے دیا کرتے تھے کہ اپوزیشن سویلین حکومتوں کو نقصان پہچانے والوں کا نام کیوں نہیں لیتی، اب دم سادھے بیٹھے ہیں۔ گوجرانوالہ کے جلسہ میں نام پکار دیے گئے۔ اسے غداری سے تعبیر کیا گیا۔ اب اسلام آباد ہائی کورٹ میں رٹ بھی دائر ہو چکی ہے۔ الزام سیدھا سادا ہے۔ بال عدلیہ کی کورٹ میں ہے۔ عوامی لیڈر کھل کر کھیل رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے نمائندوں کو اپنی صفائی دینی ہے۔ خود ڈوبنا ہے یا سب کو ساتھ لے کر؟ فیصلہ انہوں نے ہی کرنا ہے۔

اب وقت ہے کہ اداروں کو بچایا جائے اور چند افراد (وہ افراد جنہوں نے شاید اگلے سال آسٹریلیا کے جزیروں میں جا بسنا ہے ) کی پسند ناپسند پر حکومتیں بنانے اور توڑنے کی بجائے عوام کے منتخب نمائندوں کو کام کرنے دیا جائے۔ بلوچستان میں آپ کچھ کریں یا نہ کریں، واپسی کا سفر شروع ہو چکا ہے۔ اصطبل سجا کر موجودہ حکومت کو شہادت کا موقع دیں اور نہ ہی ایک نئی مہم آرائی میں اپنے پاؤں گدلے کریں۔ سولین مدد کے بغیر سردار ذرا بھاری بھی پڑ سکتے ہیں۔ کل کلاں یہ رٹ بلوچستان ہائیکورٹ میں دائر ہو سکتی ہے۔ بلوچی وکیلوں اور قاضیوں سے ڈر بھی بہت لگتا ہے۔

اس حکومت کی فکر کرنا چھوڑ دیں۔ یہ اپنی منافقت، نفرت اور انتقام پر مبنی نا اہلی کا بوجھ مزید نہیں اٹھا سکتی۔ یہ اپنی موت آپ مر جائے گی۔ بس آپ دست شفقت اٹھا لیں، سیلوٹ کریں اور گھر جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments