موسمیاتی تبدیلی اور ژے ژے تھنگ گاؤں کی ویرانی


ابراہیم اپنے کھیت کی منڈیر پہ کھڑا ہے اور اس کی نگاہیں دور خلا میں گم ہیں۔ اس کے چہرے پر مہیب ویرانی چھائی ہوئی ہے اور ماتھے کی جھریاں عمر گم گشتہ کی کہانی سنا رہی ہیں۔ وہ ستر کے پیٹے میں ہے اور اس نے اتنی بے بسی پہلے کبھی محسوس نہیں کی تھی۔ دفعتاً اس نے نگاہیں خلا سے ہٹا دیں اور سامنے پھیلے ہوئے پہاڑی کھیتوں پر ڈالی جو گول گول پتھروں سے بنے ہوئے تھے اور ویران پڑے تھے۔

کھیتوں کی یہ ویرانی اسے کچوکے لگا رہی تھی لیکن وہ کیا کرتا، فطرت سے کیسے لڑتا کیونکہ پچھلے کئی سالوں سے پانی نہیں آ رہا تھا اور یوں کھیتی باڑی مفقود تھی، وجہ یہ تھی کہ برف پڑنا بہت کم ہوا گیا تھا اور گاؤں کی زراعت کا دار و مدار تو برف پر تھا جو اب سال بہ سال غائب ہوتی جا رہا تھی۔

موسمیاتی تبدیلی سے وہ بے خبر تھا اور خشک سالی کو گاؤں والوں کے اجتماعی گناہ کا نتیجہ قرار دے رہا تھا۔ اسے کیا خبر تھی کہ انسان کے ہاتھوں کرہ ارض پر کیا بیت رہی ہے۔ وہ اس سے بھی نا آشنا تھا کہ ترقی کے نام پر حضرت انساں نے ماحول کو کتنا زک پہنچایا ہوا ہے۔

ژے ژے تھنگ کھرمنگ بلتستان کے سرحد پر واقع ایک چھوٹا سا گاؤں ہے اور یہ سلسلہ قراقرم کے ایک ذیلی شاخ لداخ رینج کی ایک چوٹی پر ٹکا ہوا ہے۔ یہ گاؤں دریائے سندھ کی بلتستان میں انٹری کے قریب بائیں کنارے پر واقع ہے اور ابتداء میں 60 گھروں پر مشتمل تھا جن میں سے 40 کے قریب گھر نقل مکانی کر کے سکردو اور دوسری جگہوں پر جا بسے ہیں۔ ابراہیم اسی گاؤں کا فرد ہے جس نے ابھی تک ہار نہیں مانی اور گاؤں نہیں چھوڑا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کا شکار ژے ژے تھنگ ہی نہیں بلکہ قراقرم اور مغربی ہمالیہ کے پہاڑوں پر واقع تقریباً تمام چھوٹے بڑے گاؤں بھی کسی حد تک متاثر ہوئے ہیں۔

کرہ ارض کا درجہ حرارت دن بدن بڑھ رہا ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق اس میں 02 ڈگری سینٹی گریڈ کا سالانہ اضافہ دیکھنے کو آ رہا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کی سنگینی کو پیش نظر رکھ کر آج سے 15 سال پہلے AKRSP نے بلتستان کی کمیونٹیز کے ساتھ مل کر روایتی طرز پر مصنوعی گلیشیر اگانے کا بیڑا اٹھایا تھا۔ یہ طریقہ کار نہایت دلچسپ اور بلتستان و لداخ کا پرانا آزمودہ ہے۔ اس میں دو مختلف رنگت کی برف یعنی سفید گلیشیر کا کچھ حصہ اور کالا گلیشیر کا کچھ حصہ کوئلہ اور بھوسہ کے ساتھ ملا کر 12000 فٹ سے اوپر پہاڑ پر سورج کی مخالف سمت میں سایہ والی جگہ پر مٹی میں دفنا دیا جاتا ہے۔

دھیرے دھیرے یہ برف کا ملغوبہ جڑ پکڑنا شروع کر دیتا ہے اور گلیشیر کی شکل اختیار کر لیتا ہے مگر یہ عمل بہت سست روی سے ہوتا ہے۔ سفید برف کو مادہ جب کہ کالے برف کو نر کہا جاتا ہے اور ان کے ملن کا نتیجہ گلیشیر کی پیدائش ہے۔ ہنوچل حراموش کے غلام رسول اس فن کے ماہر تھے جسے AKRSP نے بطور کنسلٹنٹ لیا اور انہوں نے کمیونٹیز کے ذریعے کی جانے والی گلیشیر اگاؤ مہم میں ماہرانہ انداز میں مدد کی۔ اس طرح بلتستان میں بلغار، سرمو، خپلو بروق، تلس، پاری، سوکسی تھنگ، ترکتی، گول، حسین آباد، تھور گو، کورادو پر مصنوعی گلیشیر لگائے گئے ہیں جس میں بلغار اور پاری زیادہ کامیاب ہیں۔

مجھے کچھ سال پہلے ایک ڈاکومنٹری کے سلسلے میں غلام رسول سے ملنے ہنوچل حراموش جانا پڑا تو اس وقت ان کی عمر 75 سال سے زیادہ تھی اور نظر بھی کافی کمزور ہو گئی تھی مگر وہ مجھ سے تقاضا کر رہے تھے کہ ایک آخری گلیشیر لگانے کے لیے میں اسے بلتستان لے جاؤں۔ میں نے بڑی مشکل سے ان کو ٹال دیا۔

گلیشیر گرافٹنگ پراجیکٹ پر ناروے کی یونیورسٹی آف لائف سائنسز کے Ingvar Tveiten نے ریسرچ کیا اور ان کا پیپر Glacier Growing۔ a Local Response to Water Scarcity in Baltistan and Gilgit، Pakistan نام سے چھپا بھی ہے۔

یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے ہمارا علاقہ بڑی تیزی سے متاثر ہو رہا ہے اور وہ وہ گاؤں جہاں بلندیوں پر گلیشیر نہیں وہاں کم برف باری کی وجہ سے پانی کم ہوتا جا رہا ہے جس سے روایتی زراعت خطرے میں ہے۔ اس طرح فوڈ سکیورٹی کا مسئلہ بھیانک انداز میں سر اٹھا رہا ہے۔

گلگت بلتستان حکومت کی جانب سے کیے گئے Multiple Indicator Cluster Survey یعنی MICS رپورٹ کے مطابق ضلع کھرمنگ Stunting اور فوڈ سیکیورٹی کے حوالے سے سب سے زیادہ خراب پوزیشن میں ہے اور خدا ناخواستہ موسمیاتی تبدیلی اور برف باری کی کمی یونہی رہی تو سنگینی اور بڑھ جائے گی۔ لہذا حکومت، این جی اوز اور دیگر متعلقہ ریسرچ ادارے مصنوعی گلیشیر گرافٹنگ اور دریاؤں سے نہریں نکال کر یا اپ لفٹ ایریگیشن سے غیر آباد زمینوں کو کاشت کے قابل بنانے میں مشترکہ طور پر کام کر کے بہتری لا سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments