موڑوں والا راستہ


میرا ایک ہم جماعت تھا ’اونچا لامبا قد‘ بانکا سجیلا جوان ’بڑے سے چہرے پہ چھوٹی چھوٹی آنکھیں جو ہنستے ہوئے اور بھی چھوٹی ہو جاتی تھیں بلکہ ان پہ بند ہو جانے کا گمان ہوتا تھا۔ نچلا ہونٹ ایسا پتلا اور تھوڑی سے ملا ہوا کہ اگر داڑھی رکھ لے تو ایسے لگے کہ بال منہ سے نکل رہے ہوں۔ اپنی عمر سے بڑی سوچ رکھنے والا‘ استادوں کا ادب کرنے والا ’خاندانی سیاست کے رموز سمجھنے والا‘ اپنے مستقبل کے بارے سوچنے والا ’یعنی مجموعی طور پر ایک اچھا انسان تھا۔ اس کی پہلی خوبی اس کا ٹیم ورک کا قائل ہونا تھا‘ اس جیسا ٹیم پلیئر ابھی تک نہیں دیکھا۔

دوسری خوبی اس کی قابلیت اور انتظامی صلاحیت تھی جس کے باعث پرنسپل کرنل عبدالرحیم صاحب اس کو نام سے جانتے تھے۔ کرنل صاحب بذات خود نہایت باکمال ’بہت ہی وضع دار‘ نہایت ذہین اور نظم و نسق والی شخصیت تھے۔ سخت سردی کے دنوں میں بھی کرنل صاحب اکثر و بیشتر اسمبلی میں تلاوت خود کرتے اور اس کا انگریزی ترجمہ بھی سناتے اور بہت ہی مختصر سی تقریر جس میں زندگی گزارنے کے راہنما اصول بیان کرتے یا کامیابی کا سفر طے کرنے کے رموز سے روشنائی کرواتے۔

ایسے ہی کسی ٹھٹھرتے دنوں کی دھوپ میں وہ کسی گہری سی سوچ میں مستغرق تھا۔ پوچھنے پہ کچھ خاص جواب بھی نہیں دیا۔ تھوڑی دیر بعد پھر خود ہی ساری رام کتھا سنانے لگا کہ جیسے بھرا بیٹھا تھا کہ کوئی پوچھے اور یہ سب بتا کے اپنے من کا بوجھ ہلکا کر لے۔ اسے اپنے والدین کی ڈھلتی عمر ’والد کی ریٹائرمنٹ‘ بہنوں کی شادی اور اپنے پیروں پہ جلد کھڑے ہونے کی فکر تھی۔

ان سب باتوں کا ابھی خود مجھے بھی ادراک نہیں تھا تو اسے کیا بتاتا یا سمجھاتا ’ماحول کی گھٹن کو کم کرنے کے لئے اس کے مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں پوچھا۔ تو جناب نے یک سطری جواب دینے کی بجائے پوری لسٹ سنا دی۔ کہ سب سے پہلے ڈاکٹر بننا ایک خواب ہے کہ غریبوں کی مدد اس کے علاوہ ممکن نہیں۔ لیکن اگر خدانخواستہ مطلوبہ نمبر نہ آئے اور میرٹ نہ بنا تو ریاضی کو اضافی مضمون رکھیں گے اور نئے سرے سے انجینئرنگ میں طبع آزمائی کی جائے گی۔

اگر اس میں بھی خاطرخواہ کامیابی نہ ملی تو فزکس اور ریاضی کے ساتھ گریجوایشن کی جائے گی اور انہی میں سے کسی ایک مضمون میں ماسٹرز کر لیا جائے گا اور اسی ادارے میں جہاں اب خود پڑھ رہے ہیں ’واپس آ کر پڑھانا شروع کر دیا جائے گا۔ یہ وہ سارا منصوبہ تھا جو وہ اپنے ذہن کے مطابق ترتیب دے چکا تھا۔ شاید اس منصوبہ سازی کے بعد وہ بالکل شانت بھی ہو گیا تھا کہ کسی بھی مرحلے پہ ناکامی کی صورت میں اس کے پاس پہلے سے طے شدہ‘ موڑوں والا راستہ ’موجود تھا۔

اس کا یہ منصوبہ مجھے تب بھی ایک آنکھ نہ بھایا تھا۔ اور اپنی فہم کے مطابق اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ تو کم ہمت لوگوں جیسی باتیں ہیں۔ تب کسی درسی کتاب میں طارق بن زیاد کی کشتیاں جلانے والا واقعہ پڑھا ہوا تھا ’وہ بھی اس کے گوش گزار کیا۔ دیگر مثالوں سے بھی سمجھایا کہ آگے بڑھنے اور کامیابی کے لئے یہ راستہ ٹھیک نہیں‘ کیونکہ اس میں حتمی منزل کا تو پتا ہی نہیں۔ اس دن کے بعد سے اس سے کئی بار اس موضوع ہی بحث ہوئی لیکن اسے نہیں ماننا تھا وہ نہیں مانا۔ آج مدت بعد وہ ہم جماعت یاد آیا تو پتا چلا کہ موصوف اپنے منصوبے میں سو فیصد کامیاب ہو گئے ہیں۔ یعنی کسی مقامی سکول میں پڑھا رہے ہیں۔

یہ اس کی کامیابی ہے۔ کیونکہ اس کے پاس حتمی ہدف ہی یہی تھا جہاں وہ پہنچ گیا۔ غالب گمان ہے کہ اگر اس نے ماسٹرز کے بعد بھی کسی اور پیشے کو اپنے منصوبے میں آخری منزل پہ رکھا ہوتا تو وہ وہاں تک بھی پہنچ جاتا۔

کامیابی کے لئے جو منصوبہ بنایا جاتا ہے یا راستہ اپنایا جاتا ہے اس میں وقتی طور پہ رد و بدل ممکن ہے لیکن پورے سفر میں سمت ہمیشہ منزل ہی کی طرف رکھی جاتی ہے۔ لفظ ’پلان بی‘ کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ راستے کی مشکلات اور کٹھنائیوں کے ڈر سے منزل ہی بدل لی جائے بلکہ ’پلان بی‘ تو منزل تک پہنچنے کے لئے اپنے موجودہ دستیاب وسائل کو دیکھتے ہوئے اپنی راہ کو ازسر نو مرتب کرنے کا نام ہے۔

اسی لئے تو دانائے راز کامیابی کے کارواں کو پانی سے تعبیر کرتے ہیں۔ کیا کوئی پانی کے آگے بند باندھ سکا ہے ’کیا کسی دریا نے کبھی سمندر کا راستہ پوچھا ہے‘ ایسے ہی کامیاب لوگ بھی صرف آگے بڑھنے کا سوچتے ہیں ’اپنی تمام تر صلاحیتیں منزل کو پا لینے کی جستجو میں لگا دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments