بعثت محمدی ﷺ و قرآن کا مقصد


دنیا میں جب بھی انبیاء علیہ السلام نئی شریعت کے ساتھ مبعوث ہوئے ہیں، تو اس کا ایک خاص بنیادی مقصد ہوتا تھا، جس کی تکمیل وقت کا سب سے اہم تقاضا اور اس دور کی سب سے اہم ضرورت ہوتی تھی۔ تاہم اس مقصد کی تکمیل کی خاطر دیگر ثانوی باتیں یا چیزیں بھی ان کے ساتھ مربوط ہو جایا کرتی تھیں، مگر ان کی حیثیت بطور ایک معاون یا شارح کے ہوتی تھیں۔ مگر بعد میں اگر اس شریعت کے شارحین اس مقصد اصلی کو پس پشت ڈال کر، محض ان ثانوی باتوں یا احکامات کی تبلیغ کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیں، تو اس کے سبب کئی نقصانات سامنے آتے ہیں۔ جن میں سب سے پہلے اس اصلی مقصد کا فوت ہوجانا ہے، کہ جس کی خاطر وہ صاحب شریعت نبی علیہ السلام آئے تھے۔ اور جب یہ بنیادی مقصد فوت ہو جائے تو امت ان فیوض اور انعامات سے محروم رہ جاتی ہے، جو خدا نے اس مقصد کی تکمیل پر ان کو عطا کرنے تھے۔

حبیب مکرم، نبی آخر الزمان جناب محمد مصطفیٰ ﷺ بھی جب اس دنیا میں مبعوث ہوئے، تو ان کو ایک شریعت کتاب کی صورت میں عطا کی گئی، اور آپ ﷺ کے ذمہ اس کے تقاضوں کی عملی و قولی تعمیل رکھی گئی۔ جب ہم اس کتاب کو دیکھتے ہیں تو اس میں بعثت محمدی ﷺ کا سب سے اہم مقصد غلبہ دین ہے، جس کو دیگر تمام تقاضوں پر فوقیت حاصل ہے۔ لیکن یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ غلبہ دین سے مراد کیا ہے؟ کیا محض قتال فی سبیل اللہ؟ کیا محض ایک خطہ زمین کا حصول؟

کیا محض ایک مخصوص خاندان کی حکومت؟ کیا محض چند عبادات کی بجا آواری؟ کیا محض کشور کشائی اور مال غنیمت کا حصول؟ اگر ہم ان تقاضوں کی تکمیل کو غلبہ دین کا نام دیں تو یہ محض ایک دھوکہ اور ہماری صریح غلط فہمی ہے، کیونکہ غلبہ دین ان تمام تقاضوں سے مبرا ایک ارفع اور اعلیٰ معاشرے کا قیام ہے، جہاں بلا تفریق رنگ و نسل، قوم اور مذہب سب کے واسطے امن، سلامتی، بھلائی، انصاف اور مساوات کی فراہمی نظر آ رہی ہو۔

لہذا جب ہم اسلام کے ابتدائی دور کے حالات کا مطالعہ کریں تو یہ واضح ہوجاتی ہے، کہ اس جماعت نے اشاعت اسلام کو ہی اپنا مقصد بنایا اور دیگر کسی بات کی طرف مطلق توجہ نہ دی اور نہ ہی اس کے حریص ہوئے۔ اس کی ایک عمدہ مثال حضرت علی رض کی ہے، جب ایک کافر نے لڑائی کے دوران آپ کے منہ پر تھوک دیا تو آپ اسے قتل کرنے سے باز رہے۔ اس شخص نے جب استفسار کیا تو آپ نے فرمایا کہ ابتداء میں تمہیں قتل کرنے کا مقصد ایک دشمن رسول کو مارنا تھا، مگر اب یہ میرا ذاتی انتقام بن جاتا جس کو میں نے گوارا نہ کیا۔ اور یہی وہ ٹھیٹھ عملی نمونہ ہے، جو اس جماعت کا طرہ امتیاز رہا ہے، اور جس نے ذاتی اغراض اور مفادات کی تکمیل کے لئے کبھی بھی اسلام کو استعمال نہ کیا۔

اگر ہم موجودہ دور کے اندر اس بات میں غور کریں کہ آج اسلام کے نام پر جو چورن جگہ جگہ چورن فروش بیچ رہے ہیں، اس سے مقصود کیا غلبہ اسلام ہے یا محض اپنی ذاتی دکانداری کو چمکانا ہے؟ چنانچہ ایک صاحب کی ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا جو چالیس یا پینتالیس منٹ کے دورانیے پر محدود تھی، اور جس میں حضور والا اپنے سامعین کو اصحاب کہف کی جائے پناہ کا نشان اور پتہ بتلانے میں مصروف تھے، کہ وہ کہاں ہے؟ وہ کیسی ہے؟ اس کا حدود اربعہ کیا ہے؟ اور موجودہ وقت میں اب اس عمارت کو کہاں سمجھا اور جانا جائے، غرض محض ان باتوں کے اوپر وہ سامعین کے سامنے چالیس سے پینتالیس منٹ تک اپنا زور بیان صرف کرتے نظر آئے جس کا اسلام سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔

ہمارے سامنے دور نبوی اور خلفاء اربعہ کا زمانہ کتب کی صورت میں محفوظ ہے، اور اس دور کے تمام واقعات بھی اوراق میں بکھرے پڑے ہیں، کیا کبھی کسی نے ان لایعنی چیزوں کی معلومات کو کار ثواب یا مقصد کی تکمیل قرار دیا؟ کیا قرآن میں سورۃ کہف کو بیان کرنے کا مقصد اس غار کی کھوج لگانا بیان کیا گیا ہے یا ان اصحاب کی سیرت کی اتباع کرنے کو کہا گیا ہے؟ کیا اسلام اس مقصد کی خاطر آیا تھا کہ گم شدہ قبور و معبد کے نشانات دریافت کیے جائیں اور ان کو از سر نو تعمیر کر کے یاد ماضی کی سعی کی جاوے؟

اگر اصحاب کہف کی اس غار کو ہم دریافت بھی کر لیں تو کیا اس سے ہمارے ملک کے تمام مسائل حل ہوجائیں گے؟ کیا غلبہ دین کی عملی صورت محض اب یہی باقی رہ گئی ہے کہ تمام امور و مصروفیات کو ترک کر کے اس غار کی کھوج لگائی جائے، کیونکہ غلبہ دین اس کی دریافت کے ساتھ مشروط ہے؟ کیا کسی ضعیف ترین حدیث سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہو، کہ آقا ﷺ نے اپنی امت کو اس غار کے دریافت کرنے کا حکم دیا ہے، اور اس کے دریافت کنندہ کو اجر و ثواب کا مستحق گردانا ہے؟ جب ایسی کوئی بھی بات اس سے منسلک نہیں ہے تو پھر اس کے حدود اربعہ کے متعلق اتنی لمبی تقریر کر کے اور امثلہ کی مدد سے سامعین کو گھما گھما کر اس بات پر لانا کہ یہ غار کہاں ہے؟ کہاں ہو سکتی ہے؟ ایں چہ معنی وارد؟

کیا ہمیں یہ بات بھی نہیں معلوم کہ جب امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رض کے زمانے میں آپ کو یہ اطلاع دی گئی کہ کچھ لوگ باقاعدگی سے حدیبیہ کے میدان میں جاتے ہیں اور وہاں اس مفروضہ درخت کی نہایت عقیدت کے ساتھ زیارت کرتے ہیں، جہاں نبی اکرمﷺ نے جماعت الصحابہ سے حضرت عثمان رض کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے بیعت کی تھی۔ آپ نے فوراً اس درخت کو کٹوانے کا حکم دیا اور ارشاد فرمایا کہ اول یہ وہ درخت ہی نہیں ہے، مگر اب چونکہ یہ لوگوں کی عقیدت کا مرکز اور مقصد سے بیگانگی پیدا کر رہا ہے، لہذا اس کو جڑ سے اکھاڑ دو۔

مگر آج ہمارے موجودہ دور میں جب کہ پوری دنیا ظلم کی چکی میں بری طرح پس رہی ہے اور ظالمانہ معاشی نظام کی وجہ سے امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہو رہا ہے۔ ایسے دور میں ہم اسلام کے سب سے اہم عملی تقاضے کو بھول کر محض ان باتوں کی تبلیغ کو اپنا مقصد بنا لیں جن کا عملی فائدہ کچھ بھی نہیں اور جس سے اس ظلم پہ مبنی نظام پہ کوئی زد نہ پڑے تو کیا اس سے بڑا اسلام کے ساتھ کوئی ظلم ہو سکتا ہے۔

کہیں قبور کی دریافت ہو رہی ہے، کہیں خود ساختہ نظام عبادت کی تبلیغ ہو رہی ہے، کہیں چکنی چپڑی باتیں کر کے انفرادی تزکیہ کے نام پر بیوقوف بنایا جا رہا ہے تو کہیں حوروں کے لالچ میں رالیں ٹپک رہی ہیں۔ کہیں خانقاہ کی عذلت نشینی کو سب سے بڑی عبادت کہا جا رہا ہے تو کہیں خلوت میں کتب بینی کر کے وقت گزارنا سب سے دل پسند مشغلہ مان لیا گیا ہے۔ کہیں زرق برق لناس اور جبوں میں جلوہ آراء ہو کر گرجتی آواز میں لفاظی کا سہارا لیے اپنی ذات کی نمود و نمائش ہو رہی ہے تو کہیں اپنے خود ساختہ نظریات کو زبردستی منوانے کو غلبہ دین سمجھا جا رہا ہے۔

مگر اس بات کو سوچنے اور سمجھنے کے واسطے کوئی تیار نہیں کہ غلبہ دین سے مراد ذاتی اغراض کی تکمیل، کشور کشائی، غلام، لونڈی کی ملکیت یا ایک ﷺ مخصوص خاندان کے واسطے غیر محدود اختیارات کا حصول نہیں بلکہ کل انسانیت کے واسطے ایک ایسا عادلانہ اور فلاحی نظام لانا مقصود ہے، جس کے زیر اثر ایک معاشرہ قائم کیا جاوے جہاں بلا تفریق رنگ، نسل، مذہب اور قوم سب کو ترقی کے یکساں مواقع حاصل ہوں اور جہاں غریب کا بچہ غریب، جاہل کا بچہ جاہل اور مزدور کا بچہ مزدور ہی نہ رہے بلکہ اس کے واسطے ترقی و خوشحالی کے تمام دروازے کھلے ہوں اور وہ کسی بھی مذہب کا ہو اس کی جان، مال اور عزت کی ضمانت موجود ہو اور اس کو بھی ویسا ہی امن، ویسی ہی عزت اور ویسا ہی مرتبہ حاصل ہو جو کہ اسلام کے متبعین کا ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments