سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں


پروفیسر محمد اقبال صاحب کی مثال اس تناور و پھول دار اور پھلدار شجر کی سی ہے جو باد سموم کی تھپیڑوں کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور اس کی خوشبو چارسو پھیل کر ماحول کو معطر کر دیتی ہو۔ وہ علمی و ادبی دنیا میں بہت ہی قدآور شخصیت کے مالک ہیں۔

پروفیسر محمد اقبال صاحب سے میری شناسائی 20 سالوں پر محیط ہے۔ اس کا آغاز اس وقت ہوا جب وہ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج کرک میں بحیثیت پرنسپل تعینات ہوئے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہاں سے ادبی اور ہم نصابی سرگرمیوں کا ذوق رکھنے والے طلباء کی خوش قسمتی شروع ہوئی کیونکہ جہاں پروفیسر محمد اقبال صاحب ہوتے ہیں وہاں سیمینارز، مباحثے، بیت بازی، ڈرامے اور دوسری تفریحی و ہم نصابی سرگرمیاں لازمی ہوتی ہیں۔ ان سے پہلے اس بے آب گیاہ کالج کا یہ حال تھا کہ ہم نے کبھی کالج ہال کا دروازہ سوائے امتحانات کے کھلا نہیں دیکھا اور پھر یہ صورتحال ہو گئی کہ یہ ہال مستقلاً آباد ہو گیا۔

ڈرامیٹک سوسائٹی بن گئی، قاضی جمیل بلڈ سوسائٹی قائم ہوئی اور کالج میگزین لواغر پر کام شروع ہوا۔ 2001 ء بطور سال علامہ اقبال منایا گیا، آل ڈسٹرکٹ تقریری مقابلہ ہوا، مختلف این جی اوز کالج میں سماجی سرگرمیاں اور مباحثے کرنے لگی۔ یوں لگتا تھا جیسے ٹھہرے پانی میں کسی نے پتھر مار کر ہلچل مچا دی ہو۔ یقیناً یہ کرک کالج کا ایک سنہرا دور تھا یہی وجہ ہے کہ میں خود کو پروفیسر محمد اقبال صاحب کا شاگرد مانتا ہوں اور وہ بھی مجھے شاگرد تسلیم کرتے ہیں۔

پروفیسر محمد اقبال صاحب کی بحیثیت پرنسپل پہلی تقریر نے سب کو دم بخود کر دیا اور بحیثیت سال اول کے طالبعلم میرے لیے جو بات بڑی حیران کن تھی وہ یہ کہ ”کرک نے تعلیمی میدان میں تو جھنڈے گاڑ لیے اب مجھے یہاں سے کھیل کے میدان میں ایک شاہد آفریدی بھی چاہیے“ ۔ اس جملے سے پہلے میں نے اساتذہ سے صرف زاہد خشک کی طرح بھاری بھاری نصیحتیں ہی سن رکھی تھیں۔

گورنر افتخار حسین شاہ کرک تشریف لا رہے تھے۔ پروفیسر محمد اقبال صاحب تحصیل گراؤنڈ میں میزبانی کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ اس دوران ہمارے کالج کے طلباء نے روڈ بلاک کر دیا۔ پولیس کی دوڑیں لگ گئیں کیونکہ گورنر کے پہنچنے کا وقت قریب تھا۔ اس وقت کوہاٹ، کرک اور بنوں کی پولیس ڈیوٹی پر موجود تھی۔ ایس پی کرک نے طلباء کو سمجھایا لیکن بات نہیں بن رہی تھی مجبوراً انھوں نے طلباء پر لاٹھی چارج کا حکم دیا۔ اس دوران پروفیسر محمد اقبال صاحب کو پتہ چلا تو انھوں نے اسٹیج سے اعلان کیا کہ اگر میرے کسی طالبعلم کو معمولی خراش تک آئی تو اس کی ذمہ داری ضلعی انتظامیہ پر ہوگی۔

پروفیسر محمد اقبال صاحب اور گورنر کے درمیان دوستانہ مراسم کا سب کو علم تھا لہذا پروفیسر اقبال نے مجھ سمیت آٹھ طلباء کو سرکٹ ہاؤس میں بٹھایا اور گورنر کو جلسہ گاہ میں لے جانے سے پہلے ہماری ملاقات کرائی۔ انھوں نے ہمارے مسائل سنے اور ون ڈے پکنک کے لیے اچھی خاصی رقم تھما دی اور پرنسپل صاحب نے موقع پر اس میں مزید رقم شامل کر کے پورے کالج کا زیبی ڈیم ون ڈے پکنک کا اعلان کر دیا۔

حقیقت یہ ہے کہ جب تک پروفیسر محمد اقبال صاحب کرک کالج میں رہے ہماری صلاحیتوں کو نکھرنے کا موقع ملا۔ مجھے یاد ہے کہ جس دن طلباء کے یہ ہردلعزیز محسن رخصت ہو رہے تھے تو طلباء کی خواہش تھی کہ انھیں قبیلہ خٹک کی روایات کے مطابق شاندار طریقے سے رخصت کیا جائے اور شاندار طریقہ تو سبھی جانتے ہیں کہ اس میں ڈھول و سرنا کا ہونا لازمی ہے۔

اگرچہ سرکاری اداروں میں ڈھول سرنا اور موسیقی پر پابندی تھی اس لیے طلباء نے ڈرتے ڈرتے اس خواہش کا اظہار کیا۔ اقبال صاحب خوش دلی سے راضی ہو گئے اور اس دن ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ہوتے رہے۔ یوں طلباء نے بڑے شاندار طریقے سے محبت و عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے اور پروفیسر محمد اقبال صاحب کو اپنی استعداد کے مطابق خراج عقیدت و تحسین پیش کرتے ہوئے رخصت کیا۔ یقین جانیں کہ وہ طلباء جو اقبال صاحب کو بحیثیت پرنسپل دیکھ چکے ہیں وہ جب تک اس کالج میں رہے ان کی کمی شدت سے محسوس کرتے رہے۔

بظاہر یہاں ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ منقطع ہوا البتہ مختلف طریقوں سے مختلف وقتوں میں ان کا ذکر ہوتا رہا۔ میری تحریر و تقریر میں وہ جلوہ گر ہوتے رہے۔ وقت پر لگا کر اڑتا رہا شب و روز کے اس تسلسل نے مجھے ادب کی ڈگری ہاتھ میں تھما کر شہر فراز میں بحیثیت لیکچرار بھیج دیا۔ یہاں آتے ہی دو شخصیات سے ملنے کی امنگ جاگ اٹھی ان میں ایک پروفیسر محمد اقبال صاحب اور دوسرے سعد اللہ خان لالا تھے۔ پروفیسر محمد اقبال صاحب سے تقریر اور سعد اللہ خان لالا سے تحریر کا رشتہ تھا۔

لالا سے ملاقات کی خواہش پوری نہیں ہوئی اور اس احساس محرومی نے ان پر ایم فل کا ایک ضخیم مقالہ لکھنے پر مجبور کیا البتہ چہکتے مہکتے پروفیسر محمد اقبال صاحب ”جواں ہے پاکستان“ کے اسٹیج پر لفظوں کی مالا پرو رہے تھے اور میں ان کو دیکھ کر حیران ہوا کہ چہرے پر وہی سرخی ہے اور لہجے میں وہی شرینی و گھلاوٹ ابھی تک حاضرین کے کانوں میں رس گھول رہی ہے۔ ایوب صابر آڈیٹوریم کے اس پروگرام کے روح رواں اقبال صاحب ہی تھے۔ میں اور ان کے فرزند ارجمند پروفیسر جاوید اقبال صاحب تقریری مقابلے میں منصفی کے فرائض انجام دے رہے تھے۔

پروفیسر محمد اقبال صاحب نہ صرف ماہر تعلیم، دانشور، عالم و فاضل اردو و فارسی ہیں بلکہ وہ ایک بہترین صدا کار ہیں، میں نے ایسا لب و لہجہ، لفظوں کا چناؤ، لفظوں کی نشست و برخاست، طرز تخاطب، موقع محل کی مناسبت سے صورت واقعہ کی تخلیق اور جملوں کی ادائیگی کسی اور کے ہاں نہیں دیکھی ہے۔ وہ لفظوں سے مخصوص انداز میں کھیلتے ہیں۔ مزاح کے جو حربے ہمارے مزاح نگار تحریر میں استعمال کرتے ہیں انہی حربوں سے اقبال صاحب تقریر میں بطور خاص استفادہ کرتے ہیں اور خاص طور پر رعایت لفظی میں ان کو کمال ملکہ حاصل ہے۔

گورنمنٹ کالج کوہاٹ میں ایک موضوع ”نوجوانوں کی ذمہ داریاں“ کے دوران کہا کہ اقبال نے نوجوانوں کو ستاروں پر کمند ڈالنے کا درس دیا اور نوجوانوں نے یہ کمندیں فیس بک، واٹس اپ اور سوشل میڈیا کے دوسرے ذرائع کو تصرف میں لا کر ڈال دیں اور ”ستاروں سے آگے جہاں اور“ تک پہنچ گئے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ انھیں پرسکون انداز میں بٹھایا جائے تاکہ یہ ہجوم قوم میں تبدیل ہو سکے۔ ایک اور خوبصورت جملہ کوہاٹ یونیورسٹی کی ایک تقریب میں کہا کہ اقبال نے نوجوانوں کو شاہین بننے کا درس دیا اور یہ مسرت شاہین بننا چاہتے ہیں۔

پروفیسر محمد اقبال صاحب کی محفل میں مجھے دو کیفیتوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے ان کو سنتے ہوئے دم بخود ہوجاتا ہوں اور اسے اپنی خوش بختی سمجھتا ہوں لیکن اگر مجھے ان کے سامنے بولنا پڑے تو آزمائش سے دوچار ہوتا ہوں کیونکہ ان کے سامنے بولنا ایسا ہے جیسے چمکتے سورج کے سامنے کسی کے ہاتھ میں دیا تھما دیا جائے۔ مجھے نہیں لگتا کہ آج تک کسی صحافی یا ادیب نے پروفیسر محمد اقبال صاحب کی باتوں کو ان کے انداز بیان کے عین مطابق قلمبند کیا ہو کیونکہ ان کی باتیں بلبلوں کی مانند ہوا میں تحلیل ہوجاتی ہیں اس کو گرفت لینا ممکن نہیں ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں بلکہ ایک آدھ بار ان سے اظہار بھی کرچکا ہوں کہ اگر وہ تحریر پر بھی توجہ دیتے تو یقین کریں کہ ”آواز دوست“ کے مقابلے کی نثر تیار ہو جاتی۔

کوہاٹ کے یہ نثری نغمہ گر صدا کاری و فن خطابت میں انفرادی شان رکھتے ہیں، لفظ ان کی زبان سے پھسلتے جاتے ہیں اور موجود لوگوں کے گرد حصار بناتے ہیں، اشعار جیسے ادا ہونے کے لیے بے چین ہوتے ہیں۔ انھوں نے بلا کا حافظہ پایا ہے مجھے ان کے حافظے پر رشک آتا ہے۔ وہ بہترین نباض ہیں اور جانتے ہیں کہ کون سی محفل کو کس انداز میں آگے لے جانا ہے اس لیے کبھی طنز کا انجیکشن لگاتے ہیں اور کبھی مزاح کی شوگر کوٹڈ گولی دیتے ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے گورنمنٹ گرلز پوسٹ گریجویٹ کالج کوہاٹ میں اردو ادب کی طالبات کے ساتھ نشست میں ان کو سننے کا موقع ملا۔ اس پروگرام کو ایسا رنگ دیا گیا تھا کہ اشفاق احمد کے پروگرام ”زاویہ“ کی یاد تازہ کردی۔ اقبال صاحب ترنگ میں آ کر بلا تھکان شعر و ادب کے رموز و اسرار اور مختلف گتھیاں سلجھا رہے تھے بالکل فراز کے اس مصرعے والی کیفیت تھی :

ع سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جڑتے ہیں

وہ گفتگو میں شیخ سعدی، رومی، غالب، اقبال، فراز، مقبول عامر اور جیسے دوسرے شعرا و ادبا کے اردو و فارسی اقوال و اشعار کا برمحل اور برجستہ استعمال کر رہے تھے جس سے ان کے وسیع مطالعے اور پختہ حافظے کا پتہ صاف چل رہا تھا۔ اس دن میں نے دیکھا کہ جو اساتذہ اور طالبات اقبال صاحب کو پہلی مرتبہ سن رہی تھیں ان کی وہی کیفیت تھی جو آج سے 20 سال پہلے میری تھی۔

یہ سائنس و ٹیکنالوجی کا کا دور ہے اس دور میں کمیونیکیشن کے وسائل بہت زیادہ ہیں لیکن زبانوں میں روزمرہ کا معیار اتنا گر گیا ہے کہ زبان میں ابلاغ تصور الجھ کر رہ گیا ہے لیکن پروفیسر محمد اقبال صاحب پر اس کا چنداں اثر نہیں ہوا ہے۔ وہ آج بھی اپنی وضع داری اور اپنا معیار برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ وہ ہوا کے رخ میں نہیں چلے اور نہ ہی آج کے رنگ میں رنگے۔ حالانکہ نامی گرامی لوگ ہوا کے دوش پر سفر کرنے لگے ہیں کہ انھیں شناخت کے بحران کا سامنا ہے لیکن اقبال صاحب ان کی طرح پھکڑ پن، ابتذال اور سستے لطیفوں کا سہارا نہیں لیتے بلکہ وہ ایک خاص معیار کے مطابق عطا کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ عام دنیا دار لوگ ان کی محفل سے محظوظ نہیں ہوسکتے کیونکہ جس طرح یوسفی اور مختار مسعود سے محظوظ ہونے کے لیے ایک خاص ذوق سلیم کا حامل ہونا ضروری ہے اسی طرح پروفیسر محمد اقبال کی محفل سے فیض یاب ہونے کے لیے بھی علمی و ادبی ذائقہ رکھنا بہت ضروری ہے۔

کوہاٹ کی یہ خوش قسمتی ہے کہ انھیں پروفیسر محمد اقبال جیسی نابغہ روزگار ہستی ملی ہے۔ ان سے بطور خاص تعلیمی اداروں کو استفادہ کرنا چاہیے کیونکہ اقبال صاحب نئی اور بے ہنگم نسل کو اپنی تہذیب و ثقافت اور روایات کے ساتھ کنیکٹ کر سکتے ہیں اور ان کی توانائیوں کو مثبت راہ میں خرچ کر سکتے ہیں۔ حکومتی سطح پر بھی پروفیسر محمد اقبال صاحب کی بھرپور حوصلہ افزائی ہونی چاہیے کیونکہ ایسی شخصیات بار بار پیدا نہیں ہوتیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments