دھرمی دھرنے اور بے ہنر بے روزگار مایوس پاکستانی نوجوان مرد


وزیراعظم کے عہدے میں ہی وفا نہیں ہے۔ ایک پیج سے شروع کرتے ہیں اور اسی کو پھاڑ دیتے ہیں۔ پچھلے پینتیس برسوں میں جس کو بھی وزیراعظم بنایا اسی نے بے وفائی کی۔ اپنے محسنوں کو بھول جاتے ہیں اور خود کو وزیراعظم سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔

محمد خان جونیجو صاحب مرحوم کی مثال سے شروع کرتے ہیں۔ مرد مومن مرد حق جنرل ضیا الحق نے پیر صاحب پگارو کے ساتھ مل کر ایک نہایت ہی فرمان بردار بندے کو پتہ نہیں کہاں سے اٹھا کر پاکستان کا وزیراعظم بنا دیا۔ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیا الحق کی توقعات کے خلاف جونیجو صاحب نے وزیراعظم بننے کی کوشش شروع کر دی۔ ظاہر ہے یہ اپنے محسن کے ساتھ شدید بے وفائی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جونیجو صاحب کو نوکری سے نکالنا پڑا۔

فائدہ یہ تھا کہ اس وقت جنرل صاحب خود بطور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر موجود تھے تو کسی دھرنے وغیرہ کی ضرورت نہیں پڑی۔ مرد مومن مرد حق نے اپنے عزیز ہم وطنو کو بتایا کہ ملک میں کرپشن بہت پھیل گئی ہے۔ اسلام اور پاکستان کو خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔ لیکن آپ فکر نہ کریں میں نے مسئلے کا حل نکال لیا ہے۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو صاحب کو برطرف کر کے ایک دفعہ پھر اسلام اور پاکستان کو بچا لیا ہے۔ شکر ہے کہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جیسی ہستی موجود تھی۔ وزیراعظم کو برطرف کرنے کے لیے کسی دھرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ ایک تقریر ہی کافی تھی۔

یہ سبق بہرحال مزید پکا ہو گیا کہ وزیراعظم اور سولین حکومت بے وفا اور احسان فراموش ہوتے ہیں اس لیے انہیں جتنا کمزور اور مجبور رکھا جائے ملکی ترقی اور سلامتی کے لیے اتنا ہی اچھا ہے۔ جنرل ضیا الحق بظاہر تو فوت ہو چکے تھے لیکن قوم کی جہادی تربیت اور آئین کی آٹھویں ترمیم نے ان کی کمی محسوس ہونے نہیں دی۔

اگلے دس برسوں کے دوران میں غلام اسحاق خان اور فاروق لغاری نے تین سویلین حکومتوں کو کرپشن کا الزام لگا کر برطرف کیا۔ آٹھویں ترمیم اور ایک وفادار صدر کی موجودگی میں حکومت کو برطرف کرنے کے لیے ایک تقریر ہی کافی ہوتی تھی۔ دھرنوں کی ضرورت ہی نہ تھی اس لیے رواج بھی نہیں تھا۔

تین حکومتیں گرانے کے بعد الیکشن میں ایک مرتبہ پھر وہی غلطی ہوئی جو انیس صد ستر کی الیکشن میں اس وقت کے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر آغا محمد یحیی خان سے ہوئی تھی۔ درست حساب نہیں لگایا تھا کہ کس سیاسی پارٹی کو اسمبلی میں کتنی سیٹیں ملیں گی۔ اس مرتبہ مسلم لیگ کو قومی اسمبلی میں بہت زیادہ سیٹیں مل گئیں۔ نواز شریف کے پاس بھاری اکثریت آ گئی اور اس نے آٹھویں ترمیم ختم کر کے صدر صاحب کے اسمبلی توڑنے کے اختیار کو ہی ختم کر دیا۔

لیکن شکر ہے کہ اب پچھلے مارشل لاء کو ختم ہوئے بھی گیارہ سال گزر چکے تھے۔ یعنی اٹھاسی میں جنرل ضیا الحق ہوائی حادثے میں ہلاک ہوئے اور اب انیس صد ننانوے آ چکا تھا۔ یاد رہے کہ پاکستان میں دو مارشل لاؤں کے درمیان یہ سب سے لمبا وقفہ تھا۔ جنرل ایوب خان نے پہلا مارشل لاء بھی پاکستان بننے کے گیارہ سال بعد ہی لگایا گیا تھا۔ اس لیے اس دفعہ جب وزیراعظم نواز شریف نے وزیراعظم بننے کی کوشش کی تو براہ راست مارشل لاء ہی لگا دیا گیا۔

جنرل مشرف کا نو سالہ فوجی دور ختم ہوا تو ایک ہائبرڈ دور کا آغاز ہوا۔ پیپلز پارٹی نے پانچ سال پورے تو کیے لیکن اس بے بس حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ بھی پانچ سال پورے کرنا ہی ٹھہرا۔ اگلے الیکشن ہوئے اور نواز شریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے۔ نواز شریف قابل اعتبار نہ تھے۔ پہلے دو مرتبہ وہ بے وفائی کر چکے تھے۔ اب آٹھویں ترمیم کی سہولت بھی ختم ہو چکی تھی اور میرے عزیز ہم وطنو والی تقریر کے لیے بھی بین الاقوامی حالات سازگار نہیں تھے۔ اس لیے نواز شریف کو راہ راست پر رکھنے کے لیے دھرنوں کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ دو کزنوں نے گیٹ نمبر چار کے قابل فخر اعلانچی اور طوطا فال نکالنے کے ماہر کے سیاست دان کے ساتھ مل کر نواز شریف کی حکومت کو کچے دھاگے کے ساتھ لٹکائے رکھا۔

سیاسی دھرنوں کا ایک لمبا دور ختم ہوا تو واضح ہو گیا کہ وہ دونوں کزن اب مزید ”دھرنے“ مہیا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ سیاسی دھرنوں کے بعد دھرمی دھرنوں کو بھی آزمانا پڑا۔ حکومت نے پانچ سال جیسے تیسے وینٹی لیٹر پر ہی پورے کیے۔ حکومتوں کو دھرمی دھرنوں کے ذریعے کمزور رکھنے کا طریقہ کار بہت مفید اور اتنا ہی خطرناک ثابت ہوا۔ ریاست نے اسلامی جہادی پالنے والی غلطی دہرا کر ایک مرتبہ پھر اپنے پاؤں پر شدید کلہاڑا چلا دیا۔

دھرمی دھرنے کو طاقت ور اور مزید مہلک بنانے کے لیے اس فورس کو ختم نبوت اور ناموس رسالت کے محافظ کے خیالی روحانی عہدے پر فائز کیا گیا۔ یہ عہدہ ہمارے سوچنے سمجھنے کے فن سے عاری، بے ہنر، بے روزگار، ہر طرف سے مایوس ہر پاکستانی نوجوان مرد کے لیے بہت موزوں تھا۔ اسے ہیرو بننے کا موقع ہاتھ آ گیا۔ وہ نوجوان اب اس عہدے پر فائز ہو چکا ہے۔

کل اس دھرمی دھرنا ہتھیار کو استعمال کرنے والے ناعاقبت اندیش آج خود اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ جو فصل بیجی تھی وہی کاٹنی ہے۔ اب ہمارے سوچنے سمجھنے کے فن سے عاری، بے ہنر، بے روزگار، ہر طرف سے مایوس پاکستانی نوجوان مرد کو ختم نبوت اور ناموس رسالت کے محافظ کے خیالی روحانی عہدے سے اتارنا ممکن نہیں۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments