عمران، عثمان اور عارف


بہت آسان ہوتا ہے پہاڑی پر بنے بنگلے کے سرسبز باغ میں چائے پیتے ہوئے کہنا کہ ”گھبرانا نہیں ہے“ ۔ یہ جملہ کہنے والے نے نہ ہی کبھی پبلک بس میں سفر کیا ہو گا، نہ ہی کوئی اپنی جیب سے بجلی کا بل ادا کیا ہو گا اور نہ ہی کبھی آٹا گھی دال چاول شکر لینے کسی دکان پر گئے ہوں گے۔

عمران، عثمان اور عارف جیسے جھوٹے اور منافق ابھی بھی فرما رہے ہیں کہ مہنگائی کہاں ہے۔ ہاں واقعی، مہنگائی تو اس وقت محسوس ہو گی جب آپ اپنی جیب سے اپنا خرچہ چلائیں گے۔ جب وزیروں کے بجلی کے بل، فون کے بل، سفری اخراجات، بچوں کو اسکول چھوڑنے والی گاڑی، بیگمات کی شاپنگ کے اخراجات، پولیس سیکیورٹی اور اسی طرح کے کئی اخراجات عوام کے ٹیکسوں سے ادا ہوتے ہوں، ان کو کہاں مہنگائی لگے گی۔ ان اقتدار میں رہنے والے لوگوں کو تو قومی اور صوبائی اسمبلی کی کینٹین میں بھی غالباً 30 روپے کی چائے اور 100 روپے کی بریانی کم قیمت میں ملتی ہے۔ یہ بیچارے اتنے غریب ہیں کہ چائے اور بریانی بھی پوری قیمت دے کر نہیں خرید سکتے اور اگر عوام مہنگائی پر آواز اٹھائیں تو ہنستے ہیں۔

ان آنکھوں کا ہنسنا بھی کیا
جن آنکھوں میں پانی نہ ہو

عمران تو ضمیر فروش نکلا، انسان صرف ایک کرسی کے لئے اپنے ضمیر اور اصولوں کا سودا بھی کر سکتا ہے۔ جو شخص عمران کو دبئی سے نئی لینڈ کروزر لے کر تحفہ دے گا، وہ چینی پر چار ارب کی سبسڈی بھی لے گا۔ جو آپ کے زماں پارک کے گھر کی تزئین و آرائش کرے گا، وہ لاہور کی زمینوں پر قبضہ بھی کرے گا۔ جو آپ کے جلسے، DJ Butt، ممبران کی خرید و فروخت، عمرے کے اخراجات اور چارٹر طیارے کے پیسے ادا کرے گا، وہ پیٹرول، گندم، چینی کے پھیر میں، عوام کی جیب سے اربوں روپیہ نکلوائے گا اور عمران کو پتا ہو گا لیکن وہ کچھ بول نہیں سکے گا کیونکہ کچھ کہنے کا حق تم نے اسی دن کھو دیا تھا جب تم نے ان لوگوں سے اوپر بیان کیے گئے کام کروائے تھے اور مراعات وصول کی تھیں۔

تم کھلاڑی تھے، کھلاڑی ہی نکلے اور کھلاڑی ہی رہو گے۔ تم اپنی کرسی کا کھیل کھیلتے رہے اور کسی غریب کی دوا چار ہزار سے سولہ ہزار تک پہنچ گئی۔ تم ہیلی کاپٹروں میں اڑتے رہے اور غریبوں کی سواری کا ٹکٹ 20 روپے سے 100 روپے پہنچ گیا لیکن تم تقریریں ہی کرتے رہے۔

اور وہ عارف جس کو 14 اگست والے دن ایک گھنٹے کی دھوپ سینکنے کے کروڑوں روپے ملتے ہیں، فرماتے ہیں کہ دنیا کے تمام لیڈرز کو چاہیے کہ وہ عمران کے مرید بن جائیں۔ تم جرمنی کی انجیلا مرکل سے کہہ رہے ہو کہ وہ عمران جیسے منافق، جھوٹے، کرپٹ اور ضمیر فروش کی مرید بن جائے؟ جرمنی کی وہ لیڈر جس نے جرمنی کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا، جو تقریباً 16 سال وزیر اعظم رہنے کے بعد اب بھی دو کمرے کے فلیٹ میں رہتی ہے۔ جو رات کو واشنگ مشین میں کپڑے دھوتی ہے کیونکہ رات کو بجلی سستی ہوتی ہے اور بجلی کا بل کم آتا ہے۔

تم اس انجیلا مرکل کو مرید بننے کا کہہ رہے ہو جس کا شوہر جب وہ وزیر اعظم تھی تب بھی پروفیسر تھا اور اتنے سالوں کے بعد اب بھی پروفیسر ہی ہے۔ نہ وہ یونیورسٹی کا ڈین بنا نہ وائس چانسلر اور نہ ہی اس نے کوئی اپنی نجی یونیورسٹی کھولی۔ انجیلا مرکل صبح اٹھ کر پہلے اپنا اور اپنے شوہر کا خود ناشتہ بناتی ہے اور برتن دھونے کے بعد خود گاڑی چلاتی ہوئی اپنے دفتر جاتی ہے۔ ایسے ہوتے ہیں ریاست مدینہ کے حکمراں لیکن آپ قصیدے پڑھتے رہیں اور غلامی کرتے رہیں۔ ابھی تو فقیر نے صرف جرمنی کی مثال دی ہے ورنہ نیوزی لینڈ کی جیسنڈا آرڈن سے لے کر میں کس کس ملک کے صدر اور وزیراعظم کا ذکر کروں۔ لیکن ہماری قسمت میں یہ عمران، عثمان اور عارف ہی لکھے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments