سیٹھی صاحب کے لڈو اور نوے دن کا انقلاب


کسی بھی دائمی اور مایوس مریض کی زندگی کے المیوں میں سے ایک المیہ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ کبھی ایک ڈاکٹر کے دروازے پر جاتا ہے کہ میرا علاج کرو اور پھر وہاں سے مایوس ہو کر دوسرے کے کلینک میں جا کر فیس بھرتا ہے۔ کبھی حکیموں کے مطب کے چکر لگاتا ہے اور کبھی کسی ہومیو پیتھ کو دکھاتا ہے کہ میرا کچھ علاج کرو۔ کوئی جاننے والا یہ پٹی پڑھاتا ہے کہ علاج چھوڑو اور کسی پیر سے تعویذ لو۔ یہ بیچارا کسی پیر صاحب کے قدموں میں جا کر بیٹھ جاتا ہے۔ ہر ملنے والا مفت کے مشوروں سے نوازتا ہے۔ ایک شخص آ کر کہتا ہے کہ دودھ میں انڈا ڈال کر پیو افاقہ ہو گا۔ دوسرا کہتا ہے کہ ہر گز نہیں تم انڈے میں دودھ ڈال کر پیو تو شفا ہو گی۔ بیچارا بیمار باری باری دونوں پر عمل کرتا ہے۔

کچھ یہی حالت اس وقت وطن عزیز کی ہے۔ ہر سیاستدان، ہر تبصرہ نگار، ہر صحافی اپنے اپنے مجرب نسخوں سے قوم کو مفت میں نواز رہا ہے۔ ابھی ”نیا دور“ کے یوٹیوب چینل پر ایک پروگرام دیکھا۔ اس میں اس پروگرام کے معمول کے معزز شرکاء کے علاوہ مکرم نجم سیٹھی صاحب بھی شریک گفتگو تھے۔ گفتگو تو کم ہوئی مکرم نجم سیٹھی صاحب نے دو ٹوک انداز میں قوم کو بتا دیا کہ اب قوم تھکی ہوئی ہے۔ اور اس کے بعد قوم کو جو نسخہ بتایا وہ بھی بالکل ”تھکا“ ہوا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ جب جنرل ضیاء صاحب نے بھٹو صاحب کا تختہ الٹا تو آدھا پاکستان لڈو کھا رہا تھا اور آدھا پاکستان سوگ کی حالت میں تھا لیکن اب جو کچھ ہو گا اس کے بعد پورا پاکستان لڈو کھائے گا۔

اس کے بعد انہوں نے اپنے مجرب نسخہ کی تفصیلات پیش فرمائیں۔ انہوں نے کہا کہ فوج تین ماہ کے لئے آئے گی اور سپریم کورٹ سے کہے گی کہ ہم تو صرف تین ماہ کے لئے آئے ہیں۔ آپ اپنی نگرانی میں منصفانہ انتخابات کرائیں اور پھر ہم چلے جائیں گے۔ اور اگر سپریم کورٹ نہیں بھی مانے گی تو کئی جج اس پر راضی ہو جائیں گے۔ [سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر سپریم کورٹ نہیں مانے گی تو کیا وہ جج کرائے پر لائے جائیں گے؟ ] پھر انہوں نے پریشان قوم کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ خیال غلط ہے کہ اس سے مسائل ہوں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ فارمولے موجود ہیں کسی قسم کی کوئی دقت نہیں ہو گی۔ اور جتنے مسائل اب ہیں، ان سے زیادہ کیا مسائل ہوں گے؟ اور یہ خیال غلط ہے کہ یہ ہو جائے گا اور وہ ہو جائے گا۔ کچھ نہیں ہو گا۔ فوج اپنے لئے قانونی تحفظ لے لے اور پھر واپس چلی جائے۔

اس کے بعد انہوں نے ”خدانخواستہ“ کا لفظ پہلی مرتبہ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو اس صورت میں منصفانہ انتخابات کرانے کے بعد فوج کو کہا جائے گا کہ آپ واپس اپنی جگہ پر چلے جائیں۔ اس کے بعد انہوں نے یہ کہانی آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا کہ اسٹیبلشمنٹ کی اب اصلاح ہو گئی ہے اور وہ سمجھ گئے ہیں کہ اب ہم بدنام ہو گئے ہیں۔ لیکن یہ بات بالکل قابل قبول نہیں کہ ایک جنرل جو چودھویں نمبر پر ہے، وہ اگلے سال چوتھے نمبر پر ہو گا اور پھر اسے سب سے آگے لایا جائے گا۔ اس طرح تو بہت گڑ بڑ ہو جائے گی۔

ہم سب اس قسم کی معصومانہ تقریریں پہلے بھی کئی مرتبہ سن چکے ہیں۔ پچاس کی دہائی سے پوری قوم کو باور کرایا جا رہا ہے کہ ہمارے سیاستدان نا اہل ہیں۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اگر ہمارے سیاستدان نا اہل ہیں تو جنرل یحییٰ خان صاحب اور جنرل ضیاء صاحب جیسے جوہر قابل جنہیں سیاست کبھی چھو کر بھی نہیں گزری تھی کتنے اہل ثابت ہوئے تھے؟ کیا مشرقی پاکستان کسی سولین حکومت کے دور میں علیحدہ ہوا تھا؟

سیٹھی صاحب اس بات پر بہت غمزدہ تھے کہ اگر فوج میں سینیارٹی ملحوظ نظر نہ رکھی جائے تو بہت گڑ بڑ ہو جاتی ہے۔ لیکن جب غیر آئینی اقدامات اٹھا کر قومی اسمبلی کو بر طرف کیا جاتا ہے۔ اور نا اہل وزراء اعظم کو جیل بھجوایا جاتا ہے تو کیا کوئی گڑ بڑ نہیں ہوتی؟ کیا جب اس بہانے سے ضیاء صاحب نے عنان اقتدار سنبھالی تھی تو اس کے بعد کیا ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگی تھیں۔ کیا جب پوری قوم کے بنیادی حقوق بھی معطل کر لئے جاتے ہیں تو کوئی گڑ بڑ نہیں ہوتی؟

اور حیرت اس بات پر ہے کہ سیٹھی صاحب نے کس معصومیت سے تین ماہ یعنی نوے دن کا ذکر فرمایا اور کہا کہ اس کے بعد اقتدار پر قبضہ کرنے والے گھر واپس چلے جائیں گے۔ قوم کیا بھول گئی ہے کہ پہلے بھی ایک صاحب نے نوے دن کے منصفانہ عمل کے بعد گھر جانے کا اعلان کیا تھا۔ پھر دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بدلتے گئے اور دس سال بعد ضیاء صاحب کی ظلمت نے جان چھوڑی۔

کہا تو یحییٰ خان صاحب نے بھی یہی تھا کہ وہ اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کر کے ریٹائر ہوجائیں گے۔ لیکن پھر وہ سازشوں میں اتنے مصروف رہے کہ انہیں ملک کے دفاع کی بھی فرصت نہ ملی اور ان کی عدیم الفرصتی کے باعث مشرقی پاکستان علیحدہ ہو گیا۔ اس وقت ایوان صدر میں خواتین کی کتنی متواتر آمد تھی یہ تفصیلات حمود الرحمن کیشن رپورٹ میں پڑھی جا سکتی ہیں۔ البتہ یحییٰ خان صاحب کو جنگ لڑنے والے جرنیلوں سے بات کرنے کی فرصت نہیں مل رہی تھی۔ اس کے بعد بھی وہ اقتدار چھوڑنے کو تیار نہیں تھے یہاں تک کہ پاک فضائیہ کے ہوائی جہازوں نے ایوان صدر کے اوپر اتنی نیچے پرواز کی کہ ایوان صدر کی دیواریں اور آغا جانی کا عزم لرزنے لگا۔

اور جنرل مشرف صاحب نے جس کثر نفسی سے مقررہ مدت کے بعد اقتدار چھوڑنے کا ارادہ ظاہر فرمایا تھا وہ تو ابھی کل کی ہی بات لگتی ہے۔ اور نجم سیٹھی صاحب نے کمال سادگی صاحب ذکر فرمایا کہ اب کی بار تو پورا پاکستان لڈو کھائے گا۔ ہاں ہمیں یاد ہے کہ جب بھی پاکستان میں مارشل لگا تو اگلے روز اخبارات میں یہ خبریں ضرور شائع ہوتی تھیں یا شائع کرائی جاتی تھیں کہ عوام رقص کرتے ہوئے سڑکوں پر آ گئے اور لوگوں نے مٹھائیاں بانٹیں۔ سیٹھی صاحب یہ مٹھائیاں اب قوم کے گلے میں پھنس گئی ہیں اور اب پاکستان کے عوام رقص کر کر کے نڈھال ہو گئے ہیں۔ اب ان پرانے نسخوں کو ڈائنو سارز کی طرح کسی عجائب گھر میں رکھوا دینا چاہیے۔ اس دور میں کسی محبوب کی ابرو کے اشارے پر پیش کیے جانے والے ایسے نسخوں کی کوئی جگہ نہیں۔

سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے
تیرے صنم کدوں کے بت ہو گئے پرانے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments