عید میلاد النبی اور ہمارا رویہ


عید میلاد النبی کا دن مسلمانوں کی زندگی کا مقدس ترین دن ہے۔ یوں تو ہم ہر سال عید میلاد النبی بڑے زور و شور اور بظاہر عقیدت و احترام سے مناتے ہیں ہیں بظاہر لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ ہم عقیدت کا نام تو استعمال کرتے ہیں لیکن عقیدت رہنے نہیں دیتے۔ عید میلاد النبی کی بہت تیاریاں کی جاتی ہیں۔ جلسے جلوس منعقد ہوتے ہیں۔ ریلیاں نکلتی ہیں۔ شہر شہر قریہ قریہ سجایا جاتا ہے۔ جلوس نکلتے ہیں، میلاد کی محفلیں ہوتی ہیں۔ ہم اہل سیالکوٹ بھی نبی سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ بگھیوں پر، اونٹوں اور گھوڑوں پر جلوس نکلتا ہے۔ پیدل والوں کے قافلے الگ ہوتے ہیں۔ جو مختلف روڈ سے گزرتے ہیں۔ شہر کا مرکزی جلوس کالج روڈ سے نکلتا ہے جس کا اختتام امام صاحب پہ جا کر ہوتا ہے۔

لوگ درود و سلام پڑھتے ہوئے گزرتے ہیں۔ اور اس کے بعد ایک اور بڑا جلوس نکلتا ہے۔ یہ جلوس تھوڑا مختلف ہوتا ہے۔ اور میرے خیال میں یہ سیالکوٹ کے علاوہ کہیں سے نہیں نکلتا۔ یہ جلوس بینڈ باجوں اور ڈرمر والوں کا ہوتا ہے۔ اس میں ڈفلی ڈھول اور بین بجتے ہیں۔ بینوں پہ مختلف دھنیں بجائی جاتی ہیں۔ اس میں بچے اور نوجوان حصہ لیتے ہیں۔ اس جلوس میں بچے دیکھنے والے ہوتے ہیں جو ماشاءاللہ جلوس کی جان ہوتے ہیں۔ ننھے ننھے ہاتھوں سے سٹک گھماتے بہت پیارے لگتے ہیں۔

سارا دن جلوس میں چلتے رہنے اور سٹک گھمانے کے باوجود تھکے ہوئے بالکل نہیں لگتے۔ یہ جلوس اہل سیالکوٹ کی محبت کا انوکھا انداز ہے۔ کہ اس جلوس کی تیاری میں لڑکے پورے دو ماہ ساری ساری رات پریکٹس کرتے ہیں۔ ہر کوئی اپنی بیسٹ پرفارمنس دینا چاہتا ہے۔ جلوس نکلنے سے ایک دن پہلے تمام گروپس میں مقابلہ ہوتا ہے۔ بہترین کارکردگی دکھانے پر اول دوئم اور سوئم آنے والوں کو انعام ملتے ہیں۔ مین ایونٹ کے لیے خاص ڈیزائنر ڈریس تیار کیے جاتے ہیں۔

ہر گروپ کا ڈریس کوڈ دوسرے گروپ سے مختلف ہوتا ہے۔ ہیئر سٹائل سے لے کر جوتوں تک ہر چیز میں انفرادیت ہوتی ہے۔ یہ سب وہ نبی سے محبت کے اظہار کے لیے کرتے ہیں۔ اور اس میں محبت یقینی طور پہ ہوتی ہے، تبھی تو اتنی محنت اور لگن سے تیاری کی جاتی ہے۔ لیکن یقین کریں مجھے اس میں کبھی عقیدت نظر نہیں آئی۔ ہو سکتا ہے یہ میری کوتاہ بینی ہو لیکن اس میں عقیدت کے سوا سب کچھ ملتا ہے، جیسا کہ فیشن، بدتہذیبی اور عدم برداشت۔

جلوس مرکزی راستے پر گامزن ہوتا ہے، اور جس راستے سے بینڈ گزر رہے ہوں وہاں کھڑے لڑکے مذاق میں اگر بینڈ والوں کو کوئی جملہ کہہ دیں، ان پر کوئی سپرے کر دیں، پارہ لگا دیں یا کوئی بھی تھوڑی بہت چھیڑ چھاڑ کر لیں تو لڑائی شروع ہوجاتی ہے۔ ذرا سے مذاق پر گالیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ ایک لڑتا ہے تو اس کہ حمایت میں دس لڑکے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اسے دیکھ کر دوسرے گروپ کی طرف سے بیس لڑکے اور آ جاتے ہیں۔ گالی گلوچ سے ہاتھا پائی اور ہاتھا پائی سے گولی تک کا سفر منٹوں میں طے ہوتا ہے۔

ہر سال جلوس نکلتا ہے، ہر سال لڑائی ہوتی ہے ہر سال گولیاں چلتی ہیں، ہر سال کوئی نہ کوئی قتل ہوتا ہے۔ مجھے لگتا ہے عید میلاد النبی کے جلوس کے ساتھ ایک دو قتل ہونا بھی اس تہوار کی روایت بنتا جا رہا ہے۔ کہ حسب روایت اس سال بھی گولیاں چلیں، کچھ زخمی ہوئے، کوئی قتل ہوا۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ کیا یہ جلوس عدم برداشت کے مظاہرے کے لیے نکلتا ہے۔ مذاق برداشت نہیں کرنا تو سڑکوں پہ آنے، جلوس نکالنے کی ضرورت نہیں۔

جب چار لوگوں نے اکٹھے ہو کر ایک خوبصورت تہوار کو برباد کرنا ہے تو بہتر ہے تہوار کو منایا نہ جائے۔ یہ تہوار نبی کی ولادت کا جشن منانے کا ہوتا ہے نا کہ عدم برداشت کا مظاہرہ کر کے دکھانے کا، نبی کی سنت پر عمل نہ کرنے کا۔ اس جلوس میں مجھے نبی کی سنت کبھی دکھائی نہیں دی۔ کہ نبی کی سنت عدم برداشت ہرگز نہیں۔ میرے آقا نے برداشت اور صبر کا درس دیا۔ سنت بہت پیاری ہے۔ میٹھی، خوبصورت، صبر، حیا والی ہے۔ تو جس معاشرے کے لوگوں میں برداشت ہی نہیں تو وہاں کے لوگوں کا کام نہیں کہ وہ آقا کی ولادت کا جشن منائیں۔ کہ خوشی کے موقع کو دکھ میں بدل دینا کہاں کی عقلمندی ہے۔

اس دن کو منانے کا اصل مقصد یاد رکھنا چاہیے۔ نبی کے نام پر جان دینے والے نبی کی سنت پر جان نہیں لے سکتے۔ بدلہ لینے کی بجائے نبی کا شیوہ معافی تھا لیکن ہم بدلہ ہی لینا چاہتے ہیں بلکہ بدلے کے بعد مزید بدلے کی خواہش ہوتی ہے۔ نبی کی سنت قرآن و حدیث پر عمل ہے لیکن کوئی اس پر عمل نہیں کرتا۔ خواتین کو پردے کا خصوصی حکم ہے لیکن بے پردگی عام ہوتی جا رہی ہے۔ اس سال ملتان میں حور کا ماڈل پیش کر کے جس طرح مذہب اور سنت کا مذاق اڑایا گیا وہ قابل مذمت ہے۔ خدشہ ہے کہ اگلے سال ایسی حوروں میں مزید اضافہ ہو گا۔ اور پھر حوروں کے خواہشمند مومنین کو جب ارضی حوریں نظر آئیں گی تو وہ آسمانی حوروں کے انتظار میں کہاں رہیں گے۔ وہ تو انھی زمینی حوروں پہ ٹوٹ پڑیں گے۔ درود پاک کی محافل ہوں، جلسہ سیرت النبی ہو، نعتیہ مشاعرہ ہو تو بات سمجھ آتی ہے۔ لیکن عید میلاد کے نام پر جو بدعتیں جنم لے رہی ہیں وہ قابل تشویش ہیں۔ کچھ عادات بد ہوتی ہیں، جو بعد میں بدعت کا روپ دھارتی ہیں اور پھر مذہب کا لازمی حصہ سمجھی جانی شروع ہوجاتی ہیں۔ لہذا ایسی بد عادات کو ترک کریں کہ بدعت جنم نہ لے سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments