کہانی میں آئٹم سونگ ہونا چاہیے


یکسانیت ہمیشہ بور کر دیتی ہے زندگی میں جب تک کچھ نیا نا ہو تب تک زندگی جینے کا بھی مزہ نہیں آتا۔ اسی طرح سیاست میں بھی اگر یکسانیت کا تاثر آنے لگے تو سیاست سے بھی دل اچاٹ ہوجاتا ہے۔ یہی کچھ ان دنوں ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔ ملکی سیاسی سطح پر جو کچھ ہو رہا ہے سب کچھ دیکھا دیکھا سا لگ رہا ہے۔ کسی وقت تو سیاسی حالات دیکھ کر دل کرتا ہے کہ یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے گنگنایا جائے۔ مطلب یہ کہ کچھ بھی نیا نہیں ہے سب کچھ وہی ہے جو گزشتہ کئی سالوں سے چل رہا ہے۔ کپتان ہے کہ کنٹینر سے اترنے کا نام نہیں لے رہا۔ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ حکومت کے خلاف احتجاجی ویڈیوز بھی کپتان کی چلائی جا رہی ہیں۔ کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ کپتان بمقابلہ کپتان چل رہا ہے۔

مہنگائی، بے روزگاری، امن وامان کی ناقص صورتحال، کرپشن کا عروج اور ہر جائز کام کے لیے سرعام رشوت کی طلبی، بنیادی ضروریات زندگی کو ترستی ہوئی عوام کے زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے اور آوے ہی آوے اور جاوے ہی جاوے کے پرجوش نعروں سے ماحول پر یکسانیت چھائی ہوئی ہے۔ حد ہو گئی ہے گزشتہ کئی سالوں سے ایک ہی نعرے لگائے جا رہے ہیں اگر بالفرض حکمرانوں کو شرم نہیں آئی تو عوام ہی کچھ خیال کرے اور کم سے کم مطالبے تو نئے کرے ایک ہی بوسیدہ نعرے کہ روٹی دو، روزگار دو۔ یہ ستم ظریف مانگتے اتنے ناز سے ہیں جیسے ان کو مانگنے سے مل جائے گا۔

کون دیتا ہے اور کیوں دے گا ان کروڑوں سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے بدنصیبوں کو۔ کیا ملکی خزانہ انہی عیاشیوں کے لیے بھرا جاتا ہے کہ جب کوئی ضرورت مند چیخ و پکار کرے تو اس کی ضرورتیں اور حاجتیں پوری کردی جائیں۔ ہرگز ملکی خزانہ ان کاموں کے لیے نہیں ہوتا۔ راہ چلتے لوگوں کو کیا علم کہ ملک کیسے چلائے جاتے ہیں اور کس طرح کے اخراجات کرنے پڑتے ہیں۔ اگر عوام کو ہی فائدہ پہنچانا ہے تو پھر حکومت کرنے کا کیا فائدہ لہذا خاطر جمع رکھیں اور اچھے وقت کا انتظار کریں فی الوقت تو حاکم ذاتی مصروفیات کے سبب ننگے پاؤں فوٹو سیشن کرانے میں مصروف ہیں۔

مقام حیرت ہے کہ مسیحا کروڑوں لوگوں کو پریشان حال چھوڑ کر ذاتی معاملات کے سدھار کے لیے چکر لگانے میں مصروف ہیں۔ خدا جانے کیا سوچ کر کس چکر میں ہیں کیا اس طرح جان خلاصی ہو جائے گی۔ پچھلی بار بھی کالعدم تحریک کا لاہور چوک یتیم خانہ پر دھرنا شروع ہوا تو بات چیت کی بجائے طاقت کا استعمال کیا گیا کئی بے گناہ مارے گئے اور اس کے فوری بعد کپتان حجاز مقدس کی طرف روانہ ہو گئے اور اس بار بھی جب وہی جماعت کیے گئے تحریری وعدے پر عمل درآمد کے لیے احتجاج کر رہی ہے تو بجائے معاملات کو سنبھالنے کے ایک بار پھر رخ حجاز مقدس کی طرف ہے۔

کتنی یکسانیت ہے کہ نون لیگ کے دور میں بھی اسی طرح سیاسی مذہبی جماعتیں سراپا احتجاج تھیں جس کے نتیجے میں ماڈل ٹاؤن کا سانحہ رونما ہوا۔ اس وقت موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کپتان بھی احتجاج میں شامل ہو گیا۔ یہ تو کپتان شکر کرے کہ موجودہ سیاسی بحران میں کسی سیاسی جماعت نے پختہ سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے کالعدم ٹی ایل پی کے مارچ میں شرکت کی حامی نہیں بھری وگرنہ جو کام دو سال بعد ہونا ہے وہ اسی ماہ میں ہوجاتا۔ یہ شاید اس لیے بھی ہے کہ ملکی سیاسی جماعتیں کپتان کو پورا موقع دے رہی ہیں کہ کپتان اپنی کارکردگی دکھا سکے اور اس کو مظلوم بننے کا موقع نہیں ملنا چاہیے۔ اور کپتان ہے کہ مظلوم بننے کے لیے ہر حربہ آزما رہا ہے۔

سول سپریمیسی کے نام پر نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا کہ شاید کوئی راہ نکل آئے مگر کچھ نہیں ہوا اور نا ہی ہو گا۔ پانی پلوں کے نیچے سے گزرنا ہے آج نہیں تو کل ہو گا وہی جو چوہدری چاہے گا اور اس گاؤں کے چوہدری کو کون نہیں جانتا۔ جبکہ چھ بلین ڈالر کے ترقیاتی پیکج کی خاطر نہ بکنے والے نہ جھکنے والے کپتان کی معاشی ٹیم آئی ایم ایف کے سامنے لیٹی ہوئی ہے مگر وہ نہیں مان رہے۔ بدمعاش ساہو کاروں کو علم نہیں کہ کپتان کتنا مقبول لیڈر ہے اب تو فواد چوہدری بھی مان گیا ہے اور کہتا ہے کہ اگر کپتان دہلی میں جلسہ کرے تو مودی سے زیادہ بڑا جلسہ کرے گا۔ خیر ہو فواد چوہدری کی کہ اس بیان کے بعد تو یہ جنت سے بھی آگے نکل گیا۔

اگر دنیا کی بات کریں تو صاحبو ذرا غور کرو کہ نون لیگ کی حکومت کو سیاسی مذہبی جماعت کی طرف سے دباؤ کا سامنا تھا کپتان کی سربراہی میں اپوزیشن سڑکوں پر ہو رہی تھی، ابتر حالات کے سبب عوام میں غم و غصہ بڑھ رہا تھا۔ بالکل یہی کچھ کپتان کے ساتھ ہو رہا ہے۔ گویا ایک ہی کہانی کو دوبارہ دہرایا جا رہا ہے بس کرداروں کے نام مختلف ہیں وگرنہ حالات اور کم وبیش انجام ایک ہی جیسا ہے۔ اب ایک ہی جیسی کہانی کی فلم کو کوئی کب تک دیکھے۔

وہ فلم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جس کے اگلے منظر کا شائقین کو اندازہ ہو ایسی فلم سے بوریت پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ ستم در ستم یہ کہ فلم کے کرداروں کی ناقص اداکاری سے بھی شائقین کا غصہ آسمان کو چھونے لگتا ہے کہ ٹکٹ کے پیسے ضائع ہو گئے وقت کا ضیاع ہوا۔ اب اس ضمن میں گلہ تو نہیں کر سکتے بس کہانی لکھنے والوں سے اپیل کرنی ہے کہ قبلہ ابتدا ہی میں بتا دیا تھا کہ یہ فلم اپنے اسکرپٹ اور کاسٹ کے سبب باکس آفس پر بری طرح فلاپ ہوگی لہذا اگر فلم چلانی ہے تو روایتی کہانی کی بجائے کچھ مصالحہ ڈالیں تاکہ شائقین کی دلچسپی بڑھ سکے اور اسی بہانے فلم کچھ دن مزید پردہ سکرین پر موجود رہے، تاکہ کچھ نا کچھ بزنس کر جائے۔ اگر زیادہ کچھ نہیں کر سکتے تو کہانی میں ایک آدھا آئٹم سونگ ہی ڈال دیں۔ اور اگر آئٹم سونگ بارش میں فلمایا گیا تو ہل ہل پئے جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments