فن کار کو شاہکار کی ضرورت نہیں


گو کہ انسانی ذہن فطرتی طور پر یکسانیت کو قبول نہیں کرتا، لیکن غیر فطری معاشرے اسے یکسانیت کی اطاعت پر مجبور کیے رکھتے ہیں۔ تخلیق کار سماج کا وہ فرد ہے جو یکسانیت کو قبول نہیں کرتا۔ وہ اپنی روح کے تنفس کے لئے خیال و شعور کی آزاد فضا خود تخلیق کرتا ہے۔ اس کی ذہانت زندگی کے تنوع کی کھوج میں رہتی ہے۔ نئی چیزوں کو جاننے اور کھوجنے کی حرص اس کی روح میں گھلی ملی ہوتی ہے۔ اس کے سامنے کائنات کی بکھری ہوئی ہر شے وہیں ہے جیسی صدیوں پہلے تھی۔

وہ ہزاروں سالوں سے ممکن ہے کہ، ہر لمحے ایک سی ہی رہی ہو گی لیکن پھر بھی وہ ہر لمحے اپنے باطنی معنوں میں نئی ہوتی ہے۔ اس کے اندر کے اسی بھید یا اس کے نئے پن کو تخلیق کار مسخر کرنے کی جستجو کرتا ہے۔ ایک عام اور خاص تخلیق کار میں فرق یہی ہے کہ عام تخلیق کار اس کے بھید سے ٹکرا کر پلٹ جاتا ہے اور سچا اور ان تھک تخلیق کار اس کے اندر اتر کر اس بھید کے سبھی رنگ، سبھی جذبے، سبھی درد اور آزار اپنے اندر جذب کرتا ہے۔

شاعر، مصور، رقاص، موسیقار فنکار یہ سب تمام عمر انسانی زندگی کی بے رونقی، بے مروتی و بے حوصلگی کو رونق، خوشی، مسرت اور بلند حوصلگی سے بدل دینے میں جتے رہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ دنیا کی یک رنگی کو زندگی کی تابانی کا متنوع حسن و جمال عطا کرسکیں۔ مختلف فنون جیسے رقص، سنگ تراشی، فن تعمیر، موسیقی، ادب شاعری یہ سب فن کار کے شعور و لاشعور، ادراک، فکر، احساس، جذبے اور عمل کے وسیلے سے جنم لیتے ہیں۔ فن کار کا احساس تجسس و حیرت، تحقیقی علم، جدت کا معیار اسے محض زندہ رہنے کے عمل سے بہت دور بہت آگے لے جاتے ہیں۔ سائنس دان اپنے مشاہدے اور علم سے خارجی دنیا کو دریافت کرتا ہے تو فن کار اپنے شعور و آگہی کی بنا پر داخلی دنیا کا سفر کرتا ہے اور اس سفر کے مشاہدے و تجربے یا اپنے قلبی وارداتی علم کی بنا پر خیال کو مسخر کرتا ہے اس کے مختلف مطالب و مفاہیم کو جدت عطا کرتا ہے۔

اس کے سچے اور کھرے فن کا آغاز وہاں سے ہوتا ہے جہاں اس کے تھک جانے اور تھک کر رک جانے کا احتمال ہونے لگے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں تکلیف تو بڑھنے لگتی ہے۔ لیکن تخلیق اپنے مکمل قلب و روح کے ساتھ جنم کی طلب گار ہوتی ہے۔ وہاں امتحان ہے اعصاب کا ، برداشت کا اور حوصلے کا ۔ بالکل جیسے ایک جینن یا خلیہ بنا کسی شکل و ہیئت کے، جسمانی اعضاء رگ و ریشے کے، رحم کے مخفی خانوں سے ہوتے ہوئے گربھ بن کر ٹھہر تو جاتا ہے لیکن اسے پانی و مٹی کے امتزاج سے گوندھ کر نایاب بننے میں اک وقت درکار ہوتا ہے۔

جیسے جیسے وہ پھلتا پھولتا ہے تکلیف اور برداشت کا امتحان بڑھنے لگتا ہے۔ اس کا بدن گو کہ مکمل ہیئت سے دکھائی دینے بھی لگے۔ آنکھیں، ناک، بال، پاؤں سبھی واضح اور مکمل ہوں لیکن روح کی مکمل تخلیق کے لئے گربھ کا امتحان درکار ہوتا ہے۔ اسی امتحان کی تکلیف اور درد سے وجود کے اندر توانائی کا ایک انوکھا مخفی سرچشمہ پھوٹتا ہے جو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ، اسے للکارتے ہوئے اور اس کے ہاتھوں سے نوچی ہوئی زندگی کو پھر سے چھین لینے تک ساتھ نبھاتا ہے۔

ٹل جانے والی موت کی آخری جھپکی کی آخری ٹیس ہی ہے جسے سہ لینے کے بعد وہ اگلے لمحے نئی تخلیق کی سرخوشی میں بدل جاتی ہے۔ اسی تخلیق کو ایک تخلیق کا ر کا شاہکار، شہ پارہ یا ماسٹر پیس کہا جاتا ہے۔ کسی فن کار کے فن کی انتہا۔ ایسی انتہا جو اسے اس کے فن کے بلند ترین درجے پر فائز کردینے کا باعث بنے۔ جس سے اس کی حقیقی شناخت جنم لے۔ جو رنگ، نسل، جنس، علاقے یا زبان کی محتاج نہ ہو۔ جو انسان کی ان تھک رفتار کی عکاس ہو۔

جو خود سے برتے گئے بے رحم و بے مروت لمحوں کا انعام بن کر جنم لے۔ جہاں ذات کی وہ انتہا دکھائی دے کہ کہیں ذات ہی دکھائی نہ دے۔ اس فن پارے کی تخلیق خوب محنت اور ریاضت کی ترجمان تو دکھائی دے لیکن معاشی منفعت اور شہرت کی ہوس کا دور دور تک اس سے لینا دینا نہ ہو۔ شاہکار انسان کی شعوری اور لاشعوری دونوں طرح کی کاوشوں کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ عظیم موسیقار و قوال نصرت فتح علی خان کا نیند کی غنودگی میں لازوال دھنوں کا تشکیل دینا یا ایڈیسن کے شعوری طور پر انجام دیے نو ہزار نو سو نناوے ناکام تجربات کے بعد ہزارویں تجربے میں کامیاب ہو جانا یا پھر نیوٹن کا محض بنچ پر بیٹھے ہوئے درخت سے گرتے سیب سے نیا قانون دریافت کرنا مختلف طرح کی دریافتیں ہیں۔ جنہیں ایک جیسا نہیں سمجھا جا سکتا۔

اس سلسلے میں وقت کا تعین بھی کیا جانا بے معنی ہے۔ لیونارڈو ڈاؤنچی کی مونا لیزا کو تخلیق ہوتے چار سال لگے جب کہ پاولو کوہلو کا شاہکار ناول الکیمسٹ صرف دو ہفتوں کی مدت میں تخلیق کا روپ پا گیا۔ مشتاق احمد یوسفی کو آب گم لکھنے میں بارہ سال لگے اور اشفاق احمد نے گڈریا جی پی اوکی سیڑھیوں پر بیٹھ کر لکھ ڈالا۔

شاہکار ہمیشہ محبت اور درد کے بوسے سے جنم لیتے ہیں۔ انہیں تخلیق ہونے کے لئے فن اور عشق دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک ایسا عشق جو ”حسن کوزہ گر“ کی طرح ”جہاں زاد“ کے عشق میں مبتلا ہو کر ہجر کے طویل لمحوں میں باطن کی صدا سن سکے۔ گو کہ ایسا بھی ضروری نہیں کہ ہر وصال سے مانند وصال آب گل کی طرح کچھ اچھوتی تخلیق ممکن ہو سکے۔ لیکن ایسا ممکن ہے کہ محبوب کے حسن و جمال کا سیل دروں تخلیق کار کے ہاتھوں سے تخلیق پائے تو اس وہ محبوب ہی کا حسن جمال بن جائے۔

کچھ اس طور کہ لافانی سانچے میں ہی ڈھل جائے۔ ایسا شاہکار کوزہ گر کی انگلیوں کی پوروں میں جذب ہوئے حسن یار کے خد و خال کے پیمائشی پیمانے سے ہی تخلیق نہیں پاتے فن کی ایسی تجلی پانے کے لئے نجانے فن کار کے پسینے کے کتنے قطرے اور غم کا لہو ٹپکاتے کیسے بے شمار آنسو جذب ہوئے ہوں گے۔ آنکھوں نے باطن تک پہنچنے کے لئے درد کے کتنی ٹوٹتی رگوں کے درد کا مزہ چکھا ہو گا۔ کیسی کیسی تشنگیوں کے آزار سہے اور ٹالے ہوں گے یہ تو وہ کوزہ گر ہی جانتا ہے جس نے اپنے فن کی معراج کا سفر طے کیا۔

ایسا بھی ہوتا ہے کہ جہاں فن کی انتہا ختم ہونے لگے وہاں فن کی بربادی شروع ہو جائے۔ یا یوں کہنا چاہیے کہ بربادی تو نظر بد کی طرح اسی وقت گھات لگائے بیٹھتی ہے جب دنیا کی نظریں فن کار کے اس فن پارے سے ٹکراتی ہیں۔ پہلی شاہکار تخلیق اپنے فن کار کو پھر کسی شاہکار کی تیاری کی طرف مائل تو کر سکتی ہے لیکن ایسا بہت کم ہی ممکن ہو پاتا ہے کہ پھر سے وہ فن کار اسی معیار اور پائے کا فن پارہ تخلیق کر سکے۔ اس کے پیچھے پہلی کامیابی کو کھو دینے کا ڈر اور خوف بھی لاحق ہوتا ہے اور نئے کام کی کامیابی کی بے یقینی بھی۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ تلاش کا سفر رک جاتا ہے۔ کامیابی کا غرور یا گھمنڈ سر چڑھ جاتا ہے۔ اور فن کار مطمئن ہو جاتا ہے۔ فن کار کے فن کا زوال وہاں شروع ہو جاتا ہے جب وہ اپنے کام سے طمانیت حاصل کرنے لگے۔ طمانیت بے چینی کو نگل لیتی ہے، سفر کو آگے بڑھنے نہیں دیتی۔ وہ اسے ثبات اور استقلال کی کیفیت میں گم کر دیتی ہے۔ یہ بے کیفی کی کیفیت ہے۔ مستقل ایک ہی بہاؤ میں بہنے کی حالت۔ زندگی میں فن کو اس کی موت سے بچانے کے لئے نامعلوم کی طرف مستقل اک سفر جاری رکھنا پڑتا ہے۔ یہی وہ کیفیت ہے جس میں ہر لمحہ نامعلوم کی تشفی کے لئے معلوم کا راستہ استوار ہوتا ہے۔

ایک سچا تخلیق کار کبھی بھی اپنے فن سے ”ماسٹر پیس“ تراشنے کی حرص میں مبتلا نہیں ہوتا۔ اس کے اندر کے اضطراب، ذہنی کرب اسے ہر لمحے نئے ساحلوں کی دریافت کی طرف مائل رکھے ہوئے ہوتی ہے۔ کب کوئی نیا جزیرہ دریافت ہو جائے اسے خود بھی پتہ نہیں چلتا۔ اس کی خواہش کبھی آسودگی کی تمنا میں مبتلا نہیں رہتی۔ اگر ایسا ہو جائے تو فن کی خوبصورتی کی موت واقع ہو جانے کا خدشہ جنم لے سکتا ہے۔ دنیا کے ہر شاہکار کی اہمیت وقت کے ساتھ ساتھ ماند پڑ سکتی ہے گو کہ اس کی قدر ثابت رہتی ہے لیکن نئے شاہکار پرانوں کی یاد کو محو کرنے کا کام دے سکتے ہیں۔ لیکن تاریخ کے اوراق اسے اس کی آب و تاب سے اپنے سینے پر سجائے رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فنکار مر بھی جائے تو بھی اس کے فن کا شاہکار یا ماسٹر پیس کبھی نہیں مرتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments