امتی باعث رسوائی پیغمبر ﷺ ہیں


”بت شکن اٹھ گئے، باقی جو رہے بت گر ہیں“

ربیع الاول کا بابرکت اور مبارک ماہ چل رہا ہے۔ بارہ ربیع الاول کی خوشی ہر کسی نے اپنے ایمان، اپنی محبت، اپنی استطاعت اور اپنی حیثیت کے حساب سے منائی۔ عشق محمد مصطفے کی شمع کسی منافق یا کاذب انسان کے دل میں روشن نہیں ہو سکتی۔ کوئی بدنیت اور ریا کار انسان اس نور سے ہدایت نہیں پا سکتا۔ کیونکہ یہ شمع ہدایت مطہر دل اور مصفی روح کے اندر عشق الہی اور عشق رسول کا اجالا بکھیرنے کے لیے ہوا کرتی ہے۔ اس عشق کا چراغ جس دل میں لو دیتا ہو وہ جلد یا بدیر قرب الہی کی راہ پر چلنے لگتا ہے اور اسی چراغ کے سائے میں اسے دینی اور دنیاوی تمام فیوض حاصل ہو جاتے ہیں۔

کتاب رحمان میں خدا تعالی نے اپنے نبی کی طرف سے امت کو کیا پیغام دلوایا؟ فرمایا

(اے رسول) کہہ دیجیئے اگر تم اللہ کی محبت رکھتے ہو تو میری فرمانبرداری کرو تاکہ تم سے اللہ محبت کرے اور تمہارے گناہ بخشے، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (سورہ آل عمران)

یعنی خدا کی رضا حاصل کرنے کے لیے اتباع رسول ﷺ سے بڑھ کر اور کوئی طریقہ، کوئی وظیفہ، کوئی ٹونا ٹوٹکا کارگر نہیں۔

اصل بات جس نے مجھے یہ سب سے لکھنے پر مجبور کیا۔ سوشل میڈیا پر لاتعداد بار وصول ہونے ”ملتانی حور کی وڈیو“ اور ”شیطان سے زبردستی عید میلاد النبی ﷺ کی خوشی منوائی گئی“ ہیں۔

ان شیئر ہونے والی وڈیوز نے بتایا کہ ہم دراصل کس طرف جا رہے ہیں۔ ہمارا مطمح نظر عشق رسول ﷺ ہر گز نہیں بلکہ محض کھیل تماشا ہے۔ عوام کو روحانیت کا لالی پاپ دے کر شرک کا زہریلا مشروب پلایا جا رہا ہے۔

ان سب جہالت کی باتوں کا عید میلاد النبی ﷺ سے کیا تعلق ہے۔ جو عوام ان سب میں شامل ہے کیا ان کو سیرت النبی ﷺ کا کوئی ایک واقعہ بھی نہیں معلوم۔

ایک جوان لڑکی کو خوب بناؤ سنگھار کروا کے بے پردہ اسے غیر مردوں کے ہجوم میں لا کھڑا کرتے ہیں اور حور کا خطاب دے دیتے ہیں۔

کیا ان میں سے کوئی ایک شخص بھی ”حور“ کا معنی سمجھتا ہے؟

حور ایک بہشتی عورت، حیا دار عورت، جسے اس کے مالک کے سوا کسی نہ دیکھا ہو گا نہ چھوا ہو گا۔ اس کی خوبصورتی کو دیکھنے والا صرف وہی ہو گا جسے وہ بطور انعام ملے گی۔ قرآن میں بھی جابجا حور کی تعریف سے مراد ایک پاکیزہ حیا دار خوبصورت عورت لی گئی تو یہ کون سی حور ہے جو بنا پردہ کے اتنا بناؤ سنگھار کر کے غیر مردوں پر اپنی زینت ظاہر کر رہی ہے۔ حور کا تصور تو خیر جنت کے حوالے سے ہے اور عام عورت کی تعریف سے بھی بہت اوپر ہے۔

دنیا میں بھی عورت کو اسلام پردے کا حکم دیتا یہ وہ بھی اس لیے تاکہ ان کو پہچان لیا جائے اور اذیت نہ پہنچائی جائے۔ یہ کون سے مسلمان ہیں جو خود ایک لڑکی کو بے پردہ کر کے نا محرموں کے سامنے لے آئے۔ اور حور ہی بنا ڈالا۔ خیر جس طرح کے کارنامے روز اس ملک میں انجام پا رہے ہیں۔ اس سے بھی بڑے بڑے واقعات کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ہمارے محترم وزیر اعظم صاحب اسے ریاست مدینہ بنانا چاہتے ہیں یا ریاست مکہ یہ تو وہ بہتر جانتے ہوں گے لیکن جس طرف عوام چل پڑی ہے وہ ریاست قبل از اسلام والی لگ رہی ہے۔ کیونکہ بعد از اسلام تو ایسی کسی بدعت ایسی کسی فرقہ بازی کسی کھیل تماشے کی ہر گز گنجائش تھی نہ ضرورت۔

حدیث النبوی ﷺ ہے کہ
جس نے ہمارے اس معاملے (دین) میں کوئی نئی چیز گھڑی تو وہ مردود ہوگی۔
(بخاری و مسلم )
سورہ مائدہ میں اللہ تعالی نے صاف صاف فرما دیا ہے کہ ترجمہ:

ہم نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا، اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی، اور تمہارے لئے اسلام کو بطور دین پسند کیا۔

تو اس کے بعد اس طرح کے کاموں کو اسلام کی طرف منسوب کرنا اور خاص کر اس پاک ہستی، رحمتہ اللعالمین، خاتم النبین ﷺ کی یوم پیدائش کی خوشی منانے کے لیے ایسی بدعات ایسی غیر اسلامی حرکات کرنا کیا اس عظیم الشان ہستی کو خوشی پہنچانا ہے؟ خدارا! کوئی تو اس پر بات کرے آواز اٹھائے۔ کیا اسلام کے نام پر دوبارہ اپنی نسلوں کو اسی بت پرستی اسی شرک اسی بدعت میں ڈالنا چاہتے ہیں جن سے آں حضرت ﷺ نکالنے آئے تھے۔ اس ہجوم سے اگر پوچھا جائے کہ انہیں کتنی احادیث زبانی یاد ہیں یا اس مبارک ماہ میں کتنی بار درود شریف پڑھا ہے ان کے جوابات ہر گز بھی تسلی بخش نہیں ہوں گے ۔

اس پر سوال اٹھ سکتا ہے کہ آپ کسی کے دل کی حالت سے کیا واقف یا یہ کہ آپ کو بدظنی کرنے کا حق کس نے دیا بالکل درست یہ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جو دل سے درود شریف پڑھتا ہو جسے احادیث کا علم ہو وہ اس طرح کے کاموں میں مشغول ہو ہی نہیں سکتا۔ میلاد کی خوشی منانی ہے تو ان تعلیمات پر عمل کیجئے۔ جو اس مبارک و مطہر ہستی نے اس دنیا میں آ کر دیں۔ وہ تعلیمات، وہ شریعت جو رہتی دنیا تک قائم رہنے والی ہے۔ جن کو شرک چھو کر بھی نہیں گزرتا۔ اسلام کی تو بنیاد ہی عقیدہ توحید پر ہے۔ تو یہ جلوس نکالنے والے، کیک کاٹنے والے، لائٹوں اور سجاوٹ پر ہزاروں روپیہ خرچ کرنے والے کس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں؟

کہیں حور کا دیدار کروایا جا رہا ہے۔ کہیں کسی کو شیطان بنا کر نچوا کر اس سے زبردستی میلاد النبی کی خوشی منوائی جا رہی ہے۔ کیا اتنے بڑے ہجوم میں صرف خالی سر ہیں کسی ایک سر میں بھی دماغ نامی کوئی چیز نہیں ہے۔ کوئی عقل و فہم نہیں رکھتا۔ کسی کو اسلامی تعلیمات

سے آگاہی نہیں؟ کون لوگ ہیں یہ جو خود کو عاشق رسول کہتے ہیں اور عشق کے ع سے واقف نہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اقلیتوں کو ان کے عقیدے کے مطابق عمل کرنے پر بھی توہین رسالت کے الزام لگوا کر انکے قتل کے فتوی جاری کرتے ہیں۔ ان پر پرچے کٹواتے ہیں۔ اب یہ جو شرک کا بازار گرم ہے اس پر کیوں چپ ہیں۔ لیکن سب چپ رہیں گے۔ اسلام کا نام لگا کر جو بدعات بھی کرو جو بھی ناجائز کام کرو وہ سب جائز جو بولے اسے بھی باغی اور ملحد قرار دے کر قتل کے فتوی لگا دو کہ ایسے فتوی تو ہر وقت ہماری جیب میں پڑے ہوتے۔

روحانیت کا ڈھول پیٹنے والے پہلے انسانیت تو پیدا کیجیے۔ روحانیت کی منزل انسانیت کی راہ پہ چلنے والوں کو ہی ملا کرتی ہے۔ یہ ہندوانہ رسوم کی پیروی کرنے کی بجائے ان کی طرح جیسے وہ گنپتی بابا اور دیگر بتوں کو ساتھ لے کر جلوس بنا کر نکلتے ہیں اور اصل تعلیم کو چھوڑ کر بس صرف دکھاوے کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ اس پر عمل پیرا ہیں۔

یہ ایسے بڑے بڑے جلوسوں سے وہ خدا کا محبوب راضی نہیں ہو وہ راضی ہو گا شرک سے بچنے پر وہ راضی ہو گا اللہ کا قرب پانے والوں سے، وہ راضی ہو گا قرآنی تعلیمات کو اپنی روزمرہ زندگی میں رائج کرنے سے، وہ راضی ہو گا فرقہ بازی سے باز آنے سے، وہ راضی ہو گا ہر دوسرے مذیب اور عقیدے کا بھی احترام کرنے سے، وہ راضی ہو گا حقوق العباد پورے کرنے والے سے، وہ راضی ہو گا بھوکے کی بھوک مٹانے والے سے، وہ راضی ہو گا انسانیت کی قدر کرنے والے سے۔ اسے راضی کرنا ہے تو یہ اتنا پیسہ فضولیات پر لٹانے سے اچھا ہے اس پر دن رات درود بھیجا جائے ان پیسوں سے کسی غریب کے گھر راشن دلوا دیا جائے۔ اتنی فضول بتیاں جلانے سے بہتر اپنے قلب میں عشق مصطفے کی آگ روشن کی جائے اور اس رقم سے کسی بیوہ کسی یتیم کے گھر کا بجلی کا بل دے دیا جائے۔

ان بدعات سے پیچھا چھڑانے میں ہی ہماری عافیت ہے۔ ورنہ یہ آگ پھیلے گی اور قریہ قریہ بستی بستی پہنچے گی اور سب جلا کر خاکستر کر دے گی۔ ایسے غیر اسلامی کاموں سے روحانیت تو کیا حاصل ہو گی جو تھوڑا بہت ایمان باقی ہے اس کی جگہ بھی شرک لے لے گا۔ اور نہ یہ قوم باہم رہے گی اور نہ ہی مذہب پر عمل کرنے والی بلکہ صرف مذہب کے نام لڑنے والی اور فرقے وارانہ جنگیں لڑ لڑ کر ہلکان ہو کر اپنی وجہ تخلیق کو بھلا بیٹھے گی۔ اور ہر ایک اپنا اپنا بت تراشے اسے پوجتا پھرے گا۔ خدا جلد از جلد کوئی بت شکن بھیج دے تا یہ خود ساختہ رسوم و بدعات کے بت پاش پاش ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments