روحانی دنیا



تین سال پہلے برسراقتدار آنے والی تبدیلی سرکار قوم کے لئے سونامی کا باعث بن چکی ہے۔ جس نے ہر طرف تباہی ہی تباہی پھیر کر رکھ دی ہے۔ اشیاء ضروریہ کے دام آسمانوں سے باتیں کر رہے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کے بڑھتے ہوئے ریٹس کی بات ہی نہ کریں۔ وقت کا حکمران بھی یہ بات اچھی طرح جانتا ہے۔ کہ گورننس کا حال بڑا پتلا ہے۔ اسی لئے آئے روز کوئی نہ کوئی تماشا کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ تاکہ فارغ بیٹھے پاکستانی نوجوانوں کی توجہ مہنگائی اور بے روزگاری سے ہٹائی جا سکے۔

کئی دن سے وطن عزیز میں نوٹیفکیشن، تعیناتی اور جنوں بھوتوں کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار قومی سلامتی کے ایک اہم ترین ادارے کے سربراہ کی تعیناتی ڈانواں ڈول دکھائی دے رہی ہے۔ وقت کا حاکم ستاروں کی چال کے ہاتھوں بے بس ہو چکا ہے۔ کیوں کہ اس کو ایک خاص مقام سے گرین سگنل ہی نہیں مل رہا۔ تاکہ وہ سمری منظور کرسکے۔

ایک سوچ کے مطابق حاکم وقت اپنے آپ پر سلیکٹڈ اور جعلی ہونے کا لیبل کب تک چسپاں رہنے دیتا۔ اس نے سوچا ہو گا۔ اپنے آپ کو با اختیار وزیراعظم ثابت کرنے کا اس سے نادر موقع نہیں ملے گا۔ سو وہ ڈٹ چکا ہے۔ ساری خدائی اس کو سمجھا سمجھا کر تھک چکی ہے۔ مگر وہ ٹس سے مس ہی نہیں ہو رہا۔ آثار یہی دکھائی دے رہے ہیں۔ کہ وہ کسی نہ کسی طرح معاملے کو نومبر تک کھینچ کر لے جائے گا۔

چند یوٹیوبرز کے مطابق وزیراعظم چونکہ ملک سنبھال نہیں پا رہا۔ لہذا وہ سیاسی شہادت کا خواہش مند ہے۔ مگر بالادست طبقے نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیل رکھیں۔ وہ کسی اچھے وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی کو بھی نقصان نہ پہنچے۔

بقول نصرت جاوید یوٹیوب پر بیٹھے ہوئے ذہن سازوں کی دیہاڑیاں لگ چکی ہیں۔ تھوک کے حساب سے مال بیچا جا رہا ہے۔ دو ہفتوں سے ایسے ایسے ویلاگز سننے کو مل رہے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ جیسے ویلاگ کرنے والے قومی سلامتی کی میٹنگ یا کابینہ کے اجلاس سے اٹھ کر آئے ہوں۔ یا وہ کور کمانڈر کانفرنس کی کوریج میں مصروف رہے ہوں۔ یہ یوٹیوب چینل نہیں بلکہ افواہوں کی فیکٹریاں ہیں۔ جو دھڑا دھڑ چل رہی ہیں۔ جنہیں دیکھ اور سن کر دماغ ماؤف ہوجاتا ہے۔ ان کا مقصد صرف پیسے کمانا ہے۔ سو وہ کما رہے ہیں۔ اور لگے ہاتھوں قومی ادارے کی سبکی کا سامان بھی پیدا کر رہے ہیں۔

دوسری جانب ایک خاتون اینکر اور صحافی کو سرکاری ٹرولنگ ایجنسی کے ہاتھوں رسوائی کی مہم کا سامنا بھی ہے۔ موصوفہ کے ایک کالم نے اقتدار کے ایوانوں میں آگ سی بھڑکا دی ہے۔ انہوں نے اپنے کالم میں کالے بکروں، کبوتروں اور پتلیوں کا ذکر جو کر دیا تھا۔ محترمہ کا اشارہ کسی خاص شخصیت کی طرف ہرگز نہیں تھا۔ اس میں برا ماننے والی کیا بات تھی۔ کیوں کہ پورے پاکستان میں بڑے پہنچے ہوئے لوگوں کا جم غفیر موجود ہے۔ کہیں چوکوں میں کبوتر فال نکالنے والے جوتشی دکان سجائے بیٹھے ہیں۔ تو کہیں بنگالی بابے قسمت کا حال بتانے کے لئے گلی محلوں میں موجود ہیں۔ صرف دونوں کی فیس میں فرق ہوتا ہے۔ طوطے والے سے دس بیس روپے کے عوض بھی خوشخبری مل جاتی ہے۔ جب کہ بنگالی بابا جیسے پہنچے ہوئے بزرگ کام کے سینکڑوں اور ہزاروں سے کم فیس نہیں لیتے۔

روحانیت کسی کی ذاتی میراث بھی نہیں اور نہ ہی کوئی رجسٹرڈ فرم کہ اس پر کچھ لکھنا اور بولنا ممنوع ہو۔ اس کے علاوہ جملہ حقوق بھی روحانیت کے کسی خاص مرکز کے لئے محفوظ نہیں ہیں۔ لہذا سرکار کی طرف سے خاتون کے کالم کو لے کر واویلا مچانے کا کوئی خاص جواز نہیں دکھائی دیتا۔ محترمہ نے کوئی ایسی نامناسب بات بھی نہیں لکھی تھی۔ جو قابل گرفت ہو۔ انہوں نے صرف حکمرانوں کو اصلاح احوال کی تجویز پیش کی تھی۔

ماضی کے حکمران بھی گدی نشینوں اور جانے پہچانے روحانی مراکز سے فیض حاصل کرتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے ان پر تنقید بھی کی جاتی تھی۔ مگر انہوں نے اس چیز کا کبھی برا نہیں منایا۔ کیوں کہ وہ جمہوری ذہن والے لوگ تھے۔ وہ چھوٹی موٹی باتوں کو برداشت کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ لیکن موجودہ حکمران اور ان کے ہمنوا ذرہ برابر تنقید سن کر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ اور اپنی ٹرولنگ ایجنسیوں کے ذریعے فریق مخالف کو رگڑ ڈالتے ہیں۔

جہاں تک نئے ڈی جی کی تعیناتی کی سمری کی منظوری کا تعلق ہے۔ وہ 23 اکتوبر تک متوقع تھا۔ مگر کالعدم تحریک لبیک والوں کے دھرنے اور مارچ کی وجہ سے معاملہ مزید لٹک سکتا ہے۔ حالانکہ وزیراعظم نامزد ڈی جی کا انٹرویو بھی لے چکے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments