زمان خان اور فرخندہ بخاری: التوا میں رکھی زندگیاں


خواب دیکھنے والے اور خواب کی بازیابی کے لئے اندھیروں سے لڑنے والے اس تیزی سے رخصت ہو رہے ہیں کہ ہمارے ہاتھ رہن دعا ہو کر رہ گئے ہیں۔ یہ وہ نسل تھی جس نے ابنائے وطن کی پلکوں پر شب و روز کے ہلکا ہونے کی حسرت میں اپنی زندگیاں التوا میں رکھ دیں۔ زندگی کو موت کے نقطہ اختتام سے مفر نہیں لیکن دکھ یہ ہے کہ آزادی کی نیم شب کے آس پاس آنکھ کھولنے والی اس نسل کے پڑاؤ ڈالنے کا مرحلہ آیا تو نژاد نو کے ہجوم میں وہ ہاتھ ہی موجود نہیں جنہیں اگلی منزلوں کے خواب کی امانت سونپی جا سکے۔ بلوچ شاعر مست توکلی نے لکھا تھا، ’میں تیرے پڑاؤ کے نشانات کو حسرت سے دیکھتا ہوں‘۔ دو روز قبل زمان خان اوجھل ہو گئے اور گزشتہ شب خبر آئی کہ فرخندہ بخاری نے ابدی جلا وطنی اختیار کر لی ہے۔ دیکھیے، شہرت بخاری ہی کا شعر یاد آ رہا ہے، یاد رہ جاتی ہیں باتیں شہرت / دن بہرحال گزر جاتے ہیں۔

1946ء میں پیدا ہونے والے زمان خان ساٹھ کی دہائی میں ڈاکٹر عزیزالحق اور خالد محبوب جیسے شعلہ بجاں رفقا کے جلو میں لاہور کے سیاسی اور ادبی منظر پر طلوع ہوئے تھے۔ اس زمانے میں سیاست، فنون، صحافت اور ادب کی اقالیم میں جدائی نہیں ہوئی تھی۔ جو ادیب تھا، اس کا ایک واضح سیاسی موقف بھی تھا۔ جو سیاسی کارکن تھا، وہ صحافی بھی تھا۔ جو صحافی تھا، وہ ادیب بھی تھا اور ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتا تھا۔ انتظار حسین ایوب مخالف تحریک کا ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ لاہور کی مال روڈ پر کھڑے کسی شخص نے صحافیوں کے جلوس میں شامل ایک صاحب کو دیکھ کر کہا کہ صبح یہ شخص فلاں پارٹی کے جلوس میں چلا آ رہا تھا۔ دوپہر کو ایک اور جلوس میں دنیا بھر کے مزدوروں کو ایک ہونے کی تلقین کر رہا تھا اور اب صحافیوں کے درمیان اذن اظہار کا مطالبہ کر رہا ہے۔ تماشائی کا مشاہدہ درست تھا۔ یہ سب کردار ایک شہری کی اجتماعی ذمہ داریوں کا حصہ ہیں۔ تمدن کے ان مظاہر کا پیشہ ورانہ منصب جدا جدا ہو سکتا ہے، ہنر کے آلات مختلف ہو سکتے ہیں، طریقِ کار الگ ہو سکتا ہے لیکن ایک شہری سیاست سے بے نیاز نہیں ہو سکتا، انسانی حقوق کی جدوجہد سے بے گانہ نہیں ہو سکتا، اپنی روایت سے آشنائی کے لئے فنون عالیہ کی میراث کو فراموش نہیں کر سکتا۔ اجتماعی طرز احساس سے آگہی میں شعر و ادب کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا۔ معاشرے میں حس انصاف زندہ رکھنے کے لئے قانون اور قانون سازی سے لاتعلق نہیں ہو سکتا۔ زمان خان ایک سیاسی کارکن تھے، صحافی تھے، انسانی حقوق کے علمبردار تھے۔ ادیب تھے، امن عالم کے داعی تھے، محنت کشوں، عورتوں اور اقلیتوں سے ناانصافی پر تڑپ اٹھتے تھے کیونکہ حتمی تجزیے میں وہ ایک نہایت ذمہ دار شہری تھے۔ لب و لہجہ دبنگ تھا لیکن اپنی ذات کے اسیر نہیں تھے۔ نظریاتی وابستگی میں دو ٹوک تھے لیکن مکالمے اور رواداری جیسی اقدار کے امین تھے۔ زمان خان کی موت ایک روایت، ایک عہد اور ایک ادارے کے خاتمے کی حکایت ہے۔

فرخندہ بخاری نے لاہور کے ایک سادات گھرانے میں آنکھ کھولی۔ خاندانی روایت کے اتباع میں سخت پردہ دار خاتون تھیں۔ شہرت بخاری سے رشتہ رفاقت کے علی الرغم ایک خاموش گھریلو زندگی گزار رہی تھیں۔ وطن عزیز پر ضیا آمریت کی تیرگی اتری تو سب نے حیرت سے دیکھا کہ جمہوریت کے لئے سڑکوں پر نکلنے والی مٹھی بھر بہادر عورتوں میں شاہدہ جبیں، ساجدہ میر، افضل توصیف اور فرخندہ بخاری پیش پیش تھیں۔ ضیا آمریت قید و بند، عقوبت خانوں، ایذا رسانی اور معاشی قتل جیسی آزمائشوں سے عبارت تھی۔ محترمہ فرخندہ بخاری نے یہ سب منزلیں استقامت سے طے کیں۔ قید ہوئیں۔ لاہور قلعے کے عقوبت خانے میں رکھا گیا۔ تشدد اور ایسا ویسا تشدد، ’ہم آپ تو بے سنے ہی سہمیں‘۔ طیارہ اغوا کرنے والوں نے جو سیاسی کارکن رہا کروائے، ان میں فرخندہ بخاری بھی شامل تھیں۔ شام اور پھر لندن میں جلاوطن رہیں۔ اور وہ نیک طینت شاعر عہد مودت کے نباہ میں شریک حیات کی ہر ابتلا میں قدم بقدم ہمراہ تھا۔ عام طور پر سیاسی کارکنوں کی بیویاں سیاسی کٹھنائیوں میں خواہی نخواہی دکھ اٹھاتی ہیں۔ شہرت اور فرخندہ بخاری نے اس روایت کو بدل کے رکھ دیا۔ سید محمد انور بخاری نے ’شہرت‘ تخلص کیا تھا، انہیں شہرت سے غرض نہیں تھی۔ اپنی خودنوشت ’کھوئے ہووٰں کی جستجو‘ لکھی تو اس میں سیاسی جدوجہد کی جھلک تک نہیں دکھائی، اپنے اساتذہ احسان دانش اور سید عابد علی عابد کے مبارک تذکرے میں اردو نثر کی یہ عمدہ کتاب مکمل کر دی۔ یہاں بھی محترمہ فرخندہ بخاری نے روایت سے انحراف کیا۔ ان کی خود نوشت ’یہ بازی عشق کی بازی ہے / سیاسی جدوجہد کی ایسی جاں گداز داستاں ہے جس پر معصومہ، مقصومہ اور علی جو ہی نہیں، اس ملک کے سب بیٹے بیٹیاں فخر کرتے رہیں گے۔

سیاسی کارکن سیاسی عمل کی بنیادی اکائی ہے۔ کسی قوم کا قیمتی ترین اثاثہ سیاسی کارکن، فن کار، استاد اور سائنسدان ہوتے ہیں۔ زمان خان اور فرخندہ بخاری کی روشن یاد کا تقاضا ہے کہ اپنی سیاسی قیادت سے ایک شکوہ کر لیا جائے۔ ہماری سیاسی جماعتوں میں کارکنوں کو توپوں کے چارے کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ دولت اور سماجی رسوخ رکھنے والے افراد گویا کسی پیدائشی استحقاق کے طور پر قیادت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ سیاسی آزمائش کا مرحلہ آتا ہے تو ’ہزاروں ساتھیوں‘ سمیت شمولیت اختیار کرنے والے خاموشی سے کسی محفوظ چھتری پر جا بیٹھتے ہیں۔ بندی خانوں کی رونق بڑھانے کا فرض سیاسی کارکن کے کندھوں پر رکھ دیا جاتا ہے۔ یہ ہماری سیاسی ثقافت کا المناک زاویہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما سیاسی شعور سے بہرہ مند کارکنوں سے خائف رہتے ہیں۔ جاننا چاہیے کہ تاریخ سیاسی کارکن لکھتا ہے، ’زعمائے قوم‘ نہیں۔

کون طاقوں میں رہا، کون سر رہگزار

شہر کے سارے چراغوں کو ہوا جانتی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments