ہیرے کی کان کنی: 55 ہزار کروڑ کے ہیرے، دو لاکھ درختوں کی کٹائی اور جنگل میں بسنے والوں کے خدشات


بکسواہا کا جنگل ریاست مدھیہ پردیش کے چھترپور ضلع کے درمیان موجود ہے
بکسواہا کا جنگل ریاست مدھیہ پردیش کے چھترپور ضلع میں موجود ہے
ایک خوفناک سا جنگل کیسا ہوتا ہے یہ صرف کتابوں میں پڑھا تھا یا ڈسکوری چینل پر دیکھا تھا۔

اس بارے میں کہانیاں بھی سُنی تھیں کہ ایسے مقامات پر گھنے درختوں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ہے۔

اپنے سفر کے دوران ایک بھری دوپہر میں بے حد خاموش جنگل میں ساگون کے درختوں کو پار کرتے ہوئے ہم تھوڑی روشنی والی جگہ پہنچے تو پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے ایک شخص کو جڑی بوٹیاں اور درختوں کی شاخوں کو اکٹھا کرتے ہوئے دیکھا۔

پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اس شخص کا نام بھگوان داس ہے اور جنگل کے ارد گرد بسنے والے دیہاتوں کے لوگ علاج کے لیے ان کے پاش آتے ہیں۔ بھگوان داس جڑی بوٹیوں سے لوگوں کا علاج کرتے ہیں۔

میں نے ان سے پوچھا کہ اگر اس جنگل میں کان کنی ہونے لگی تو کیا ہو گا؟

کچھ سیکنڈ سوچنے کے بعد بھگوان داس نے کہا ’اس کے بعد یہاں کے لوگ مر جائیں گے۔۔۔ یہی ہو گا جی۔۔۔۔ کیونکہ جڑی بوٹیاں تو اسی گھنے جنگل میں ملتی ہیں۔ اب عوام کو سوچنا ہے کہ انھیں کرنا کیا ہے۔ یہاں ملنے والی جڑی بوٹیاں لوگوں کی جان بچاتی ہیں۔ وہ کہاں سے آئیں گی؟ عوام لڑائی تو لڑے، ہم اکیلے کیا کر سکتے ہیں؟‘

بھگوان داس

بھگوان داس جڑی بوٹیوں سے مقامی لوگوں کا علاج کرتے ہیں

جنگل میں کان کنی اور لوگوں میں خوف

جس گھنے جنگل کی بات ہو رہی ہے اُسے ’بکسواہا‘ کا جنگل کہا جاتا ہے جو ریاست مدھیہ پردیش کے چھتر پور ضلع کے بیچ و بیچ موجود ہے۔

اس کہانی کی شروعات سنہ 2002 میں ہوئی تھی۔ آسٹریلیا کی مشہور ’ریوو ٹنٹو‘ کمپنی کو بکسواہا جنگل کے نیچے ہیروں کی کان کنی کا ٹھیکہ ملا۔ اس سلسلے میں کمپنی نے یہاں ایک پلانٹ لگایا۔

برسوں کی تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ یہاں زمین کے نیچے 55 ہزار کروڑ روپے تک کی مالیت کے ہیرے موجود ہو سکتے ہیں۔

ابتدا میں ہیروں کی کان کنی کے لیے 950 ہیکٹر زمین کا انتخاب کیا گیا تھا جس کے اندر متعدد گاؤں بستے ہیں لیکن مقامی افراد کی جانب سے مختالفت اور ماحولیات سے متعلق تحفظات کی وجہ سے سنہ 2016 میں ریو ٹنٹو نے یہ پراجیکٹ ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔

یہ بھی پڑھیے

لیبارٹری میں بنائے گئے ہیروں کی مقبولیت میں اضافہ کیوں؟

سعودی نیلے ہیرے کی وہ چوری جس نے کئی لوگوں کی جان لی

کوہ نور ہیرا پاکستان لانے کے لیے عدالتی درخواست: ہیرے سے جڑے چھ افسانے

اس وقت بھی اس پر متعدد سوالات اٹھے تھے کہ آخر سینکڑوں کروڑ خرچ کرنے کے بعد کمپنی نے اچانک اس پراجیکٹ سے ’جان کیوں چھڑا لی۔‘

ماہرین کا خیال ہے کہ ایک بیرون ملک کی کمپنی کے لیے ’مقامی روکاٹیں بڑھتی جا رہی تھیں‘ جس کے باعث اس کمپنی نے اس منصوبے کو خیرآباد کہنے کا فیصلہ کیا۔

اس کے بعد ایک نئی نیلامی کے بعد سنہ 2019 میں ہیروں کی کان کنی کا نیا لائسنس جاری ہوا۔ آدتیہ برلا گروپ کی ایسل مائننگ کمپنی کا اس بار 382 ہیکٹر میں ڈائمنڈ کی کان کنی کرنی تھی۔

دلچسپ یہ بھی ہے کہ علاقے میں ریو ٹنٹو کے وقت بعض مقامی لوگوں کو روزگار ملا تھا اور آج بھی اس گھنے جنگل کے بیچ گاؤں بستے ہیں۔

گنیش یادو

گنیش یادو نے کئی برسوں کے تک انٹرنیشنل کمپنی کے ساتھ اس منصوبے پر کام کیا ہے

’آمدنی خطرے میں ہے‘

گنیش یادو نے کئی برسوں تک اُس انٹرنیشنل کمپنی کے لیے کام کیا لیکن آج اُن کے دل میں ایک ملال ہے۔

ان کا کہنا ہے ’حکومت اور کمپنیوں کو چاہیے تھا کہ 2004- 2005 سے ہی ہمارے بچوں کو ان کمپنیوں میں کام کرنے کے لیے تیار کیا جانا چاہیے تھا۔ لیکن اس بارے میں کسی نے نہیں سوچا۔ اس وقت جو بچے تھے اب وہ 18 سال کے ہو چکے ہیں۔ ان کو کوئی کورس کرایا جاتا یا تکنیکی کام سکھایا جاتا تاکہ وہ اس شعبے میں کام کر سکتے۔ اب اگر یہاں نیا پلانٹ لگ بھی گیا تو ہمارے بچے تو وہاں ملازمت کرنے کے لائق نہیں ہوں گے۔‘

اس جنگل کے ارد گرد رہنے والے تقریباً دس ہزار لوگ بیڑی کے پتے، مہوا اور آنولے سمیت دیگر پھل فروخت کر اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔

گاؤں والوں نے بتایا کہ مہوا اور آنولہ فروخت کر کے ایک اوسط خاندان ماہانہ 60 سے 70 ہزار روپے کما لیتا ہے۔

جنگل کے کنارے بسے ایک گاؤں شاہ پورا پہنچے تو وہاں مٹی کے لیپ والے اپنے گھروں سے بے حد محبت کرتے ہیں لیکن ان کے چہرے پر اداسی ہے کیونکہ ان کی آمدنی کا سلسلہ بند ہو سکتا ہے۔

بکسواہا

بکسواہا کا جنگل جہاں قبائلیوں کی بڑی آبادی بستی ہے

‘ہمیں صرف دھول ملے گی، ہیرے نہیں’

تین بچوں کی والدہ پاروتی اپنی کچے مکان کی صفائی میں مصروف تھیں لیکن ان کی آنکھوں میں اداسی واضح تھی۔

نم آنکھوں کے ساتھ انھوں نے کہا ’ہمارا پورا خاندان پھل اٹھانے جنگل جاتا ہے تب ہی گھر کا خرچ چلتا ہے۔ اگر جنگل کٹ گیا تو ہم لوگ کیا کریں گے؟ ہمارے پاس کھیتی کے لیے زمین تو نہیں ہے کہ اس کے ذریعے اپنے بچوں کو پال سکیں۔ ہم تو جنگل کے سہارے زندہ ہیں۔‘

بکسواہا میں ایسے متعدد لوگوں سے ملاقات ہوئی جن کو نہ پہلے کبھی اور نہ اب ہیروں میں دلچسپی ہے۔

ہماری ملاقات کیرتی ٹھاکر سے ہوئی جب وہ جنگل کی سرحد پر بنے ایک مندر میں پوجا کرنے آئی تھیں۔

انھوں نے کہا ’جنگل کی کھدائی ہو گی تو دھول اڑے گی، وہ ہی ہمیں ملے گی۔ یہاں اس علاقے میں جتنے لوگ ہیں انھیں ملازمتیں تھوڑی ملیں گی، ہمیں صرف دھول ملے گی۔‘

बक्सवाहा का जंगल

بکسواہا کے قبائلی لوگ اپنے جنگل کو کھونا نہیں چاہتے ہیں

ہیرو کی کان کنی

اس درمیان ’بندر مائننگ پراجیکٹ‘ یا بکسواہا ڈائمنڈ مائنس کی مجوزہ کان کنی کے بارے میں ریاست مدھیہ پردیش کی حکومت کی رائے بالکل مختلف ہے۔

ہماری ملاقات ریاست کے معدنی وسائل کے وزیر برجیندر پرتاپ سنگھ سے ہوئی۔

انھوں نے ہمیں بتایا کہ ’ہم گاؤں والوں سے ملنے گئے تھے۔ وہاں ایک بھی آدمی نے اس کی مخالفت نہیں کی۔ وہاں سب کو معلوم ہے کہ اس سے لوگوں کو روزگار ملے گا۔‘

بی بی سی کے اس سوال پر گاؤں کے بعض لوگوں نے کھلے عام کیمرے پر کہا ہے کہ انھیں خدشہ ہے کہ جنگل کٹ جائے گا اور ان کی زندگی بدل جائے گی۔ اس پر اُن کا کہنا تھا ’ہمارے سامنے ایسا کسی نے نہیں کہا، آپ کو ہی بتایا ہو گا۔۔۔ اس بارے میں ہمیں کچھ نہیں معلوم ہے۔‘

وزیر کے مطابق انھوں نے لوگوں سے کُھل کر بات کی ہے اور مقامی افراد کو اس کان کنی پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

بکسواہا کا جنگل

ریاست مدھیہ پردیش کی حکومت کا کہنا ہے بکسواہا کے قبائلی لوگوں کو کان کنی کے منصوبے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے

دو لاکھ سے زیادہ درخت کاٹنے پڑیں گے

بہرحال ابتدائی معلومات کے مطابق ہیروں کی کان کنی کے لیے ایسل مائننگ کمپنی کو دو لاکھ سے زیادہ درخت کانٹنے ہوں گے۔

ریاست کی معدنی وسائل کے وزیر برجیندر پرتاپ سنگھ کا ایک اور دعویٰ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’آپ نے وہاں کا دورہ کیا ہے۔ جنگلی زمین ضرور ہے لیکن جنگل اتنا گھنا نہیں ہے۔ ویسے بھی ہم 10 لاکھ نئے درخت لگا رہے ہیں۔‘

لیکن حقیقت ان کے دعوے کے برعکس ہے۔

بی بی سی کی ٹیم گھنٹوں پیدل چل کر جنگل کے بیچ و بیچ اس مقام پر پہنچی جہاں ڈائمنڈ کی کان کنی کی شروعات ہونے والی ہے۔

جس جنگل کے بارے میں ریاستی حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ بہت زیادہ گھنا نہیں ہے وہ دراصل اتنا گھنا ہے کہ اس کے اندر تین یا چار کلومیٹر تک داخل ہونے کے لیے گھنٹوں پیدل چلنا پڑتا ہے اور وہ بھی جنگلی جانوروں کی موجودگی میں۔

بکسواہا

بکسواہا کے جنگل میں پانی کی گزرگاہ

پانی کی قلت پیدا ہو گی

اس پراجیکٹ کے لیے کمپنی کو روزانہ لاکھوں لیٹر پانی کی ضرورت پیش آئے گی۔

ایک اندازے کے مطابق کمپنی کو روزانہ 16،050 کیوبک میٹر پانی کی ضرورپ ہو گی۔ اہم بات یہ کہ یہ پراجیکٹ جس دن سے شروع ہو گا اس کے بعد 14 برسوں تک جاری رہے گا۔

ریاستی حکومت جنگل کاٹنے کے بجائے 10 لاکھ درخت لگانے کی بات کر رہی ہے لیکن انھیں بھی تو پانی کی ضرورت ہو گی؟

سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پورے بندیل کھنڈ علاقے میں پانی کی شدید قلت ہے اور لوگوں کو خدشہ ہے کہ اس پراجیکٹ کے لیے زیر زمین پانی کا استعمال کیا جا سکتا ہے جس کے نتائج ’تباہ کُن‘ ہوں گے۔

ہم بکسواہا کے قریب بیجاوڑ میں سماجی کارکن امت بھٹناگر سے ملنے گئے جو ایک طویل عرصے سے بکسواہا کے جنگلات کے تحفظ کے لیے کام کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیے

زمین سے سونا نکالنا مشکل سے مشکل تر کیوں ہوتا جا رہا ہے

انڈیا میں رینگنے والے جانوروں کے لیے انوکھے پل کی تعمیر

انڈیا میزورام کے روایتی قبائلی کھانوں کی خوشبو کی لپیٹ میں

انھوں نے کہا کہ ’اگر ہم اس علاقے کو پانی کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو اسے ایک حساس علاقہ قرار دیا جائے گا۔ اس منصوبے میں 60 لاکھ لیٹر پانی استعمال کیا جانا ہے جس کے لیے گیل دریا کو ڈیم بنا کر اُس کا رخ موڑا جا رہا ہے۔ ایسا کرنے کے بعد گیل دریا ختم ہو جائے گا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’آپ کو معلوم ہے کہ اس منصوبے کے لیے دو لاکھ 15 ہزار 875 درخت کاٹنے پڑ رہے ہیں جس کی وجہ سے یہاں کے بہت سے چشمے ختم ہو جائیں گے اور پانی کی شدید قلت ہو جائے گی۔‘

’انسان کی قبر پر ترقی نہیں ہو سکتی ہے‘

ہزاروں جانوروں کے ساتھ ساتھ کئی قبائلی برادریاں بھی سینکڑوں سالوں سے اس جنگل میں رہ رہی ہیں اور اب وہ نقل مکانی کے ڈر سے خوفزدہ ہیں۔

ہم نے ایسل مائننگ اینڈ انڈسٹریز لمیٹڈ سے بکسواہا میں شروع کیے جانے والے کان کنی کے پراجیکٹ سے پیدا ہونے والے مسائل کے بارے میں بات کرنے کے لیے رابطہ کیا، لیکن کمپنی نے اس معاملے پر بات کرنے سے انکار کر دیا۔

ایسل مائننگ کو ملنے والے ٹھیکے کے خلاف فی الحال کئی معاملات عدالتوں اور قومی ٹرائبیونلز میں زیر سماعت ہیں۔

کان کنی ہو گی یا نہیں، اس کا فیصلہ عدالتیں ہی کریں گی.

عدالت میں اس پراجیکٹ کے خلاف اپیل کرنے والی نیہا سنگھ سے ہماری ملاقات ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ نیشنل گرین ٹرائبیونل آف انڈیا پہلے ہی یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ ’انسانی جانوں کی قیمت پر صنعتی ترقی نہیں ہو سکتی ہے۔‘

बक्सवाहा का जंगल

بکسواہا کے جنگلات میں موجود پینٹنگز 25 ہزار سال سے زیادہ پرانی ہو سکتی ہیں

‘مستقبل غیر یقینی کا شکار ہے’

ان جنگلوں میں کچھ ایسی بھی چیزیں جو ایک بار ختم ہو گئیں تو بس ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں گی۔ ظاہر ہے کہ اگر بڑے پیمانے پر کان کنی ہوتی ہے تو ان چيزوں کا مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔

انڈیا کے محکمہ آثار قدیمہ کے مطابق بکسواہا کے جنگلات سے ملحقہ غاروں میں ملنے والی پینٹنگز 25 ہزار سال پرانی ہو سکتی ہیں۔

یہاں کا دورہ کرنے کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ قدیم زمانے کے لوگوں کی زندگی کا ہر پہلو یہاں پینٹنگز کی شکل میں موجود ہے۔

یہ واضح ہے کہ یہاں ہزاروں سال پہلے انسان رہتے تھے اور وہ آج بھی ہیں۔ کسی کو نہیں معلوم کہ یہاں زندگی کب تک اپنی موجودہ طرز پر چلتی رہے گی۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32569 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments