گلزار کا جادو جو سر چڑھ کر بولے “گر یاد رہے”


بعض کتابیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنے سادہ اسلوب، حقیقت پر مبنی بیان ہے اور اثر انداز سے قاری کو کتاب پر پہلی نظر سے ہی اپنی گرفت میں لے لیتیں ہیں۔ ایسی کتابوں کا جادو ان میں موجود تحریر کردہ مواد کی وجہ سے ہی نہیں اثر انداز ہوتا، بلکہ اسے لکھنے والے کی شخصیت اور مزاج بھی کتاب کو ایک ایسی روح عطا کرتے ہیں جو کتاب سے نکل کر قاری سے مل جاتی ہے جو اسے روحانی سکون دیتی ہے اور اس میں موجود شخصیات کے مزاج اور کردار سے ملاقات کراتی ہے۔ بہت کم کتابیں ایسی ہوتی ہیں جو پڑھتے ہوئے آپ پر بوجھ بھی نہیں بنتیں اور اپنا لفظ لفظ آپ کے دل میں اتارتی چلی جاتی ہیں اور مصنف کی شخصیت، کردار اور تصویر کو آپکے ذہن میں پورٹریٹ کر جاتی ہیں۔ کتاب کی تحریروں کو آپکے ذہن میں ہمیشہ کے لیے امر کر دیتی ہیں اور کتاب پڑھنے کے بعد قاری کی روح کتاب میں ہی موجود رہتی ہے اور مصنف کے ساتھ جینے کی تمنا رکھتی ہے۔
کچھ ایسا ہی الفاظ کا جادو ‘گلزار صاحب’ نے اپنی کتاب “گر یاد رہے” میں بھی کیا ہے۔ اور وہ الفاظ کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ اور آپ اس کتاب کو مطالعہ کرنے کے بعد گلزار صاحب کی تحریروں میں موجود شخصیات کو محسوس کر سکتے ہیں۔
اس کتاب کا ذکر کرنے سے پہلے میں آپ کو گلزار صاحب سے ملاقات کرواتا ہوں۔
گلزار صاحب 18 آگست 1934 میں جہلم پاکستان میں پیدا ہوئے اور تقسیم ہند کے دوران ہندوستان منتقل ہوگئے۔ اور ان کا اصل نام سمپورن سنگھ  ہے۔ گلزار صاب ، ایک مشہور ہندوستانی گیت نگار ، شاعر ، مصنف ، اسکرین رائٹر ، اور فلم ڈائریکٹر ہیں۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز گیت نگار کے طور پر میوزک ڈائریکٹر ایس ڈی برمن سے کیا تھا۔ 2019 تک ، گلزار نے مجموعی طور پر 36 ایوارڈز اور اعزازات جیتے ہیں ، جن میں 5 نیشنل فلم ایوارڈز ، 22 فلم فیئر ایوارڈز ، 1 بہترین اکیڈمی ایوارڈ برائے بہترین اوریجنل گانا (2008) ، 1 گریمی ایوارڈ (2010) ، 2002 اردو کے لیے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ، پدم بھوشن (2004) ، اور 2013 دادا صاحب پھالکے ایوارڈ شامل ہیں۔ کئی اہم ایوارڈز حاصل کرنے والے گلزار صاحب کی نئی تصنیف “گر یاد رہے” پاکستان میں 2019 میں شائع ہوئی ہے۔ یہ کتاب بہت سادہ اسلوب کے ساتھ مختلف شخصیات کے پر اثر خاکوں، سوانحی افسانے جو کہ بقول مصنف تخلیقی اور فکشن زدہ نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی ہیں اور چند پورٹریٹس اور مرثیوں پر مشتمل ہے۔ خوبصورت عنوان کے ساتھ یہ کتاب شخصیات کے بارے میں پڑھنے والوں کے لیے بہترین انتخاب ہے۔
اب آتے ہیں کتاب کی طرف تو کتاب کے تعارف میں گلزار صاحب نے لکھا ہے کہ،
“اگر مغرب میں بائیوگرافیکل ناول لکھنے کی روایت ہے اور یہ لکھے جاتے ہیں تو پھر بائیوگرافیکل افسانے کیوں نہیں لکھے جا سکتے؟ اس کتاب میں وہ بھی شامل ہیں” مزید مصنف کہتے ہیں کہ “اس کتاب میں ایک نوسٹیلجیا ہے، جو میرے اندر مہکتا رہتا ہے”
وقت سے پرے اگر مل گئے کہیں
میری آواز ہی پہچان ہے، گر یاد رہے!
خاکوں کے باب میں گلزار صاحب نے منشی پریم چند سے آغاز کیا ہے۔ منشی جی کے بارے وہ لکھتے ہیں کہ
“اس عمر میں جب مڑ کے دیکھتا ہوں تو یہ جاننے کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ کس ایج گروپ کے لیے لکھتے تھے اور وہ کس زبان میں کہانی کہتے تھے، جو نہ بڑوں کے لیے بدلنی پڑتی، نہ چھوٹوں کے لیے۔ یہ وہ سوال ہیں جو آج کا نقاد بار بار آج کے رائٹرز کو درجہ بندی (catagorise) کر دیتا ہے۔ بڑوں کے لیے لکھنا اور بچوں کے لیے لکھنا دو الگ الگ حصے بن گئے ہیں اور پھر ان حصوں کے بھی چھوٹے چھوٹے سب ڈویژن ہیں۔ آج بھی چھوٹوں کے لیے لکھتے ہوئے رائٹرز تتلانے لگتے ہیں اور بڑوں کے لیے چہرے پر موٹے موٹے چشمے چڑھا لیتے ہیں”
گلزار نے یہ حقیقت بیان کی ہے اور واقعتاً آج کل بڑوں کے لیے اور چھوٹوں کے لیے لکھنے والوں نے خود کو بس ایک ہی سطح تک محدود کیا ہوا ہے۔ مصنف مزید لکھتے ہیں کہ
“منشی پریم چند کے فن کی یہ ایک بہت بڑی خوبی ہے جو اس دور میں بھی کم ملتی تھی اور اس دور میں بھی نایاب ہے۔ نہ چھوٹے کے لیے، نہ بڑے کے لیے، پورے پریوار اور پورے سماج کے لیے، اس سادگی سے کہانی کہنا، جس طرح منشی پریم چند کہتے تھے، بڑا کٹھن کام لگتا ہے۔ یہی نہیں ان کی کہانیوں کی زبان بھی اپنے دور کی رائج زبان تھی۔ جو ہر کوئی سمجھ لیتا تھا۔ نہ وہ مشکل اردو تھی نہ کشٹ ہندی تھی۔ بالکل خالص ہندوستانی زبان، جو ہندوستان کی زبان ہے”۔
اتنی سادگی سے گلزار صاحب نے شخصیات کو بیان کیا ہے ہے کہ پڑھتے ہوئے کہیں بھی کوئی رکاوٹ اور بدمزگی کا احساس نہیں ہوتا۔ اور ہر شخصیات کی شخصیت کو اتنی اہمیت دے کر خوبصورتی اور باریکی سے بیاں کیا ہے کہ پڑھنے والا ان شخصیات کی تصاویر کو اپنی آنکھوں میں قید کر دے اور ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہو۔
احمد ندیم قاسمی کا ذکر کرتے ہوئے گلزار صاحب کہتے ہیں،
“بابا (احمد ندیم قاسمی) نظم، افسانہ، صحافت، تینوں اصناف میں ایک بڑی انفرادیت کے مالک تھے۔ اردو ادب کا ایک بڑا نام تھا احمد ندیم قاسمی۔ ہم انہیں اس دور سے پڑھتے آرہے تھے، جس زمانے میں ترقی پسند مصنفین کی میٹنگیں بڑے زور و شور کے ساتھ منعقد ہوتی تھیں”۔
منٹو کے بارے گلزار صاحب لکھتے ہیں کہ،
“منٹو کو کچھ سنا ہے، کچھ دیکھا ہے، کچھ پڑھا ہے۔ لگ بھگ اسی ترتیب سے جانتا ہوں اسے”۔
اسی طرح شہر یار سنو کے بارے گلزار صاحب نے لکھا ہے کہ
“بڑی شاعری کے بڑے شاعر فراق تھے، فیض تھے، فراز تھے اور شہر یار ہیں۔ شہر یار کے ہاں کوئی ہیڈ لائن نظر نہیں آتی۔ وہ کوئی نعرہ نہیں لگاتے۔ فیض اپنی بات کو پرچم کی طرح تان دیتے تھے۔ فراق اپنی بات کا اعلان کرتے تھے، فراز بھی۔ ان کی بات بڑی واضح ہوتی تھی اور سرخی بن جاتی تھی۔ شہر یار ان سب سے سٹل شاعر ہیں۔ جس طرح پڑھتے ہیں، ویسا ہی لکھتے ہیں اور جیسا لکھتے ہیں ویسے ہی پڑھتے ہیں۔ پورے صبر و تحمل سے بات کرتے ہیں۔ ان کا کہا، کنول کے پتے پر گری بوند کی طرح دیر تک تھرکتا رہتا ہے۔ شعر سن کر دیر تک کان میں گونجتا ہے”۔
ان کے علاوہ خاکوں کے باب میں شیلندر، نصیر احمد ناصر، خواجہ احمد عباس، امجد اسلام امجد، ایوب خاور، جاوید صدیقی اور ف۔ س۔ اعجاز کے بارے میں گلزار صاحب نے بہت دلکش اور سادہ الفاظ میں لکھا ہے جو کہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ان شخصیات کے بارے مختصر لیکن پر اثر انداز کی بنا پر قاری دوران مطالعہ کسی بھی مقام پر اپنی یکسوئی نہیں کھوتا۔ اور کتاب کو پڑھے بنا نہیں اٹھتا۔
کتاب میں شامل بائیوگرافیکل افسانوں کا باب سب سے زیادہ دلچسپ اور معلوماتی محسوس ہوتا ہے۔ مختصر اور مکمل پن لیے ہوئے ہر افسانہ اس شخصیت کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ اور ان تصاویر کو گلزار صاحب نے اپنے الفاظ کے رنگ سے کھینچا ہے۔
مائل اینجلو کے بارے میں سوانحی افسانے میں گلزار صاحب کہتے ہیں،
“مائکل اینجلو جب روم واپس لوٹا تو گھنٹوں سینٹ پیٹرز برگ کے گنبد کے نیچے لیٹ کر آپ ہی آپ میں کچھ بڑبڑایا کرتا تھا۔ کچھ بولتا رہتا تھا۔ جولئیس نے اس سے جا کر پوچھا تو وہ بولا آیتوں کی پٹیاں اتار رہا ہوں۔ جولئیس ثانی جانتا تھا کہ وہ اینٹ گارے کی چونے سے بنی دیواروں میں وہ چہرے دھونڈ رہا ہے۔ یسوع کا چہرہ، مریم کا چہرہ، پطرس، یوحنا اور یہوداہ کا چہرہ۔ جولئیس کو یقین ہو گیا تھا کہ اس نے صحیح مصور چنا ہے۔ مریم کا ماڈل اینجلو نے اپنی ماں سے چنا تھا اور اس روز چنا تھا جس دن اس نے اپنی ماں کو ایک بانس پر پانی کے دو ڈول لٹکا کر کندھوں پر اٹھاتے دیکھا تھا۔ ایسی ہی کوئی توانا عورت ہو گی جس نے نبی کا بوجھ اپنی کوکھ میں سنبھالا ہو گا۔”
پھر گلزار صاحب بیان کرتے ہیں کہ
“اینجلو کو سنگ مرمر کے لیے رقم کی ضرورت تھی۔ پوپ جولئیس ثانی نے وعدہ تو کیا لیکن رقم نہیں دی۔ تمہیں پتھر سے کیوں اتنا لگاؤ ہے؟ رنگوں سے کیوں نہیں؟ تو اینجلو نے جواباً کہا کہ رنگ دوسروں سے مل کر اپنا رنگ چھوڑ دیتے ہیں۔ بدل جاتے ہیں۔ سنگ مرمر ایسا نہیں کرتا۔”
ان افسانوں میں ساحر اور جادو، بٹوارہ، دمبے، بھوشن بنمالی، وداعی، گاگی اور سپرمین شامل ہیں جو کہ پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
پورٹریٹس او مرثیے کے باب میں گلزار صاحب نے غالب، ٹیگور، مینا جی، جتن داس، گوپی چند نارنگ، امجد خان اور چند دیگر ادبی شخصیات کے بارے شاعرانہ انداز میں لکھا ہے جو کہ کافی دلکش ہے۔ اس کے علاوہ کتاب کے آخر میں گلزار صاحب نے سیلف پورٹریٹ بھی شامل کیا ہے جو کہ بہت خوبصورت، پر اثر اور اپنے اندر گہرائی سموئے ہوئے ہے۔ “گر یاد رہے” کتاب نہ تو دقیق ادبی انداز میں لکھی گئی ہے کہ قاری وقفوں وقفوں سے اسے پڑھے اور سمجھے، نہ ہی یوں ایک کہانی کہ جو پڑھتے ہی اختتام پذیر ہو جائے، بلکہ یہ ہلکے پھلکے اور سادہ بیانیے کے ساتھ ماضی کو اپنے اندر سمو کر چلتی ہے کہ قاری پڑھتے ہوئے خود کو سرور زدہ محسوس کرنے لگتا ہے۔ اور اس کتاب “گر یاد رہے” میں گلزار صاحب نے اپنے الفاظ کا جادو ڈالا ہے جو پڑھنے والے کو اپنی الفاظی مہک سے مدہوش کردیتا ہے۔ آخر میں گلزار صاحب کا سیلف پورٹریٹ آپ سب کی نظر۔
روز ہی آئینے پر لکھ کر جاتا ہوں میں،
سارے چنہہ اور چہرہ اپنا
لوٹوں تو پہچاننے میں کوئی بھول نہ ہو……..
لیکن روز بدل جاتا ہے کچھ نہ کچھ
ایک معمہ بنا ہوا ہوں اپنے لیے
دیکھوں تو…….
پہلے سے حرص کچھ اور زیادہ ہے آنکھوں میں
امید کی دھڑکن بڑھی ہوئی ہے
اور چنتا کے چنہہ زیادہ گہرے ہونے لگے ہیں
پکا رنگ ہے، کالا تو، سنتے ہیں
پھر بھی……..
جانے کیوں بالوں کا رنگ اترنے لگا ہے
ایک معمہ بنا ہوا ہے، آئینے میں!!

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments