ادبی تنقید اور فلسفانہ اصطلاحات کی تاریخ (7)


دنیائے ادب میں دو لوگ ناقابلِ فراموش ہیں ایک وہ شخص جو شاعری کو بیکار اور قابلِ اجتناب سمجھتے ہوئے اس پر حملے کرتا رہا ہو اور دوسرا وہ جو اول الذکر کو یہی اعزاز دے کر شاعری کا دفاع کرتا رہا ہو۔ فلپ سڈنی کے زمانے میں ایک سٹیفن گوسن Stephen Gosson نامی حملہ آور نے مذہب کی آڑ میں شاعری پر ہرزہ سرائی کی۔ The School Of Abuse (Containing a Pleasant Invective Against Poets)
اس تصنیف میں گوسن نے افلاطون کے شعراء کو شہر بدر کرنے والے نظریے کو موضوعِ تحریر بنایا۔ مندرجہ ذیل سطور میں گوسن کے لہجے کی شدت قابلِ غور ہے:
“Plato shut them out of his school and banished them quite from his commonwealth as effeminate writers, unprofitable members, and utter enemies to virtue.” (School of Abuse)
گوسن شائد بے نام و نشاں ہوتا مگر اس نے یہ تصنیف بغیر اجازت کے شاعری کے دل دادہ سر فلپ سڈنی کے نام انتساب کر دی جس کا شاعری اور شعراء سے محبت کا عالم یہ تھا کہ 1586ء عیسوی میں فقط بتیس برس کی زندگی گزارنے کے بعد جب فلپ سڈنی قضا کا شکار ہوا تو اس مختصر حیات کیلئے یورپ کے معروف و غیر معروف شعراء نے سینکڑوں نوحے مرتب کیے۔ انتساب والے معاملے سے سبکدوش ہونے کیلئے اور کچھ بزہ کار کی طعبیت درست کرنے کیلئے فلپ سڈنی نے ایک مضمون مرتب کیا جس پر گفتگو کیلئے خامہ فرسائی کی جا رہی ہے۔
 مضمون کا آغاز شاعری کی اہمیت سے کرتے ہیں؛ شاعری نورِ اولیں ہے۔ شاعری انسانوں کیلئے ایسی نرس Nurse ثابت ہوئی جس کی دی ہوئی خوراک (دودھ) سے  پیچیدہ علومِ خصوصاً فلسفہ اور تاریخ ہضم کرنا ممکن ہوا۔ قدما میں ذہین دماغوں نے کی بھی صرف شاعری۔ مثلاً دانشِ انسانیت کی ابتدا میں یونان کے فلسفی Homer، Musaeus، اور Hesiodus جیسے شعرا کے علاوہ کوئی قلمکار آج یاد نہیں کیا جاتا، شائد اس لئے کہ وہ شعرا نہیں تھے۔ مورخین بھی اسی لئے موضوعِ تذکرہ رہے ہیں کہ وہ بھی شاعری میں تاریخ مرتب کرتے تھے جن میں Orpheus اور Linnus نامور ہیں۔ ہر زبان کے شاعر اپنی حیثیت معاشرے میں منوا چکے تھے اور اُن کے نظریات موجودہ عہد میں بھی نئے معلوم ہوتے ہیں۔ رومنوں میں Ennius، اور Andronicus، اطالوی میں دانتے، Petarch اور Baccace، اور انگریزی میں چوسر اور گوور شاعر وغیرہ ایسے شعرا ہیں جنھیں رہتی دنیا تک یاد کیا جاتا رہے گا۔
یونانی فلسفہ خواہ وہ اخلاقی ہو یا جنگی امور سے متعلق، کا دراصل آغاز باوزن مصرعوں سے ہی ہوا، حد تو یہ کہ افلاطون بھی شاعری کی اہمیت سے بے خبر نہیں تھا بلکہ وہ اس فن کو الوہی مانتا تھا۔ اسی بنا پر آگے چل کر روم میں شاعر کو Vates کہا گیا جس کے معنی ناگفتہ داں یا  پیغمبر ہونے کے ہیں۔ مثلاً داود کی کتاب ہی لے لیجئیے باوزن گیتوں کے سوا ہے ہی کیا! فلپ سڈنی کہتا ہے کہ شاعری میں کوئی تو غیر معمولی بات ہے کہ جو مورخین اور فلسفی شاعری سے دور رہے شہرت سے دور رہے۔ جس ملک میں مال و دولت کی کمی ہو وہاں بھی شعرا کی تکریم موجود ہوتی ہے۔
“All nations at this day, when learning florisheth not, is plaine to be seene; in all which they have same feeling of poetry.”
شاعر کا ہر خیال فطرت سے پروان چڑھنے والا ہوتا ہے یہ کسی شعبہ ہائے حیات کی قید و بند میں نہیں رہتا (جس طرح وکیل قانون کی جکڑ میں ہوتے ہیں، طبیب ادویات کی جکڑ میں، ریاضی داں اعداد کی، موسیقار آوازوں کی) بلکہ اپنے تصورات کا نیا جہاں وضع کرتا جس میں بعض اوقات ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو فطرت کے پاس بھی نہیں ہوتیں مثلاً مثالی ہیرو یا دیو مالائی/ دیوتا صفت انسان وغیرہ۔ بلاشبہ شاعر فطرت کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے چلتا ہے۔
“Poet goeth hand in hand with nature;
But freely ranging onely within the Zodiack  of his owne wit”
فلپ سڈنی نے نام بنام ایسے ہیرو کے نام لکھے جسے شعرا نے اپنے غیر معمولی بلکہ بعض اوقات دیو مالائی طرزِ بیاں سے جاوداں کر دیا اور معلوم تاریخِ انسانی میں فطرت کو ایسے کردار میسر نہیں ہوئے۔ مثلاً Theagines جیسا مخلص عاشق، Pilades جیسا وفادار بیلی، Orlando جیسا رویے سے بے باک اور والہانہ حملہ کرنے والا بہادر، سائرس جیسا عادل حکمران، اور متعدد خوبیوں سے مزین وجود Aeneas وغیرہ۔ فلپ سڈنی کہتا ہے شاعر کو الگ تخلیق جیسی  خدائی صفات سے متصف کر کے خدا نے شاعر کو ثانوی انسانوں سے بلند کر دیا۔
شعرا کی تین اقسام ہیں بقول فلپ سڈنی، اوّل جو حمدیہ کلام کہیں، دوسری ایسی کہ جو فلسفانہ یا اخلاقی امور کو زیرِ بحث لائیں، اور تیسرا وہ جو اچھوتے خیال یا “نقل Mimesis” سے لطف دیتے ہیں بلکہ نیکی کی طرف راغب کرتے ہیں۔
فلپ سڈنی صرف عروض اور قافیہ پیمائی کو شاعری نہیں کہتے بلکہ حقیقی شاعر خوبصورت تصورات سے لطف اندوز تو کرے ہی، ساتھ ساتھ ہدایت بھی دے۔ مزید یہ کہ تاریخ، شاعری اور فلسفے کا باہم اس طرح موازنہ کرتے ہیں کہ شاعری کی شان و شوکت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے۔ تاریخ لکھنے والا مثالیں دیتا ہوا گزر جاتا ہے فلسفی ہدایت اور پیچیدہ موضوعات کو سمجھا دینے کی کوشش کرتے ہیں مگر شاعر یہ دونوں کام بیک وقت بھی کر سکتا ہے اور زیادہ پُر اثر طریقے سے کر سکتا ہے۔
آخر میں شاعری پر لعن طعن کرنے والوں کو باور کرایا کہ وہ بیمار عورتوں کی طرح ہیں جو کچھ سمجھنا نہیں چاہتیں، انھیں یہ بھی معلوم نہیں ان کو بیماری یا مرض کیا ہے۔دوسری بات شاعری کو جھوٹ کہنا بنیادی طور پر غلط بات ہے کیونکہ شاعر فطرت سے سیکھے ہوئے تصورات کو عروضی آہنگ میں نقل کرتا ہے لہٰذا فطرت سے انکار کرنا تو صریحاً جہالت ہے۔ تیسرا خراب شاعری خرابیوں کی جڑ ہے لہٰذا اس آڑ میں سارے شعرا اور شاعری پر لعن طعن نہیں کیا جا سکتا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments