Squid Game (مکمل کالم)


جنوبی کوریا نے حال ہی میں ایک ٹی وی سیریز بنائی ہے ، نام ہے ’Squid Game‘۔نیٹ فلکس پر اِس سیریز کی دھوم مچی ہوئی ہے ، اب تک کروڑوں لوگ اسے دیکھ چکے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ یہ سیریز مقبولیت کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑدے گی ۔کہانی کچھ یوں ہے کہ جنوبی کوریا کی ایک پراسرار کمپنی ایسے لوگوں کی تلاش کا کام کرتی ہے جن کا دیوالیہ نکل چکاہے ، جو معاشی طور پر تباہ ہو چکے ہیں اور جن کا بال بال قرضے میں جکڑا ہے اور وہ کوڑی کوڑی کے محتاج ہیں۔یہ کمپنی اپنے کارندوں کے ذریعے ایسے مجبور لوگوں کا کھوج لگاتی ہے اور پھر انہیں اپنے جال میں پھنسا کر شہر سے دور سمندر کے راستے ایک نا معلوم مقام پر لے آتی ہے جہاں کمپنی نے عجیب و غریب طرز کی مختلف پراسرار عمارتیں قائم کر رکھی ہیں۔ اِن عمارتوں کی نگرانی مخصوص لباس والے مسلح نقاب پوش افرادکرتے ہیں اور اِن سب کو ’فرنٹ مین‘ نامی شخص کنٹرول کرتا ہے جس کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا ۔ کمپنی اِن لوگوں کو پیشکش کرتی ہےکہ یہاں انہیں چھ مختلف کھیل کھیلنے کا موقع دیا جائے گا ، ہر کھیل کے اختتام پر ہارنے والے کھلاڑی باہر ہوتےجائیں گے جبکہ جیتنے والے کھلاڑی اگلے مرحلے میں پہنچ جائیں گے ۔ ہر کھیل کے لیے جیت کی ایک بھاری رقم مختص ہے ، جوں جوں کھلاڑی کم ہوتے جائیں گے یہ رقم بڑھتی چلی جائے گی اور چھٹے کھیل کے اختتام پر کئی ملین ڈالر کی یہ رقم جیتنے والے کھلاڑی کو مل جائے گی ۔کھیل شروع کرنے سے پہلے کمپنی کھلاڑیوں کو’شرائط و ضوابط ‘بتاتی ہے کہ وہ جب چاہیں یہ کھیل چھوڑ کر جا سکتے ہیں بشرطیکہ کھلاڑیوں کی اکثریت کھیل چھوڑنے کے حق میں فیصلہ دے ۔ شروع شروع میں کھلاڑیوں کو لگتا ہے کہ اپنی معاشی حالت سدھارنےکا یہ ایک سنہری موقع ہے چنانچہ وہ ہنسی خوشی کھیل میں حصہ لینے کی ہامی بھر لیتے ہیں جو بظاہر انہیں بہت بچگانہ لگتا ہے مگر پہلے ہی کھیل کے دوران انہیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ اِس کھیل میں جو جیتے گا وہی زندہ رہے گا کیونکہ ہار کا مطلب موت ہے اور انعام کی رقم اسی صورت میں بڑھے گی جب ہارنے والے کھلاڑی کھیل کے دوران مار دیےجائیں گے ۔یہاں سے اصل ڈرامہ شروع ہوتا ہے ،پہلے ہی کھیل کے اختتام پر 456کھلاڑیوں میں سے 255 ختم ہو جاتے ہیں اور انعامی رقم بڑھ جاتی ہے ۔ اب باقی رہ جانے والے کھلاڑیوں کے پاس دو راستے بچتے ہیں ، یا تووہ کھیل چھوڑ کر خالی ہاتھ واپس گھروں کو چلے جائیں یا پھر کھیل جاری رکھیں اور کروڑوں ٖڈالر کی انعامی رقم جیتنے کی کوشش کریں ۔مگر یہ بات انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اس رقم کو پانے کے چکر میں نہ صرف اُن کی اپنی جان جا سکتی ہے بلکہ انہیں کسی دوسرے کی جان لینی بھی پڑ سکتی ہے۔ اِس تماشے کاکیا مقصد ہے ، یہ کس نے شروع کیا اور اِس کا انجام کیا ہوتاہے، یہ جاننے کے لیے آ پ کو مکمل سیریز دیکھنی ہو گی ۔

بظاہر اِس سیریز کا پلاٹ خاصا دور ازکار لگتا ہے کیونکہ حقیقی دنیا میں ایسی کسی کمپنی کا وجود نا ممکن ہے جو یوں وسیع پیمانے پر رازداری برت کر موت کا کھیل رچائے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔لیکن اصل میں یہ سیریز جنوبی کوریا کے معاشی اور سماجی نظام کو بے نقاب کرتی ہے جہاں امیر اور غریب طبقے کی تفریق خاصی بڑھ چکی ہے ۔ شمالی کوریا کے برعکس جنوبی کوریا ایک ترقی یافتہ ملک ہے اسی لیے اِس کا موازنہ بھی ترقی یافتہ ممالک سے کیا جاتاہے ، یہاں بوڑھے لوگوں میں غربت کا تناسب ترقی یافتہ ممالک میں سب سے زیادہ ہے اور اُن میں سے بے شمار کے پاس رہنے کے لیے چھت بھی نہیں ۔ نوجوان نسل میں یہ تاثر عام ہے کہ ملک کی معاشی ترقی کے ثمرات اُن تک نہیں پہنچے ،لوگ شادی کرنے ، بچے پیدا کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے اور اِس کی وجہ کوریا میں مہنگا معیار زندگی ہے جسے برقرار رکھنا بہت مشکل ہے ، انہی وجوہات کی بنا پر یہاں خودکشی کی شرح بھی ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ جنوبی کوریا کی مثال اُس خوشحال آدمی جیسی ہے جس کے خرچے ایک مخصوص معیار زندگی برقرار رکھنے کے لیے گھٹائے نہیں جا سکتے اور اُس کی آمدن ایک حد سے بڑھ نہیں پاتی اور یوں وہ خوشحال ہونے کے باوجود جنجال سے نہیں نکل پاتا ۔لیکن میرا مقصد جنوبی کوریا کے معاشی نظام پر ماتم کرنا نہیں ۔انسان پر ماتم کرنا ہے ۔

میں نے کہیں پڑھا تھا کہ انسا ن وہ واحد جاندار ہے جسے اِس دنیا میں زندہ رہنے کےلیے پیسہ کمانا پڑتا ہے ، کوئی بھی دوسرا جاندار اُن جھمیلوں میں نہیں پڑتا جن میں انسان نے خود کو ڈال رکھا ہے ۔لیکن یہ بات اتنی سادہ نہیں کیونکہ جانوروں کو بہرحال اپنی بقا کے لیے دوسرے جانوروں کا شکار کرنا پڑتا ہے۔انسان کا معاملہ مگر مختلف ہونا چاہیے ۔ انسان کے پاس عقل ہے ، شعور ہے، علم و دانش ہے ، اِس دنیا میں رہنے کے لیے اُس نے اخلاقیات اور قانون جیسے خوش کُن تصورات دیے ہیں اور اِن تصورات کی بنیاد پر مختلف نظام وضع کیے ہیں جن میں مساوات ، انصاف اور آزادی جیسے پُر کشش اصولوں کا سبق پڑھایا گیا ہے ۔لیکن Squid Game کو دیکھیں تو یوں لگتا ہے جیسے انسانی تہذیب کی یہ تمام بنیادیں کھوکھلی ہیں اور انسان بھی اپنی بقا کے لیے وہی کچھ کرنے پر مجبور ہے جو جانور کرتے ہیں ۔ یہ تحفہ سرمایہ دارانہ نظام کا ہے جو بقائے بہترین (survival of the fittest )کے اصول پر کھڑا ہے اور جس میں ’کامیابی ‘ کے لیے بعض اوقات دوسروں کے گلے بھی کاٹنے پڑتے ہیں ۔انگریزی میں اسے cut throat competition کہتے ہیں ۔نام نہاد ترقی کی اِس دوڑ میں وہ نا گزیر مراحل بھی آتے ہیں جب انسان کے پاس کسی دوسرے کو اپنے پاؤں تلے روند کر آگے بڑھنے کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں بچتا ۔ Squid Gameمیں بھی یہی دکھایا گیا ہے ۔وہ کھلاڑی جو وقت گزرنے کے ساتھ آپس میں مانوس ہو چکے ہیں اورایک دوسرے کے لیے محبت اور ہمدردی کے جذبات رکھتے ہیں ، وقت آنے پر وہی کھلاڑی اپنے ساتھی کی جان لینے سے بھی نہیں چوکتے بلکہ ایک کھیل میں تو شوہر اپنی جان بچانے کی خاطر بیوی کو شکست دے دیتا ہے جس کے بعد کھیل کے قواعد کی رُو سے اُ س کی بیوی کو مار دیا جاتا ہے ۔

ایک سوال اکثر میرے دماغ میں کلبلاتا ہے کہ انسان نے سائنسی ترقی تو خوب کر لی ، پتھر رگڑ کر آگ پیدا کرنے سے لے کر مریخ پر لینڈ کرنے تک کا سفرلاکھوں برس کا ہی سہی مگر معمولی نہیں ، لیکن کیا انسان نے سماجی اور اخلاقی اعتبار سے بھی اِسی سرعت کے ساتھ ترقی کی ہے ؟ لاکھوں برس میں عقل و دانش کے مختلف مدارج طے کرنے کے بعد آج بھی انسانی جبلت وہی ہے جو غار میں رہنے والے انسان کی تھی جسے اپنی بقا کے لیے جانوروں کا شکار کرنا پڑتا تھا ۔ فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ آج انسان غار میں نہیں رہتا ، پینٹ ہاؤس میں رہتا ہے اور پتوں سے اپنا جسم ڈھانکنے کی بجائے سوٹ اور ٹائی پہنتا ہے ، لیکن وقت آنے پر اُس کی وہی حیوانی جبلت بیدار ہو جاتی ہےجس میں وہ اپنے کنبے کی بقا کی خاطر کسی دوسرے کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ اِس کا یہ مطلب نہیں کہ انسانوں میں صرف یہی حیوانی صفت ہی پائی جاتی ہے ، دنیا میں بے شمار انسان ایسے گذرے ہیں جنہوں نے دوسرے انسانوں کی خاطر اپنی جان کی قربانی دی ہے۔مگر اصل المیہ وہی ہے جس کی طرف Squid Gameنے اشارہ کیا ہے کہ انسانوں کا بنایا ہوا یہ سرمایہ داری نظام ایسی نا انصافی کو جنم دے رہا ہے جس میں ارب پتی لوگ اپنی عیاشیوں کے لیے اچھوتے تجربات کر رہے ہیں اور غربت میں پسے ہوئے لوگ اُن کے نزدیک کیڑے مکوڑوں جیسے ہیں جنہیں ایسے تجربات میں استعمال کرکے تلف کیا جا سکتا ہے۔ لاکھوں برس میں بھی انسان اِس نا انصافی کا خاتمہ نہیں کر سکا۔ ’بے شک انسان خسارے میں ہے ۔‘

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 487 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments