لیلیٰ


رات حامد کا فون آیا تھا کہ لیلیٰ نے اپنی بچی کے ساتھ خودکشی کر لی، دونوں کی لاشیں گاڑی ملی تھیں۔ گاڑی کے شیشے چڑھے ہوئے تھے۔ نہ کوئی خودکشی کا خط تھا اور نہ کسی کے لئے کوئی پیغام۔ یہ خبر لاس اینجلس ٹائمز میں آئی تھی، جس کو کنفرم کر کے حامد نے مجھے فون کیا تھا۔ آٹھ سال کے بعد مجھے اس کی خبر ملی تھی اور خبر بھی ایسی کہ میں نہ چاہنے کے باوجود رو دیا تھا۔ ساری رات جاگتا رہا تھا، صبح اسپتال میں بھی کوئی کام نہیں کر سکا تھا۔ بند کمرے میں بیٹھا اپنے بارے میں، اپنی زندگی کے بارے میں، اس کے بارے میں، اس کی زندگی کے بارے میں سوچتا رہا تھا۔ مجھے تو پتہ بھی نہیں تھا کہ اس کی بچی بھی ہے، اس کی شادی بھی ہوئی ہے، وہ لاس اینجلس میں ہے۔ میں سوچتا رہا اور تڑپتا رہا اس کرب انگیز خیال کے ساتھ کس طرح سے وہ مری ہوگی، کیسے اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنی بچی کو زہر دیا ہو گا۔ وہ تو بہت بہادر تھی، جن حالات سے وہ گزری تھی ان میں تو انسان سیسہ ہوجاتا ہے۔ کیوں، آخر کیوں اس نے ایسا کیا تھا؟ میں اپنے آپ سے الجھتا رہا تھا، کڑھتا رہا تھا۔ وارڈ میں لوگ سمجھ رہے تھے کہ بند کمرے میں میں کوئی خاص کام کر رہا ہوں مگر میں بند کمرے میں اپنے آپ میں مر رہا تھا۔ دوپہر کو پوسٹ مین کچھ خط لے کر آیا تھا۔ سب سے اوپر امریکہ کا ٹکٹ لگا ہوا ایک لفافہ تھا جس کی ہینڈ رائٹنگ کو میں فوراً ہی پہچان گیا تھا۔ وہی رائٹنگ تھی بڑی بڑی، لیلیٰ گل کی۔ اس نے خودکشی کرنے سے پہلے مجھے خط لکھا تھا۔

میں نے جس دن ہیمر اسمتھ اسپتال جوائن کیا تھا اسی دن وہ مجھے نظر آئی تھی۔ بلا کی خوبصورت تھی وہ۔ کھلتا ہوا رنگ تھا اور اس نے بہت ہی اچھا سا اسکرٹ پہنا ہوا تھا۔ میں تو یہی سمجھا تھا کہ وہ انگریز ہے۔ وہ مجھے ڈاکٹروں کے کافی کے کمرے میں ملی تھی۔ بہت ہی خشک رویہ تھا اس کا، جیسے کوئی بھی بات نہیں کرنا چاہ رہی ہو۔ مجھے بھی خواہ مخواہ بات کرنے کا شوق نہیں تھا مگر وہ میرے دل میں ایک ہیجان سا پیدا کر گئی تھی۔ میں نئی نوکری اور اس کے معمولات سمجھنے میں الجھ گیا تھا۔ ایک ہفتے بعد مجھے ایک دوسرے پاکستانی ڈاکٹر سے پتہ لگا تھا کہ اس کا نام لیلی ہے اور وہ انگریز نما لڑکی پاکستانی ہے، جو کسی بھی پاکستانی ڈاکٹروں سے ملنا جلنا تو دور کی بات ہے، بات تک نہیں کرتی ہے۔ میں فوراً ہی سمجھ گیا تھا کہ وہ پاکستان کے کسی امیر باپ کی بگڑی ہوئی اولاد ہوگی جو یہاں انگریزوں سے زیادہ انگریز بن گئی ہے۔ مجھے بھی اس سے بات کرنے کا یا ملنے جلنے کا کوئی خاص شوق نہیں تھا۔

پھر وہ ایک میٹنگ میں نظر آئی تھی۔ یہ ہمارے اور اس کے ڈپارٹمنٹ کی مشترکہ میٹنگ تھی جس میں حمل کے دوران مرجانے والے بچوں کی پوسٹ مارٹم رپورٹ پر ڈسکشن ہوتا تھا اور یہ بات معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی تھی کہ غلطی کہاں پر کس سے ہوئی ہے تاکہ آئندہ ان غلطیوں کو روکا جا سکے۔ پچھلے ماہ کی رپورٹ اس نے ہی مرتب کی تھی۔ میٹنگ تقریباً ایک گھنٹے جاری رہی۔ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ بلا کی خوبصورت ہی نہیں ہے بلکہ بلا کی ذہین بھی ہے۔ پاکستان کے امیر لوگوں کا سرخ و سفید رنگ، اس پر لندن کی بہترین دکانوں کا انگریزی کپڑا اور انگریز کے ہی انداز میں ساری باتیں، مجھے یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی تھی کہ وہ اپنے ڈپارٹمنٹ میں بہت قدر کی نظر سے دیکھی جاتی ہوگی۔ اس مرتبہ بھی بڑا خشک رویہ تھا اس کا۔ نہ چاہنے کے باوجود دل میں ایک شدید خواہش سی اٹھی تھی اس سے بات کرنے کی اور سچی بات تو یہ ہے کہ اسے جیت لینے کی۔

تیسری ملاقات کچھ اچھے حالات میں نہیں ہوئی تھی۔ اس رات میں ڈیوٹی پر تھا۔ اور کیژولٹی سسٹر نے مجھے بلایا تھا کہ فوراً پہنچوں۔ لیلیٰ وہاں پہلے سے موجود تھی مجھے اس کی شکل سے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ بہت ہراساں ہے۔ آٹھ سال کی ایک بچی کو اس کی ماں لے کر آئی تھی۔ پہلے بچوں کے ڈاکٹر کو بلایا گیا تھا، پھر لیلیٰ نے گائنی کے ڈاکٹر کو بلانے کے لئے کہا تھا۔ آٹھ سال کی اس بچی کو کسی نے زد و کوب کیا تھا اور جبری طور پر جنسی زیادتی کی تھی۔ دہشت زدہ بچی تقریباً شاک میں تھی اور اس کے ماں باپ حیران و پریشان کھڑے تھے۔ انگلینڈ میں اس قسم کے واقعات خاصے ہوتے ہیں۔ گائنی میں کام کرنے کے دوران ہر کچھ ہفتوں اور مہینوں کے بعد ایسے ہی کسی مریض کو دیکھنا پڑ جاتا ہے۔ میں بچوں پر جنسی زیادتی پر ایک مقالہ بھی لکھ چکا تھا اور ایسے مریضوں کو دیکھ کر اور ان کا علاج کر کے کافی مطمئن سا محسوس کرتا تھا۔ جیسے ہی مجھے واقعے کی سنگینی کا احساس ہوا میں نے فوراً معمول کے مطابق بچی کو دیکھا۔ اسے ایک چھوٹے سے آپریشن کی ضرورت تھی کیونکہ ابھی تک خون بہہ رہا تھا جس کے لئے میں نے اسے فوراً ہی آپریشن تھیٹر بھیج دیا، بے ہوش کرنے والے ڈاکٹر کا انتظام کیا تھا، بچی کے ماں باپ سے بات کی تھی اور انہیں آپریشن کی نوعیت سمجھائی تھی۔ وہ لوگ سخت پریشان تھے۔ میں نے اپنی عادت کے مطابق بہت ہمدردی سے ان سے بات کی تھی۔ میں تقریباً بھاگتا ہوا جب تھیٹر پہنچا تھا تو تھیٹر کے دروازے پر لیلیٰ کھڑی تھی۔ اس نے مجھ سے پوچھا تھا کہ ”کیا وہ بھی اندر آ سکتی ہے“ میں نے فوراً ہی کہا تھا ضرور۔

آدھے گھنٹے میں تھیٹر کا کام ختم ہو گیا تھا۔ بچی کے ہوش میں آنے کے بعد میں نے اسے بچوں کے وارڈ میں ایک الگ کمرے میں داخل کر دیا اس تمام عرصے میں لیلیٰ مجھے خاموشی سے دیکھتی رہی تھی اور اپنا کام بھی کرتی رہی تھی۔ رات پانچ بجے میں فارغ ہو کر بستر پر گرا تھا۔ میں سات بجے صبح تیار ہو کر اسپتال پہنچا تھا کہ باس لوگوں کے آنے سے پہلے پہلے سارے مریض دوبارہ دیکھ لوں۔ سب سے پہلے میں بچوں کے وارڈ میں پہنچا تھا۔ کیرولین سو رہی تھی۔ میں نے اسے بڑی مقدار میں درد دور کرنے کی دوا دی تھی، میں اسے دیکھ کر اس کے ماں باپ سے بات ہی کر رہا تھا کہ میں نے دیکھا لیلیٰ بڑی خاموشی اور توجہ سے میری بات سن رہی تھی۔ وہ رات بھر وہاں تھی اور پہلی دفعہ مجھے دیکھ کر مسکرائی تھی۔

کیرولین کو ایک ہفتہ اسپتال میں رہنا پڑا تھا۔ اس کا علاج ہو رہا تھا۔ اسے بچوں کے ماہر نفسیات نے بھی دیکھا تھا کیونکہ ایسے بچے اگر بار بار نہ دیکھے جائیں تو ان کے ذہنوں پر ایک عجیب قسم کا غبار سا رہ جاتا ہے۔ وہ تمام زندگی ایک خلش کے ساتھ زندہ رہتے ہیں۔ انسانی رشتوں اور انسانی تعلقات کے بارے میں ان کے خیالات بدل کر رہ جاتے ہیں۔ انہیں بہت دنوں تک سائیکاٹرسٹ دیکھتے رہتے ہیں او ران کے والدین کو بھی اس قسم کے علاج کی ضرورت ہوتی ہے اور شاید یہ کبھی بھی بالکل نارمل نہیں ہو پاتے ہیں۔ پورے ہفتے بڑی پابندی سے میں اس بچی کو صبح شام دیکھتا رہا تھا۔ میں جب بھی گیا تھا مجھے لیلیٰ وارڈ میں ہی ملی تھی۔ میں نے محسوس کیا تھا کہ اسے بھی اس قسم کے بچوں کا علاج کرنے کا شوق ہے۔ وہ مجھ سے سوال کرتی رہی تھی، میں بھی اس کی باتیں سنتا رہا تھا میں اور بھی زیادہ مرعوب ہو کر رہ گیا تھا۔ پھر ہم دونوں دوست بن گئے تھے۔

وہ پشاور کی رہنے والی تھی اور لاہور کے فاطمہ جناح میڈیکل کالج سے اس نے ایم بی بی ایس کیا تھا۔ انگلینڈ آ کر اس نے پلیب کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد بچوں کی بیماریوں میں ممبر شپ کا امتحان بھی پاس کر لیا تھا۔ ہیمر اسمتھ اسپتال میں وہ گزشتہ اٹھارہ مہینوں سے کام کر رہی تھی۔ ہماری دوستی بڑی تیزی سے آگے بڑھی تھی۔ ہم دونوں کے شوق مشترک تھے۔ میں بھی گارڈین اخبار پڑھتا تھا اسے بھی گارڈین ہی اچھا لگتا تھا، اسے بھی بی بی سی دو کے پروگرام بھاتے تھے، مجھے بھی بی بی سی دو کو دیکھے بغیر نیند نہیں آتی تھی۔ مجھے بھی کرکٹ اور عمران خان سے چڑ تھی، اس کے پاس بھی اس قسم کے لوگوں کے لئے وقت نہیں تھا۔ ہم دونوں امیتابھ بچن اور ہندوستانی فلموں کو دیکھنے میں وقت ضائع نہیں کرتے تھے۔

دوسرے پاکستانی ڈاکٹروں کو سخت حیرانی تھی کہ میں نے کس طرح سے لیلیٰ سے دوستی کرلی تھی، دوستی بھی ایسی کہ ہیمراسمتھ اسپتال کے سامنے ڈیوکن روڈ پر بنے ہوئے ڈاکٹروں کے مکانوں پر کبھی میں اس کے گھر پر کھانا کھا رہا ہوتا تھا یا وہ میرے فلیٹ میں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی ہوتی تھی۔ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ عام طور پر وہ مردوں اور پاکستانی مردوں سے شدید نفرت کرتی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ عام طور پر سارے لوگ عمران خان جیسے ہی ہوتے ہیں۔ عیاش اور اوباش، لڑکیوں کے پیچھے بھاگنے والے، دو پیسے کی حرکتیں کرنے والے، اخبار میں تصویر چھپوانے کے شائقین لوگ۔ تصویر کھنچوانے کے لئے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار۔

اس نے ایک دن مجھ سے کہا تھا کہ میں بالکل بھی پاکستانی نہیں ہوں۔ اس کا خیال تھا کہ کیونکہ میں گائنی میں کام کرہاً ہوں اور عورتوں کا علاج کرتا ہوں، اس لئے مجھ میں مردوں کی کرختگی ختم ہو گئی ہے اور میں عورتوں کی طرح مہربان ہو گیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ جس طرح سے میں نے کیرولین کو دیکھا تھا، ایسے تو صرف حساس لوگ ہی کر سکتے ہیں۔ میں اس کی بات پر مسکرا دیا تھا۔

ہم دونوں وقت کے ساتھ ساتھ قریب آتے چلے گئے تھے۔ میں سوچتا تھا کہ زندگی لیلیٰ کے ساتھ بہت خوبصورت گزرے گی۔ وہ ایسی ہی سمجھدار تھی جیسے میری بیوی کو ہونا چاہیے تھا۔ تمام تر بے تکلفی کے باوجود مجھ میں ہمت نہیں تھی کہ میں اس سے اپنی محبت کا اقرار کرتا، اس کی محبت کا سوال کرتا اور کہتا کہ میں یہ زندگی اس کے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں۔ ایک فاصلہ تھا جو ابھی تک موجود تھا، ایک دوری تھی جو ختم نہیں ہوتی تھی، ایک چاہت تھی جس کا اظہار ممکن نہ تھا۔

ایک دن باتوں باتوں میں وہ کہنے لگی کہ وہ امریکن امتحان دے رہی ہے کیونکہ انگلستان میں اسے مستقل اور اچھی نوکری نہیں ملے گی۔ اس نے مجھ سے بھی کہا تھا کہ میں بھی امتحان دوں مگر میرا پاکستان کے علاوہ کہیں اور رہنے کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔ لہٰذا میں نے کہا تھا کہ مجھے تو اب ٹریننگ ختم کر کے واپس جانا ہے، میں انگلینڈ یا امریکہ میں کیا کروں گا۔ اس نے بڑی حیرت سے کہا تھا ”تم اس پاگل ملک میں واپس جاؤ گے، ارے پاکستان بھی کوئی ملک ہے، ارے انسان تھوڑی رہتے ہیں وہاں پر۔ جنگلیوں اور وحشیوں کا ملک ہے وہ۔“ اسے تقریباً غصہ سا آ گیا تھا۔ میرے دل میں ایک ٹیس سی اٹھی تھی، ایک درد سا اٹھا تھا۔ ٹھیک ہے پاکستان میں کرپشن ہی کرپشن ہے، لیکن ہے تو اپنا ملک، اپنے ملک سے کیسی نفرت۔ اس کی آنکھوں سے جیسے شعلے نکل رہے تھے، نفرت کی چنگاریاں اٹھ رہی تھیں۔ میں نے بات ٹال دی تھی۔

ایک دن ہم دونوں لسٹر اسکوائر پر اپنے پسندیدہ تھائی ریسٹورنٹ میں کھانا کھا رہے تھے۔ وہ بہت ہی اچھے موڈ میں تھی۔ اپنے مخصوص انداز میں دنیا جہان کی باتیں کر رہی تھی اور بڑے کھرے انداز میں لوگوں کے دوہرے معیار پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہی تھی کہ نہ جانے مجھ میں کیسی ہمت آ گئی۔ میں نے اس سے کہا تھا ”لیلیٰ برا تو نہیں مانو گی، اگر ایک بات کہوں۔“ وہ ہنس دی تھی ”ضرور کیوں نہیں کیوں برا مانوں گی۔ تم دوست ہو، اچھے دوست ہو۔ پہلے پاکستانی ہو جس پر میں اعتبار کر سکتی ہوں۔ تم اچھے دوست بھی ہو، اچھے ڈاکٹر بھی ہو، بولو ایسی کیا بات ہے۔“

میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر کہا تھا ”مجھ سے شادی کرلو۔ میں تمہیں بہت چاہتا ہوں۔“ وہ جیسے گڑبڑا گئی تھی پھر زور سے ہنسی تھی۔

”نہیں رضوان۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ تم تو مجھے جانتے بھی نہیں ہو، نہ میرے خاندان کو نہ میرے ماضی کو۔ پھر میں تم سے شادی کیسے کر سکتی ہوں۔ ایک بات اور ہے جب تم کو میرے بارے میں پتہ لگے گا تو تم خود ہی مجھ سے شادی نہیں کرو گے۔ ارے جو میں نظر آتی ہوں وہ میں نہیں ہوں۔“ پھر وہ زور سے ہنسی تھی۔ ”ارے بدھو پھر تم کو تو پاکستان واپس جانا ہے مجھے اس ملک میں کبھی بھی نہیں جانا ہے نہ زندہ نہ مردہ۔ اگر تم سے میں نے شادی کر بھی لی تو تم تو یہاں رکو گے نہیں۔“ وہ پھر ہنس دی میں نے کہا تھا ”دیکھو لیلیٰ یہ تو بعد کی بات ہے۔ پہلے تم اس بات پر راضی ہو جاؤ کہ تم مجھ سے شادی کرو گی۔ دیکھو میں بری طرح سے تم کو چاہتا ہوں ایسا میرے ساتھ کبھی بھی نہیں ہوا۔ کوئی لڑکی کالج سے لندن تک مجھے نہیں بھائی ہے۔ تم تو جیسے میرے دل و دماغ پر چھا گئی ہو۔ تم بہت اچھی ہو، ذہین ہو، خوبصورت ہو اور تمہارا ذہن جتنا خوبصورت ہے اس کا اندازہ تو تم کر ہی نہیں سکتی ہو۔“ میں نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا تھا۔ پہلے بھی کئی بار میں نے اس کا ہاتھ پکڑا تھا، اس کی انگلیوں کو چھوا تھا، اس کے کاندھوں کو تھپتھپایا تھا مگر اس دن کی بات اور تھی۔ پہلے جو کچھ ہوا تھا وہ معصومیت تھی، اس دن التجا تھی، تمنا تھی، آرزو تھی، خواہش تھی، پیار تھا۔ میرا دل جیسے پگھل کر میری رگوں میں خون کے ساتھ دوڑ رہا تھا۔ مجھے ایسا لگا تھا جیسے آہستہ آہستہ دھیرے دھیرے یہ پگھلا ہوا دل میری انگلیوں کے پوروں سے اس کے ہاتھوں میں اترتا جا رہا ہے۔ اس نے کوئی مزاحمت نہیں کی تھی۔ ہاتھ نہیں ہٹایا تھا۔ ایک لمحے کے لئے ایک غمزدہ سی مسکراہٹ کے بعد اس نے اپنا دوسرا ہاتھ بھی میرے ہاتھ پر رکھ دیا تھا۔ پھر بولی تھی ”ارے مجنوں، میں وہ لیلیٰ نہیں ہوں۔ تم مجھے اچھے لگتے ہو اور تم ہو بھی بہت اچھے۔ مگر شادی ممکن نہیں ہے۔ تم خود ہی نہیں کرو گے۔ تم میرے بارے میں کچھ جانتے ہی نہیں ہو۔ تم کچھ اور ہو، میں کچھ اور۔ شاید میں تمہارے قابل بھی نہیں ہوں۔“

میں بیچ میں ہی بول اٹھا تھا۔ ”دیکھو لیلیٰ یہ تو مجھے پتہ ہے کہ تم کسی کی منگیتر نہیں ہو اور اگر ماضی میں تمہارا کچھ رشتہ ٹوٹا ہے تو مجھے اس سے غرض نہیں ہے۔ اگر تمہارا شوہر ہے کوئی تو تم اس کے ساتھ نہیں ہو۔ اگر طلاق کا مسئلہ ہے تو یہ بھی میرے لئے قابل قبول ہے۔ میں سب سے ٹکرا جاؤں گا تمہارے لئے۔ تم ہاں تو کہو۔“

اس نے ہاں نہیں کہا تھا بلکہ نہ ہی کرتی رہی تھی۔ ہم کھاتے رہے تھے، میں بولتا رہا تھا وہ نہ کرتی رہی تھی۔ پھر جانے کا وقت ہو گیا تھا۔ لسٹر اسکوائر سے ہم لوگوں نے ٹیوب پکڑی تھی۔ میں اداس تھا، خاموش تھا اور سوچ رہا تھا کہ نہ جانے اب ہمارے تعلقات کیسے ہوں گے۔ راستے میں وہ بولی تھی۔ ”رضوان، آج کی شام خوبصورت تھی اسے یاد رکھوں گی، تم بھی یاد رکھنا اور کل سے مجھ سے بات کرنا یا ملنا مت بند کر دینا۔ پاکستانی مت بن جانا۔ میں نے تمہاری کسی بات کا برا نہیں منایا ہے۔ تم مجھے بہت عزیز ہو اور عزیز رہو گے۔ یہ دوستی برقرار رکھنا۔ تمہاری دوستی مجھے بہت عزیز ہے۔ ہم نے اچھا وقت گزارا ہے۔

مجھے ایک سکون سا ہو گیا تھا۔ ہیمر اسمتھ کے اسٹیشن پر میری گاڑی تھی، میں نے اسے اس کے فلیٹ پر اتار دیا تھا۔ اس نے مسکراتے ہوئے خدا حافظ کہا تھا۔ مجھے ایسا لگا تھا جیسے اس کی آنکھوں میں موتی ہیں بڑے بڑے۔ ابھی میں جاؤں گا اور آنسو بن کر چھلک جائیں گے۔

دوسری صبح ملی تھی ویسے ہی جیسے روز ملتی تھی۔ نکھری ہوئی، اپنے مخصوص انداز میں۔ زندگی کا سفر چلتا رہا تھا۔ ہم دونوں ملتے رہے۔ مجھے یہ تو پتہ تھا کہ وہ مجھے پسند کرتی ہے مگر اتنا پسند کرتی ہے کہ مجھ سے شادی کرے گی، میں اندازہ نہیں کر سکتا تھا۔ میری محبت میں شدت آتی گئی تھی میں اس کا احترام کرتا تھا۔ اس سے کہتا نہیں تھا مگر وہ میرے حواسوں پر مکمل طور پر قابض ہو چکی تھی۔

ایک روز دوپہر کو وہ مسکراتی ہوئی ملی تھی۔ ”ارے رضوان، میرا رزلٹ آ گیا ہے۔ میں نے امریکن امتحان پاس کر لیا ہے۔“ میں نے بڑے دکھے دل سے مبارکباد دی تھی۔ مجھے یقین تھا اس کے اسی فیصد سے زیادہ نمبر آئے ہوں گے۔ اس نے کہا تھا کہ ایک پیپر میں 83 اور ایک میں 87 فیصد نمبر آئے ہیں۔ میرے دل میں ہوک سی اٹھی تھی۔ اب وہ امریکہ چلی جائے گی مجھے چھوڑ کر۔ میں نے ایک لمحہ کے لئے سوچا کہ کیوں نہ میں بھی امریکہ چلا چلوں۔ مگر دوسرے لمحے ہی یہ خیال میرے دماغ سے نکل گیا تھا۔ مجھے ہر حالت، ہر صورت میں پاکستان واپس جانا تھا۔ میری بہن، میرا بھائی، میری ماں وہاں تھے۔ میں نے مرتے وقت اپنے باپ سے آنکھوں آنکھوں میں وعدہ کیا تھا۔ میں خیال رکھوں گا اس گھر کا، اپنے خاندان کا، میں سب کچھ کروں گا مگر یہ نہیں کروں گا۔ میں نے مسکرا کر کہا تھا ”اب تو کھانا کھلانا ہو گا تمہیں۔“

”ضرور، ضرور کیوں نہیں؟ آج ہی شام کو چلیں۔ ڈیوٹی پر نہیں ہو۔ میں نے روٹا دیکھ لیا ہے۔“

شام کو ہم لوگوں نے کوونٹ گارڈن پر جاپانی ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا۔ بہت ہی لذیذ کھانا تھا اور وہ خوش تھی اور معمول کے مطابق دنیا جہان کی باتیں کر رہی تھی۔ میں سن رہا تھا، ہنس رہا تھا، ایک نقصان کے احساس کے ساتھ۔ دل تھا کہ جیسے بیٹھے بیٹھے جا رہا تھا۔

کھانا کھا کر میں نے ہی کہا تھا۔ ”آؤ تھوڑی واک کرتے ہیں لسٹر اسکوائر کی طرف اور وہاں پر آئس کریم کھاتے ہیں۔“

”میں بھی یہ سوچ رہی تھی، اس نے جواب دیا تھا۔ ویسے بھی ہماری گاڑی وہیں پر کھڑی تھی کیونکہ پارکنگ کی جگہ وہیں ملی تھی۔ یکایک میری نظر سینما ہال پر پڑی تھی“ ارے اس فلم کا بڑا نام ہے۔ چلو دیکھتے ہیں۔ ”اسی ہفتے جوڈی فوسٹر اور کیلی مگی لس کی فلم“ ایسالٹ ”ریلیز ہوئی تھی۔ میں نے گارڈین میں بہت اچھا ریویو پڑھا تھا اس کے بارے میں۔ ہمارے بعد ٹکٹ ختم ہو گیا تھا۔ یہ بڑی پریشان کن فلم تھی، ایک ایسی لڑکی کی کہانی جسے چند مردوں نے مل کر اپنی ہوس کا نشانہ بنایا تھا۔ جوڈی فاسٹر کی اداکاری حقیقت ہی لگتی تھی۔ فلم بہت ہی جاندار تھی۔ میری آنکھوں میں بے اختیار آنسو آ گئے تھے۔ میں نے دیکھا تھا کہ لیلیٰ روئے جا رہی ہے، کپکپا رہی ہے اس نے میرے ہاتھ بڑے زور سے پکڑ لئے تھے۔ میں نے کہا بھی تھا کہ چلتے ہیں۔ مگر اس نے کہا تھا“ نہیں رضوان یہ اچھی مووی ہے۔ اسے دیکھنا ہے۔ ”

فلم کے بعد ہم دونوں بوجھل دلوں سے باہر آئے تھے۔ یہ بات کہ یہ فلم حقیقت پر مبنی تھی اس نے مجھے سخت پریشان کیا ہوا تھا۔ اپنی اپنی سوچوں میں گم ہم لوگ ڈیوکن روڈ پہنچ گئے تھے۔ اس نے کہا تھا آ جاؤ رضوان کافی پی کے جاؤ۔

مجھے بھی کافی کی سخت چاہ ہو رہی تھی لہٰذا منع نہ کر سکا۔ اس نے جلدی سے کافی بنالی تھی پھر کہنے لگی ”رضوان لوگ یہ کیسے کرتے ہیں؟ جو کچھ اس فلم میں تھا کتنا بھیانک تھا، خوفناک تھا، اف خدایا“ میں نے دیکھا تھا اس کی آنکھوں میں آنسو اتر آئے تھے۔ میں نے کہا تھا ”لیلیٰ دنیا میں اچھے لوگ بھی ہیں۔ ایسا ہمیشہ تو نہیں ہوتا ہے۔“

”لیکن جس کے ساتھ ہوتا ہے اس کی تو زندگی برباد ہوجاتی ہے رضوان۔“ بات صحیح تھی میں کچھ کہہ نہیں سکا تھا۔

پھر وہ خود ہی بولی تھی ”اس وقت میری عمر صرف دس سال تھی۔ ایک دن میں کسی کام سے اپنے چچا کے گھر، جو بالکل ہمارے بازو میں رہتے تھے گئی تھی۔ ہم لوگ پشاور سے تھوڑا باہر رہتے تھے۔ میرے چچا کے پاس گھوڑے بھی تھے۔ ہمارے اور ان کے گھر کے درمیان میں اصطبل سا تھا۔ میں وہاں سے گزر ہی رہی تھی کہ انہوں نے مجھے روک لیا تھا۔ وہ عجیب گھڑی تھی۔ اس دن میرے سگے چچا نے مجھے پامال کیا تھا۔ میں بہت معصوم تھی رضوان۔ مجھے کچھ پتا نہیں تھا۔ میں ان کی ہوس کی نذر ہو گئی تھی۔ جب مجھے کچھ سمجھ میں آیا تو میرے آنسو نکل گئے تھے۔ مجھے آج تک اس کی خونی نظریں یاد ہیں۔ اس نے جھپٹ کر ایک مرغی پکڑ لی تھی اور دیوار پر رکھے ہوئے چاقو سے مرغی کو اپنے پیروں تلے دبا کر اس کی گردن کاٹ دی تھی۔ خون ہی خون چاروں طرف تھا اور مرغی پھڑک رہی تھی، دم توڑ رہی تھی، اس نے مجھ سے کہا تھا آج کی بات کبھی بھی کسی کو بتائی تو تمہارا بھی یہی حشر کردوں گا۔ وہ اس دن میرے ساتھ میرے گھر تک آیا تھا۔ کئی رات میرے خواب میں وہ مرغی پھڑکتی رہی تھی رضوان۔ وہ دن میری بربادی کا آغاز تھا۔ سولہ سال کی عمر تک وہ مجھے گاہے بگاہے پامال کرتا رہا۔ ایک خوف کے تحت میں کسی سے کچھ بھی نہ کہہ سکی۔ پھر مجھے یہ بھی پتہ تھا کہ میرے والد کبھی بھی میری بات نہیں مانتے۔ مجھے نہیں لگتا تھا کہ میں اپنی ماں کو بھی یہ بات بتا سکتی ہوں۔ اس نے خوف شرم اور احساس پشیمانی کا ایک عجیب سا جال میرے چاروں طرف بن دیا تھا۔ میں شدید نفرت اور غصے کے باوجود اس غلیظ انسان کا شکار بنتی رہی تھی۔ یہاں تک کہ میرا داخلہ فاطمہ جناح میڈیکل کالج لاہور میں ہو گیا تھا۔ ایک طرح سے یہ میری آزادی کا آغاز تھا۔ میں کم از کم چھٹیوں پر آتی تھی اور آنے کے بعد کبھی بھی اکیلے نہیں ہوتی تھی اور ایک دن اس غلیظ انسان کو میں نے کہہ دیا تھا کہ میں جلد ہی اس کے بارے میں سب کو سب کچھ بتا دوں گی۔ اس نے نہ جانے میرے باپ سے کیا کہا تھا کہ گھر کے سب لوگ مجھ سے ہی نفرت کرنے لگ گئے تھے۔ پھر لاہور سے میں گھر نہیں گئی تھی۔ میں اپنی چھوٹی بہن کے لئے روتی تھی۔ شاید اس کے ساتھ بھی ایسا ہوا ہو۔ مجھے اس دنیا کے ہر مرد سے نفرت ہو گئی تھی۔ میرا ہر رشتے سے اعتبار اٹھ گیا تھا۔ ڈاکٹر بننے کے بعد میں نے محنت کر کے پیسہ جمع کیا تھا اور انگلینڈ آ گئی تھی۔ بہت سے لوگوں نے کوشش کی تھی کہ میری زندگی میں آنے کی، میں نے نفرت کی ہے ہر ایک سے، مرد ذات سے اور ہر مرد سے۔“ اتنا کہہ کروہ خاموش ہو گئی تھی اس کا جسم کپکپا رہا تھا، اس کے آنسو ایسے ابلے تھے جیسے برسات۔

میری سمجھ میں نہیں آتا تھا، مگر میری سمجھ میں سب کچھ آ گیا تھا۔ میں اٹھا اس کے قریب گیا، اس کے آنسو پونچھے تھے، اسے اپنے گلے سے لگایا تھا اور میں خود بھی رو دیا تھا۔ ”لیلیٰ لیلیٰ تم پر یہ سب کچھ کیسے گزر گئی۔ تم نے کتنے دکھ اٹھائے ہیں۔“ میرا دل کرتا تھا کہ میرا سینہ پھٹ جائے اور لیلیٰ کو میں اپنے سینے میں بسا لوں۔ مجھے ایسا لگا تھا جیسے اسے بھی آرام ملا ہے، ایک سکون کا احساس تھا۔ میں نے دھیرے سے کہا تھا ”لیلیٰ میں تم سے شادی کروں گا۔ ضرور کروں گا، چاہے دنیا کچھ بھی کہے، تمہارے ماں باپ، تمہارا خاندان اور تمہارا خبیث چچا۔“

تھوڑی دیر کے بعد وہ بولی تھی ”میں تم سے شادی کرلوں گی رضوان۔ مگر میرے ساتھ امریکہ چلو۔ اس تمہارے ملک پاکستان میں میرے لئے کچھ نہیں ہے۔ بھیانک یادیں، خوفناک خواب، بچپن کا پچھتاوا اور مستقبل کا خوف۔ اور گھٹن ہی گھٹن۔ میں وہاں مرجاؤں گی۔“

وہ رات میں نے کروٹوں میں گزاری تھی۔ وہ ہفتہ میری زندگی کا اندوہناک ہفتہ تھا۔ ہم روز ملے تھے، ہم روز روئے تھے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کی شدید چاہت میں مبتلا تھے۔ ہم دونوں ساتھ رہنا چاہتے تھے، ہم دونوں کی آشائیں تھیں اور ہم دونوں کی شرائط تھیں۔ ہم دونوں ساتھ تھے اور ہم دونوں اکیلے تھے، تنہا تنہا۔ نہ اس نے میری بات مانی تھی کہ وہ میرے ساتھ پاکستان چلے اور نہ میں یہ فیصلہ کر سکا تھا کہ پاکستان واپس نہ جاؤں۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے پیار کے ساتھ الگ الگ راستوں پر چل نکلے تھے۔

پھر وہ امریکہ چلی گئی تھی، جہاں اس کو ایک بہت اچھے پروگرام میں نوکری مل گئی تھی۔ میں نے کانپتے ہاتھوں سے اس کا سامان باندھا تھا، سسکتے دل سے اسے رخصت کیا تھا۔ وہ آخری رات میری زندگی میں ہمیشہ رہے گی، ہم ساری رات باتیں کرتے رہے تھے۔ میں نے یہ سوچا تھا کہ شاید وہ واپس آ جائے گی۔ اس نے سوچا تھا کہ میں پاکستان میں نہیں رک سکوں گا۔ صبح سویرے میں نے اسے آخری دفعہ چوم کر ہیتھرو ائرپورٹ سے رخصت کیا تھا، اس امید کے ساتھ کہ ہم دونوں پھر ملیں گے۔

امریکہ سے اس نے کبھی بھی خط نہیں لکھا تھا نہ فون کیا تھا۔ میں پاکستان واپس آ کر بھی اسے نہیں بھلا سکا تھا۔ ماں کی ضد کے باوجود وہ میرے دل و دماغ سے نہیں نکلی تھی، ایک امید تھی، ایک آس تھی کہ ایک دن وہ آ جائے گی۔ وہ تو نہیں آئی تھی۔ پہلے اس کی خودکشی کی خبر آئی تھی اور اب اس کا خط میرے سامنے رکھا تھا۔ میں نے کپکپاتے ہاتھوں سے وہ لفافہ کھولا تھا۔ اس نے لکھا تھا۔

”جان سے پیارے رضوان۔

یہودیوں کی ایک کہاوت ہے کہ خدا ہر جگہ نہیں ہوتا ہے۔ جہاں وہ نہیں ہوتا ہے وہاں ماں ہوتی ہے۔ میرا خدا تھا نہ میری ماں۔ مجھے دونوں کی موجودگی میں پامال کیا گیا تھا۔ تم سے بچھڑ کر میں نے کوشش کی کہ تمہیں بھول جاؤں۔ تمہارے جیسا ایک آدمی مجھے ملا تھا اور میں نے اس سے شادی کرلی تھی، مگر یہ بھی دھوکہ ہی نکلا تھا۔ یہ مرد بھی ویسا ہی نکلا تھا جیسے سب ہوتے ہیں۔ میں نے زندگی گزارنے کا وعدہ کیا تھا مگر کل مجھے پتہ لگا تھا کہ میری سات سالہ بیٹی کو میرا ہی شوہر، اس کا باپ پامال کر رہا ہے۔ میں اس کی حفاظت میں ناکام ہو گئی ہوں۔ جیسے میری ماں میری حفاظت نہیں کر سکی تھی۔ اب وہ بھی اس مستقل خراش کے ساتھ زندہ رہے گی۔ میری طرح نفرت سے بھرپور زندگی کا کیا فائدہ ہے؟ ایک احساس گناہ کے ساتھ۔ میں اپنی بیٹی کے ساتھ آج خودکشی کرلوں گی۔ جب تمہیں یہ خط ملے گا اس وقت ہم لوگ دور بہت دور پہنچ چکے ہوں گے۔ مجھے تم سے بھی معافی مانگنی ہے۔ مجھے معاف کر دینا کہ میں نے تم سے شادی نہیں کی۔ کاش میں تمہیں اپنا لیتی۔ چاہے پاکستان ہی آنا پڑتا۔ میں تمہارے ساتھ ہمیشہ خوش رہتی۔ تم ایک واحد مہربان روح تھے جس کا سایہ میں اب بھی محسوس کر رہی ہوں۔ تم میری زندگی کے پہلے اور آخری مرد تھے۔ مجھے معاف کر دینا۔ تمہاری لیلیٰ ”

میرا سر گھوم رہا تھا۔ کاش میں مر جاتا، کاش میں مر جاتا۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments