بہت دیر کی مہرباں آتے آتے


حکومت اور فوج کےدرمیان کئی دنوں کی باہمی چپقلش اور بحث و مباحثے کے بعد خیر سےکور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کو ڈی جی آئی ایس آئی کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان جنرل فیض حمید کو ایکسٹینشن دینے پر مصر تھے جبکہ فوج کا اپنا ایک نظم و ضبط ہے اور فوج اُنہی اُصولوں پر کاربند رہتی ہے۔ آرمی چیف نے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو کور کمانڈر پشاور اور کور کمانڈر کراچی کو ڈی جی آئی ایس آئی بنانے کی منظوری دو ہفتےقبل ہی دے دی تھی۔ مگر وزیراعظم نے اس پر اعتراض کیا اور دو ہفتےاسی ناراضگی کی نذر ہوگئے۔
نذر کیا ہوئے پاکستان ہی نہیں بلکہ پڑوسی ملک میں بھی طوفان مچا ہوا تھا۔ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو لے کر کوئی قیاس آرائیاں جنم لے رہی تھیں اور اُنہیں اگلے سال آرمی چیف بنانے کا بھی مفروضہ سامنے آگیا تھا۔ حقیقت یہی ہے کہ 2022ء میں جب جنرل قمر جاوید باوجوہ ریٹائرڈ ہو ں گے تو آرمی چیف کا قرعہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے نام ہی نکلنے کی اُمید زیادہ ہے۔
اداروں کی باہمی چپقلش اور رنجشوں کا فائدہ ہمیشہ ہی غیر ریاستی عناصر اُٹھاتے رہے ہیں اور اس موقع پر بھی ایسا ہی ہوا۔ پاکستان کی سالمیت، حکومت کی رِٹ پر کئی سوالات اُٹھائے گئے۔ اگر یہی معاملہ دو ہفتے پہلے باہمی بات چیت سے حل کرلیا جاتا تو ملک دشمن عناصروں کو موقع نہیں ملتا۔ لیکن کیا کریں صاحب عمران حکومت کے فیصلے ہی ایسے ہورہے ہیں کہ ہر کوئی اُنگلی اُٹھانے کو حلال تصور کررہا ہے۔
عام ہے کوچہ و بازار میں سرکار کی بات
اَب سرِ راہ بھی ہوتی ہے سرِ دَار کی بات
 اِس حکومت کو اپوزیشن سے نہیں بلکہ اپنے ہی ہونہاروں سے خطرات لاحق ہیں جن میں سب سے پہلے خود وزیراعظم کو عمران خان سے شدید خطرہ لاحق ہے۔ وزیراعظم کو عمران خان کی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے، کہ اب وہ وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہیں، اپوزیشن میں نہیں ہیں۔ شوہر کی فوتگی یا طلاق کے بعد عدت پوری ہوجائے تو پھر سابقہ شوہر کا کوئی واسطہ باقی نہیں رہتا۔ اب جو کچھ ہوگا وہ عورت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ مگر عمران خان اور اُن کی ہونہار کابینہ تین سال پورے ہونے کے باوجود ساری ذمہ داریاں سابقہ حکومتوں کے کھاتے میں ڈالنے پر بڑی ڈھٹائی سے مُصر ہیں۔
پیٹرول اور ڈالر کی مہنگا ہونے کی ریس نے معیشت کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ مہنگائی کا طوفان روز بروز شدت اختیار کرتا جارہا ہے، اُس میں کمی واقع نہیں ہورہی ہے۔ اس طوفان کی تباہ کاریوں کا سلسلہ جاری ہے اور پتہ نہیں کتنی تباہی اس طوفان کے پیچھے کھڑی ہے۔ اس طوفان کے سامنے بندھ باندھنا حکومت کی اوّلین ترجیح ہونی چاہئے ورنہ حکومت کا گھر جانے طے ہوجائے گا۔
گرنے والی ہے بہت جلد یہ سرکار حضور
ہاں نظر آتے ہیں ایسے ہی کچھ آثار حضور
مجھ سے کل سوال کیا گیا کہ عمران حکومت کو گھر بھیج کر دوبارہ انتخابات کروائے جانا چاہئے۔ میں نے کہا بالکل ٹھیک ہے۔ جس طرح کے حالات ہیں اُس پر یہی بات زیادہ بہتر معلوم ہوتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا گارنٹی ہے کہ اس دفعہ سابقہ دو حکمران خاندان جن کی وجہ سے آج پاکستان ترقی یافتہ ہونے کے بجائے ترقی پذیر ہی ہے، جن کی وجہ سے ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹک رہی ہے، جن کی پالیسیوں کے سبب بچہ بچہ لاکھوں روپے کے قرض میں جکڑا ہوا ہے اور خود کی جائیدادیں  پاکستان سے باہر ہیں، اُن کے شہزادے، شہزادیاں حکومت کا حصہ نہ بنیں؟وہی پُرانے بدعنوان چہرے نظام کا حصہ نہ بنیں۔ موجودہ سیاسی نظام کو تیزاب سے دھونے کی ضرورت ہے، ورنہ کوئی فائدہ نہیں۔
دوسری خبر یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ نے کراچی میں غیر قانونی طور پر تعمیر نسلہ ٹاور کو بارود سے گِرانے کا حکم نامہ جاری کردیا ہے اور ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی ہے۔
عدالت عظمیٰ کا بہت ہی خوش آئندہ فیصلہ ہے۔ غیر قانونی تعمیرات جہاں پر بھی ہو وہ غیر قانونی ہی رہتی ہے۔ چاہے وہ بلاول ہائوس ہو یا بنی گالہ۔ چیف جسٹس جناب گلزار احمد صاحب کی خدمت میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں اگر توہین عدالت نہ لگے تو:
بحیثیت منصف اعلیٰ آپ نے نسلہ ٹاور کو بموں کے زریعے گرا دینے کا حکم صادر فرمایا ہے۔
٭کیا گرانے سےپیشتر نسلہ ٹاور کی تعمیرات میں سیاسی اور سرکاری معاونین کی سرزنش کرتے ہوئے اُن کے لئے سخت سزائیں بھی تجویز کی ہیں؟
٭متاثرہ خاندانوں کو بکنگ کے وقت کی ادا کردہ قیمتوں کی سرکار کی طرف سے معافی مانگتے ہوئے ادا کرنے اور نقصانات کے ہرجانے کا بھی فیصلہ کیا ہے ؟
٭کیاسندھ حکومت، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی، ریوینیو ڈیپاٹمنٹ، ایڈمنسٹریٹر، کراچی کمشنر کراچی، ڈپٹی کمشنر، علاقائی ایس ایچ او، متعلقہ ڈی ایس پی، ایس ایس پیز، ڈی آئی جی، آئی جی سندھ، متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کے افسران و ملازمین ”سوتے رہنے” کا عذر دیکر بری الذمہ ہوسکتے ہیں؟
٭ جب اتنی بڑی عمارت کی تعمیر ہورہی تھی، این او سی دیا جارہا تھا، فلیٹ کو مالکان کے حوالے کیا جارہا تھا، کیا اُس وقت سندھ حکومت سو رہی تھی؟
آئیے میں آپ کو امریکہ کے عدالتی نظام کی سیر کراتا ہوں۔ امریکہ کو گالی دینے سے پیشتر اِس نظام پر نظر کرم ہو ہی جائے !
امریکہ اور برطانیہ کا عدالتی نظام کُفر او ر ہمارا ریاست مدینہ۔ ہم جنت کے ٹھیکیدار اور وہ جہنم کے خریدار۔
ملزم 15 سالہ میکسیکو کا لڑکا تھا۔
وہ ایک اسٹور سے چوری کرتے ہوئے پکڑا گیا۔ جب اُس نے گارڈ کی گرفت سے بچنے کی  کوشش کی تو پکڑا گیا۔ مزاحمت کے دوران ایک اسٹور شیلف بھی ٹوٹ گیا۔ جج نے چارج شیٹ سُنی اور لڑکے سے پوچھا :
جج: کیا تم نے واقعی کچھ چوری کیا؟
لڑکا: ہاں ، روٹی اور پنیر۔
جج: کیوں؟
لڑکا: کیونکہ مجھے اس کی ضرورت تھی۔
جج: آپ خرید سکتے تھے۔
لڑکا: میرے پاس پیسے نہیں تھے۔
جج: آپ اپنے خاندان سے لے سکتے ہیں۔
لڑکا: میرے گھر میں صرف ایک ماں ہے۔ وہ بیمار اور بے روزگار ہے۔ میں نے اُس کے لیے ہی روٹی اور پنیر چوری کیے۔
جج: آپ کوئی کام کیوں نہیں کرتے؟
لڑکا: میں کار واش میں کام کر رہا تھا۔
میں نے ماں کی دیکھ بھال کے لیے ایک دن کی چھٹی لی ۔
اُس وجہ سے اُنہوں نے مجھے نوکری سے نکال دیا۔
جج: آپ مدد مانگ سکتے تھے۔
لڑکا: میں صبح سے مدد کے لیے دعا کر رہا تھا۔ تاہم ، کسی نے میری مدد نہیں کی۔
پھر سماعت ختم ہوئی اور جج نے فیصلہ کرنا شروع کیا۔ جج فیصلہ سناتا ہے :
ایک روٹی چوری کرنا بدترین جرم ہے۔ اور ہم سب اِس خوفناک جُرم کے ذمہ دار ہیں۔
مجھ سمیت، کمرہ عدالت میں ہر کوئی اِس چوری کا مجرم ہے۔ میں یہاں موجود  ہر شخص پر 10 ڈالر کا جرمانہ عائد کرتا ہوں۔
کوئی بھی دس ڈالر ادا کیے بغیر عدالت سے باہر نہیں جاسکتا۔
یہ کہتے ہوئے جج نے اپنی جیب سے 10 ڈالر نکال کر میز پر رکھ دیے۔
پھر جج کہتا ہے:  اس کے علاوہ ، عدالت نے اسٹور انتظامیہ پر 1000 ڈالر کا جرمانہ عائد کیا، بھوکے بچے کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرنے اور اُسے پولیس کے حوالے کرنے پر۔ اسٹور کو 24 گھنٹوں کے اندر جرمانہ ادا کرنا ہوگا ورنہ عدالت اسٹور کو سیل کرنے کا حکم دے گی۔
فیصلے کے حتمی ریمارکس یہ تھے:  عدالت نے اسٹور مینجمنٹ اور سامعین سے جمع کیے گئے جرمانے کی ادائیگی کے دوران لڑکے سے معافی مانگی۔
فیصلہ سننے کے بعد سامعین کی آنکھوں میں آنسو تھے اور لڑکے کی ہچکی بندھی ہوئی تھی۔
اور وہ بار بار جج کو خدا ، خدا کہہ رہا تھا۔
ذرا سوچئے ؟
کیا بنی گالہ غیر قانونی ہوتے ہوئے مسمار ہوا تھا ؟
کیا بلال ہائوس کے اطراف قبضہ کرنا قانونی ہے؟
کیا حکومتی اداروں کی ناک کے نیچے غیر قانونی تعمیرات کا ہونا ممکن ہے؟

یہ دوہرا نظام کب تک !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments