اعوذباللہ پڑھنے والا


تمہید باندھنے کی صرف ضرورت پیش آ رہی ہے، ورنہ تو جس شخص کا نام جنید صاحب ہے، اگر کوئی بھی انسان اجازت دے دے تو بندا دو تین رکھ کر انہیں رسید باندھ کر دے دے۔محترم جس پیشے سے منسلک ہیں، اس کا علم تو ان کے ہاں کام کرنے والوں کو بھی نہیں تھا۔ بلکہ شاید انہیں خود بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کیا کام کرتے ہیں؟

ایسا شکلوں سے محسوس ہو رہا تھا۔ ورنہ میں کوئی غوث نہیں ہوں جو دلوں کے حال جانتا ہو۔ مجھے تو صرف انٹرویو کے لئے بلایا گیا تھا۔

کس عہدے کے لئے اس کا علم یا خدا کو تھا یا پھر جنید صاحب کو جنہیں اپنے کھلے آزار بند کا علم ابھی ابھی بس شلوار نیچے گرنے سے چند لمحے پہلے ہوا تھا۔

(میں انتظار کی آرامگاہ پر بیٹھا جنید صاحب کو دفتری دروازے سے اندر داخل ہوتے دیکھ رہا تھا)

مجھ پر چشمے سے نظر پڑی تو کہنے لگے ”جی آپ کو کیا چاہیے“ (میں گھبرا کر بولا) وہ انٹرویو کے لئے آیا تھا، اب میرا ”وہ“ ایک ہی بار نکلا تھا اس لئے ایک ہی بار لکھا ہے، ورنہ لکھاری گھبراہٹ زدہ الفاظ کو تو ایسے توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں جیسے سیاست دانوں کے بیانات سے ٹیلی ویژن والے دو دو ہاتھ کر کے چار بنا دیتے ہیں۔

(انٹرویو شروع ہو چکا تھا)

”تو اس سے پہلے کیا کام کرتے تھے“ ، تشویش ناک نظروں سے میں نے کہا ”کس سے پہلے؟“ ”میرا مطلب بچے پہلے کیا کرتے تھے، “مختلف کام کیے ہیں”، لیکن یہاں کیا کرنا ہو گا؟

جنید صاحب ”( ذرا وقفہ لینے کے بعد ) بچے یہاں آپ کو سٹور کی ذمہ داری دی جائے گی“ ، وہ تو ٹھیک ہے پر اس کے بدلے تنخواہ میں آپ مجھے کیا دیں گے؟ ،

اس سوال پر عجیب پراسرار سی خاموشی نے میرا جنید صاحب کی بے باک طبیعت سے تعارف کرایا،

لیکن مجھے بھی نوکری کی اتنی شدید ضرورت تھی، کہ نہ سٹور کا پوچھا کہ اس کے اندر کیا رکھا ہے، اور نہ ہی تنخواہ کے بارے میں معلوم کیا، بس میں نے اپنی تعلیمی قابلیت کے اعتبار سے اندازہ لگا لیا تھا، کہ یہی کچھ دس، بارہ ہزار ہو گی، زیادہ نہ یہ دے سکتے ہیں اور نا ہی میں اس کے قابل ہوں۔

ایک چیز چونکا دینے والی تھی، ”چیک“ ، جی ہاں آپ تو سیدھا مطلب تک پہنچ گئے، گارنٹی چیک جسے انگریزی میں سکیورٹی چیک کہا جاتا ہے، لیکن میں پینڈو مجھے لگا یہ کوئی پنگا ہے، مجھے لگا کہ پچاس روپے کے اسٹامپ پیپر سے کام بن جائے گا، لیکن اس کے لئے لاہور ہائیکورٹ جانا پڑے گا، اس لئے موقع پر یہ کہ کر ٹال دیا کہ اکاؤنٹ نہیں ہے، کھلوا کر چیک بنا دیں گے۔

اگلا دن دفتر میں میرا پہلا دن تھا ایک نئے باس سے میرا مکمل تعارف ہونا ابھی باقی تھا، چونکہ میں نائب قاصد تھا اس لئے دفتر باقی عملے سے پہلے پہنچنا تھا، دروازے پر عینک لگائے جنید صاحب موجود تھے، معلوم یہ ہوا کہ وہ دفتر میں ہی سوتے ہیں، چارپائی کچن میں اور بستر سٹور میں رکھتے ہیں، اور رات کو حسن سلوک سے دفتر میں بستر اور چارپائی کو اکٹھا کر کے اکیلے ہی سو جاتے ہیں۔

میں دفتر کی صفائی کر رہا تھا کہ اچانک میٹنگ روم سے اذان کی آواز آنا شروع ہو گئی، میں نے کہا پتا نہیں کوئی میت تو نہیں پڑی، میں میٹنگ روم میں گیا تو ایک کونے میں جنید صاحب جائے نماز پر کھڑے ہو کر اذان دے رہے تھے، میں نے وقت دیکھا تو صبح کے تقریباً نو بج رہے تھے پھر نماز بھی ادا کی گئی اور دعا بھی مانگی گئی، میرے لئے یہ حیران کن عمل تھا، خیر پھر موبائل پر عربی قاری کی آواز میں سورۃ یٰسین لگا کر خود باہر چلے گئے، وہم اور گمان تو یہی کہ رہے تھے کہ ناشتہ کرنے گئے ہوں گے، پردیسیوں کی یہی زندگی ہے نہ خدا کی عبادت وقت پر ہوتی ہے اور نا ہی جنس کی خواہش۔

دن میں تین دفعہ سیگریٹ پینا ان کا معمول تھا، دو دو کر کے سگریٹ منگوایا کرتے تھے،

کہا کرتے ”بچے یہ دوائی تو لے آؤ“ ، پہلی بار تو میں بھی پریشان ہو گیا کہ دوائی کو کیا کرنا ہے، پھر سمجھ آئی وہ اپنی ماں کو دوائی کہ رہے تھے، لیکن حکم دیتے ہوئے ساتھ میں ”سوری“ بھی کرتے تھے، کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ جو شخص سگریٹ لینے جا رہا ہے اگر وہ سگریٹ نہیں پیتا تو اس سے سیگریٹ منگوا کر پینا پاپ ہے،

دوپہر کا کھانا عملے کو دفتری خزانے سے دیا جاتا تھا، اور ہر فرد کے لئے پچاس روپے مختص تھے، اور یہ عملہ بھی دو افراد پر مشتمل تھا، انسان فضول خرچی سے بھی کام لے لے پھر بھی سو روپے میں دو بندوں کا کھانا آنا منچلے کا سودا ہی لگتا ہے،

پہلے دن دال سے شروعات ہوئی، اندازہ کریں سو روپے کے اندر کیا آ سکتا ہے؟ مبالغہ آرائی بھی کر لیں تو زیادہ سے زیادہ ساٹھ کی دال ماش، اور باقی بمشکل چار سے پانچ روٹیاں ہی آ سکتی ہیں، اور پھر پیسے دیتے ہوئے اکثر کہا کرتے تھے کہ جو مرضی لے آؤ۔

دن آہستہ آہستہ گزرتے گئے، اور گزرنے میں ہی ہماری سب کی بھلائی تھی۔

جنید صاحب کی طبیعت میں ”جلدی“ کا خون منفی تھا، وہ جلدی کے لفظ کو تسبیح کے دانوں پر پڑھتے رہتے تھے، اور میری طبیعت کو جلدی کا کام پسند نہیں تھا، اور بس جنید صاحب کو جب غصہ آتا وہ چیزیں توڑ دیا کرتے تھے، انٹرنیٹ لگا ہوا تھا، سارا دن انٹرنیٹ چلایا کرتے تھے، ایک دن دفتر میں اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھے موبائل فون میں گھس کر خدا جانے کیا دیکھ رہے تھے، تنہائی میں رہنے والا انسان آخر زیادہ سے زیادہ کیا دیکھ سکتا ہے،

خیر ایک دم فون آیا اور جنید صاحب نے ہیلو کہا، حسان صاحب یعنی میں باہر بیٹھا، ”اعوذ باللہ“ کا ورد سن کر چونک کر رہ گیا،

وضاحت: (جنید صاحب جب بھی غصے کی حالت میں ہوتے وہ اونچا اونچا ”اعوذ باللہ“ کا ورد کرتے شاید انہیں کسی نے بتایا ہو کہ جب بھی غصہ آئے تو اعوذ باللہ پڑھنا چاہیے، شیطان دور ہو جاتا ہے)، بس پھر کچھ یوں ہوا کہ وہ باہر نکلے اور بہن اور ماں کی گالی کے ساتھ موبائل کو یہ زمین پر دے مارا، موبائل سوویت یونین کے ٹکڑوں کی طرح زمین پر بکھر گیا، ماں بہن کی گالی کے بعد انہوں نے ایک بار پھر اعوذ باللہ پڑھنا شروع کر دیا تھا، اور میں فون کرنے والے کو گالیاں نکال رہا تھا، ہوا یوں تھا کہ آرڈر منڈی بہاؤ الدین کی بجائے پنڈی بھٹیاں چلا گیا تھا، ایسا ہی کچھ میرے ساتھ بھی ہو رہا تھا، مجھے نوکری کے لئے جانا کہیں اور تھا اور میں آ کہیں اور گیا تھا، جس پر اب افسوس ہی کیا جا سکتا ہے میں تو موبائل توڑنے سے رہا۔

شیطان سے پناہ کے لئے تو وہ عربی کلمات پڑھا کرتے تھے لیکن پیسے سے پناہ وہ کبھی نہیں مانگا کرتے تھے، انتہا کے کنجوس انسان سے شاید زندگی میں پہلی بار واسطہ پڑا تھا، عملے کو دال کھلا کھلا کر وہ مار رہا تھا، مہمانوں کو بھی کھانے میں نمک، پانی دیا جاتا تھا، جس کا مقصد مہمان نوازی تھا لیکن پھر باقاعدہ اس کے پیسے لئے جاتے تھے، اور یہ پیسے مانگنے کا کام بھی میں کیا کرتا تھا، وہ خود سیٹھ صاحب جو تھے اور میں یعنی کہ میں۔ لیکن مانگنے پڑتے تھے، ہمارے کون سے برف کے کارخانے تھے۔

میں اکثر یتیموں جیسا منہ بنا کر سوچا کرتا تھا کہ ایسی زندگی کا کیا فائدہ؟ نہ عملہ خوش، نا ڈیلر خوش اور وہ خود، انتہائی کنجوس انسان اپنے لئے چند روپوں کی ہڈی لے کر نہیں کھا سکتا تھا، لیکن ہمارے گلے کی ہڈی وہ بن چکا تھا، ایسی ہڈی جسے اگلا تو جا سکتا تھا، لیکن ابھی تنخواہ پھنسی ہوئی تھی، ابھی کے لئے نگلنا بہتر تھا، خر دماغ کو نہ کچھ کہ سکتے تھے اور نہ ہی کچھ سننے کی ہمت تھی، لیکن کیا کرتے معاملہ تنخواہ کا تھا، چودھراہٹ کو ہم نے چاٹ کر کیا کرنا جب کوئی اپنا دیکھ بھی نہیں رہا تو پھر چودھراہٹ کو چاٹ کر تو ویسے بھی کیا کرنا؟

یہی سوچتے سوچتے ہم نے وہاں دو ماہ گزار دیے، چیک کا ورد ایک بار پھر شروع ہو گیا تھا، کہ جمع کراؤ گے تو تنخواہ ملے گی ورنہ لے لو، یہ دھمکی تھی، پر چیک والی بات میری نوکر والی سوچ کی سمجھ سے بھی بالاتر تھی پہلے دن نا کی تھی۔ اب بھی نہ ہے، یہ سن باس کچھ مشکلات کا شکار محسوس ہوئے، کہ یہ بات سمجھ کیوں نہیں رہا؟ چیک کے رولے اور پھر بات یہاں تک پہنچ گئی کہ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ میں کل سے نہیں آؤں گا

یہ سن کر وہ اور پریشان کیونکہ تین ملازموں کا کام یہ بندہ ناچیز اکیلے کر رہا تھا، میری ایک چھٹی سے انہیں مرگی کے دورے پڑنا شروع ہو جاتے تھے یہاں تو بات سرے سے نوکری چھوڑنے کی ہو رہی تھی، کہنے لگے نہیں بچے تم غصہ کر رہے ہو، میں نے کہا ابھی بھی میں ہی غصہ کر رہا ہوں؟ کہنے لگے چند دن آؤ تنخواہ مل جائے گی، مسئلہ ایک اور بھی تھا، منشی صاحب بھی چند دن پہلے چھوڑ کر تتر بتر ہو گئے تھے اور نیا منشی روز پیسے کم کر بیٹھتا تھا، روز رات کو حساب کے وقت دفتر سے زور زور سے اعوذ باللہ کی آوازیں آتی، ایک دن منشی یار خان مجھے کہنے لگا یہ اعوذ باللہ کیوں پڑھتے ہیں؟ میں نے کہا چند دنوں تک میں چلا جاؤں گا تمہیں لگ پتا جائے گا کہ یہ شیطان سے پناہ کیوں مانگتے ہیں۔

دو دن کے بعد تنخواہ مل گئی، وہ سوچ رہے تھے کہ اب یہ مہینہ بھی چل جائے گا، لیکن بندہ ناچیز اگلے دن نوکری سے ایسی رفو چکر ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ، آج تک جنید صاحب کو معلوم نہیں کہ ہم نے وہ نوکری کیوں چھوڑی؟ اور پھر انہیں بتا کر بھی تو نہیں چھوڑی، یہ دال کا بدلہ تھا۔

جب چھوٹے لوگ بڑے بن بیٹھتے ہیں تو وہ ایسا ہی کرتے ہیں، جیسا جنید صاحب نے کیا، یہ ایک سوچ ہے، بڑی سی فرم یا کاروبار کا باس ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے اور اسی لئے میرے جیسے مجبور لوگ یا تو گھٹن میں کام کرتے رہتے ہیں یا پھر چند ماہ کے بعد اچانک تنخواہ لے کر رفو چکر ہو جاتے ہیں، اور دونوں عمل عام انسان کی زندگیوں پر گہرا اثر رکھتے ہیں، ایک میں وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جائے گا اور دوسرے میں وہ پھر بے روزگار ہو جاتے ہیں۔ اور یہ اثر نفسیاتی مسائل سے بھی گہرا ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments