نشتر میڈیکل کالج میں گمبھیر آواز والا ” لوا ” ٹائپ کا مگر ہلکی مونچھوں سمیت “میری جان ” کہہ کے بات کرنے والا یہ گورا چٹا حسین نوجوان مجھے کالج میں خود سے دو سال جونیئر مگر ایک ہی شہر اور کنبوں کی باہمی شناسائی کے سبب دوست بن جانے والے اعجاز حسین ( بلو) کے توسط سے ملا تھا۔ اس کا نام ابرار احمد تھا جسے اور ابراروں سے ممتاز کرنے کی خاطر ہم اسے ابرار مرزائی کہا کرتے۔ اس کے پیچھے نہیں اس کے منہ پر بھی۔ ویسے وہ کہاں کا مرزائی تھا، بس دوست اور بھائی تھا۔
نظمیں کہتا اور مجھے سناتا کیونکہ تب میں بھی شاعری کرتا تھا۔ اسے گلہ ہی رہا۔ کہا کرتا،” مرزا تم داد دینے میں بہت خسیس ہو مگر جب داد دیتے ہو تو کھل کے دیتے ہو”۔ مجھے اس کی شاعری اچھی بھی لگتی اور بعض اوقات روایتی بھی۔ روایتی اس لیے کہ اسے منیر نیازی بہت پسند تھے اور وہ ان جیسا شاعر بننا چاہتا تھا۔ نام ابرار احمد تھا اور جاوید تخلص لکھتا۔ پورا نام ابرار احمد جاوید لکھتا تھا تب۔
پھر ہم اچھے دوست بن گئے یعنی اکثر ملتے مگر چونکہ ہم جماعت نہیں تھے اس لیے گہری دوستی کے اپنے اپنے حلقے تھے۔ ویسے تو وہ اپنے مذہب والے آغا اور خالد احمد کے ساتھ دکھائی دیتا مگر ان کے علاوہ اس کی دوستی کالج کے ذہین اور ادب دوست مطالعہ کی جانب مائل لڑکوں سے بھی تھی۔خالد احمد کچھ عرصہ میرے کمرہ میں بھی رہا جب میں غالبا” چوتھے سال میں تھا کہ نشتر کے طالبعلموں کے ساتھ، جب وہ سوات کی ایکسکرشن سے لوٹ رہے تھے،  ربوہ میں تشدد کا واقعہ ہو گیا جو بعد میں مرزائیوں کو سرکاری طور پر غیر مسلم قرار دلوانے کی وجہ بنا۔
مجھے بھی بھنک پڑ گئی تھی کہ جمعیت والے ربوہ میں نعرہ بازی کا پروگرام لے کے جا رہے ہیں۔ تب جمعیت کا رکن ارباب عالم یونین کا صدر یا جنرل سیکرٹری تھا۔ میں نے تو ریلوے سٹیشن سے ہی باوجود اس کے یقین دلانے کے اس سے اپنے دیے پیسے واپس لے لیے تھے اور اپنے ہم جماعت ابرار خان اور حامد خان کے ساتھ کاغان چلا گیا تھا۔ ابرار احمد جاوید بھی اس ٹرپ میں شامل نہیں ہوا تھا۔
پھر مشہور ہوا کہ جمعیت کے منصوبے سے ربوہ والوں کو چنیوٹ کے سنیاروں کے اتھرے منڈے ابرار احمد جاوید نے آگاہ کیا تھا۔ مجھے یوں یاد رہا جیسے یہ بات خود ابرار نے مجھے بتائی تھی۔ میں نے اپنی خودنوشت میں، جو 2019 میں شائع ہوئی ایسے ہی لکھ دیا تھا۔ فروری 2020 میں ملتان پہنچا تو ڈاکٹر اعجاز حسین نے بتایا کہ حاجی پریشان ہے اور تم سے ناراض بھی۔ وہ ابرار احمد کو حاجی ہی پکارتا تھا۔ میں نے پوچھا کیوں؟ تو اس نے بتایا کہ کسی نے اسے بتایا ہے کہ تم نے اپنی خود نوشت میں اس کے خلاف کچھ لکھ دیا ہے۔
میں نے ابرار کو فون کیا۔ وہ اتنا ناراض تو نہیں البتہ پریشان تھا۔ اس نے تردید کی کہ اس نے ربوہ والوں کو کوئی اطلاع نہیں دی تھی۔ میں ڈٹا رہا کہ تم نے خود مجھے بتایا تھا اور کہا کہ اب تو چالیس سال کے قریب ہونے کو آئے ہیں، اب کیوں ڈرتے ہو؟ کہنے لگا یار یہ بڑے وحشی لوگ ہیں ۔۔ اتھرا منڈا بوڑھا ہو چکا تھا۔۔ ہاں یاد آیا، اسے بڑھاپا اچھا نہیں لگتا تھا۔ ایک بار میں نے کہہ دیا کہ یار ابرار بوڑھے ہونے لگے ہو تو اس نے کئی بار پوچھا،” یار مجاہد سچ بتاو، کیا میں واقعی بوڑھا ہو رہا ہوں۔”
 تو میں بتا رہا تھا کہ اس نے میری کتاب پڑھ لی تھی۔ اس نے بتایا کہ ایسی کوئی خاص بات تو نہیں لکھی تم نے۔ خیر لکھ دیا تو لکھ دیا لیکن اگر اگلا ایڈیشن چھپے تو یہ حذف کر دینا۔ میں نے کہا کہ میں تو اب ابرار مرزائی کا بھی اضافہ کروں گا تو اس نے اپنی مخصوص کھرج والی آواز میں ایک گالی جڑی، لہجے میں مسکراہٹ مچل رہی تھی اور میں نے حذف کر دینے کا وعدہ کر لیا تھا۔
میری پہلی عشق کی شادی کے ظلم کا ابرار اولین مجرم تھا کیونکہ وہی مجھے اپنے ساتھ کسی لڑکی کی عیادت کے لیے ہوسٹل سے ہسپتال لے گیا تھا جہاں میری میمونہ خالد سے اتفاقی ملاقات ہو گئی تھی جو بعد میں میری بیوی بنی۔ ان دنوں میں موٹر سائیکل اندھا دھند چلاتا۔ میرے پیچھے بیٹھا ابرار میرے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے کہتا” مرزا، آہستہ”۔۔ میں طنز کرتا،” مرنے سے بہت ڈرتے ہو ” تو کہتا،” مرنے سے نہیں، اذیت سے ڈرتا ہوں”۔
آج میں تین بجے گھر لوٹا۔ کوئی ساڑھے تین لیپ ٹاپ کھولا۔ فیس بک پر مبارک احمد کی ابرار کی رحلت بارے پوسٹ پڑھی تو یقین جانیے دل بیٹھ گیا۔ ابرار بیمار تھا، نہ مجھے علم تھا ، نہ اعجاز حسین کو۔۔۔ جمیل الرحمان کی پوسٹ میں دیکھا کہ اس نے موت سے پہلے اذیت سہی تھی۔
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور ؟